آدھے پاکستان کو عظیم نعمت کے طور پر ملنے والی وسیم اکرم پلس کی حکومت کے ہوم ڈپیارٹمنٹ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیاہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے بھر میں کرائے داروں کو دس جون تک کرایہ ادا نہ کرنے کی صورت میں جبری طور پرمکانوں یا دکانوں سے نکالا نہیں جا سکے گا اور اگرہم اس نوٹیفیکیشن کی فیس ویلیو، پر جائیں تو یہ غریب کرائے داروں کے درد میں ڈوبی حکومت کا منصفانہ اقدام نظر آتا ہے کہ جہاں نہ کاروبار ہو رہا ہے اور نہ ہی بہت سارے اداروں میں تنخواہیں مل رہی ہوں تو کرائے دار، کرایہ کہاں سے ادا کریں۔ اگر آپ نتائج کو ماپنے کی عقل اور زمینی حقائق کے فہم سے عاری ہیں تو سوشل میڈیا پر اس کے حق میں بڑی واہ واہ کر سکتے ہیں، لال لال دل والے سمائیلی پوسٹ کر سکتے ہیں بلکہ وہ بھی جس میں ہونٹ لال ہیں اور باہر نکلے ہوئے ہیں۔
میرے ایک مہربان دوست کا کہنا ہے کہ اس پوسٹ میں یہ کہیں ذکر ہی نہیں کہ اگر دکان کا مکان کامالک کرائے پر اصرار کرے تو پولیس طلب کی جا سکتی ہے لہذا اس کی یہ تشریح محض انتشار پھیلانے کی کوشش ہے اور عظیم آسمانی وحکمرانی زبان انگریزی سے لاعلمی کی بدولت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں انگریزی سے لاعلم ہی ہوں مگر میں اپنے ہوم ڈپیارٹمنٹ اوراس کے جاری کردہ احکام سے پوری طرح واقف ہوں اور اگر اس نوٹیفیکیشن پر آپ پولیس کے ذریعے عمل نہیں کرواتے تو پھر آپ اس پر دال سویاں رکھ کر کھائیں یا امرود کٹوا کے نمک مرچ ڈلوا لیں، یہ آپ کی چوائس ہے۔ پولیس کے مالک و مختار ہوم ڈپیارٹمنٹ نے یہ نوٹیفیکشن دی کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898، انگریز دور کے ایک سو بتیس سال پرانے، قانون کے تحت نکالا ہے جس کے لئے سیکشن 144 کی ذیلی دفعہ چھ میں دی گئی طاقت کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ طاقت وہی ہے جس کے تحت حکم نامے کی خلاف ورزی پر آپ پر اجتماع کرنے یا ڈبل سواری کرنے پر ایف آئی آر ہوتی ہے، آپ گرفتار ہوتے ہیں اور پھر جیل یاترا بھی کر آتے ہیں۔
اب آجائیں حکم نامے کی قانونی پوزیشن کے بعد زمینی حقائق پر جو یہ بتاتے ہیں کہ تمام لینڈلارڈ واقعی اپنے دکھائی دئیے جانے والے معنوں میں لینڈ لارڈ نہیں ہیں۔ ہمارے کرائے پر مکانوں میں تین چوتھائی ایسے ہیں جو پورشن کی صورت میں ہیں یعنی گھر والوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے گھر کے ایک حصے میں ایک دوسری فیملی کو بھی رکھا ہوا ہے جو ظاہر ہے مجبوری ہے، عیاشی نہیں۔ آپ ڈھونڈنے نکلیں تو آپ کو ہزاروں ایسے گھر مل جائیں گے جن میں رہنے والے ریٹائرڈ بزرگ، بیوائیں، بیمار، لاچار لوگ گھر کا کچن ہی کرائے سے چلاتے ہیں۔ یہ وہ لینڈ لارڈ ہیں جو عمران خان صاحب کی حالیہ خیرات سکیم میں بھی خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواسکتے اور نہ ہی گلی محلوں میں ملنے والی بھیک میں جا کے فوٹو کھنچوا سکتے ہیں۔ پنجاب کی عظیم حکومت نے انہیں باورچی خانے کی دال روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے۔
جناب عثمان بُزدار کی حکومت بہت رحم دل ہے، بہت دیالو ہے تو وہ اپنے پلے سے ان تمام کرائے داروں کے کرائے ادا کیوں نہیں کردیتی جو کرایہ اداکرنے سے مجبور ہیں، بے بس ہیں۔ یہ عجیب و غریب قسم کا رحم اور کرم ہے جو دوسروں کی جیب میں ڈنڈے کے زور پر ہاتھ ڈال کر کیا جا رہا ہے اورمجھے تویہاں ان کرائے داروں سے بھی کہنا ہے جو کرایہ نہ دینے کے لئے ریاستی قوت پولیس کو طلب کرنے کا اختیار پا چکے ہیں کہ کیا حکومت نے اس نوٹیفکیشن کے ذریعے دس جون تک کرایہ معاف کر دیا ہے، ہرگز نہیں، یہ کہیں بھی نہیں لکھا بلکہ جب دس جون آئے گا تو آپ کو اپریل اور مئی کا کرایہ یکمشت ادا کرنا ہوگا اور اگر مارچ کا بھی اب تک نہیں کیا تو تین مہینے کی ادائیگی ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کرایہ دس ہزار ہے، بیس ہزار ہے یا چالیس ہزار، جب کرائے داروں کے پاس یہ رقم نہیں تو پھر تین ماہ کے بعد اکٹھے تیس ہزار، ساٹھ ہزار اور ایک لاکھ بیس ہزار کہاں سے لائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ایک ہی مرتبہ ڈیفالٹر ہوں گے۔ گلی گلی اور محلے محلے میں لڑائیاں ہوں گی۔ خواتین ایک دوسرے کے بال نوچیں گی، کچھ مرد ڈنڈے چلائیں گے اور کچھ گولیاں تاکہ اپنے مکان خالی کروا سکیں۔ مجھے تو یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب ایک مالک مکان کو کرائے دار نے پولیس کے ہتھے چڑھوا دیا تو کیا وہ اسے اپنے مکان میں رکھے گا؟
انگریز کا فارمولہ تھا کہ لڑاو اور حکومت کرو، وہ اپنی محکوم مگرغیر قوموں کو لڑواتھا مگر ہمارے کاٹھے انگریز اپنی ہی قوم کو لڑوانے، مروانے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اگر یہ بیوروکریٹ اور ان پر بیٹھے ہوئے ناتجربہ کار حکمران کرائے داروں کے اتنے ہی سگے ہیں تو اس برس پراپرٹی ٹیکس معاف کردیں، پانی اور بجلی کے بل معاف کر دیں اور مالک مکانوں سے کہیں کہ اس پراپرٹی ٹیکس کے برابر ریلیف کرائے داروں کو دے دیا جائے۔ کرائے داروں کی ہمدردی کا یہ ایک طریقہ یہ تھا کہ رجسٹرڈ کرائے ناموں پرحکومت تین ماہ کے کرائے کے برابر آسان قرض دے دیتی جو ایک، دو برس میں واپس ہوتا۔ مجھے ایک حکومتی ترجمان نے بتایا کہ اس وقت کرونا وائرس ریلیف آرڈیننس نافذ ہے جس کے تحت شہریوں کے آئینی حقوق غصب کئے جا سکتے ہیں یعنی آپ نے نقل وحرکت کا حق غصب کر لیا، آپ نے کاروبار کا حق غصب کر لیا۔ میں نے مان لیا کہ اس کے تحت کرائے داری کے قانون پر بھی روک لگ گئی مگر سوال یہ ہے کہ آپ کو کرونا ریلیف آرڈیننس کے تحت میری جیب میں ہاتھ ڈال کر رقم چھیننے اور دوسرے کو دینے کا حق کیسے مل گیا؟
میں جانتا بھی ہوں اور مانتا بھی ہوں کہ اس وقت بہت سارے لوگ مشکل کاشکار ہیں اور حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ مشکلات دور کرنے کے لئے اقدامات بھی کریں مگر ایک حکومت ایسا قدم کیسے اٹھا سکتی ہے جس سے ایک طبقے کی مشکل حل ہو اور دوسرے کی پیدا ہوجائے۔ حکومتیں ایسے معاملات میں خاموش رہتی ہیں اور شہریوں کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کے موقعے دیتی ہیں۔ وہ ایک فریق کے حق کو غصب کرتے ہوئے مخالف فریق کے ہاتھ میں ڈنڈا اور جیل بھیجنے کا اختیار نہیں دیتیں۔ مان لیجئے، یہ ہماری تاریخ کے کنفیوژ ترین حکمران ہیں جو محض سوشل میڈیا پر واہ واہ چاہتے ہیں اور رہ گئی بیوروکریسی تو اس کی اہلیت پہلے ہی سب پر عیاں ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس موقعے پر اس بیوروکریٹ نے ہی کمال کیا ہے جوعقل، فہم، تجربے اور تدبر میں بہت بہتر سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت تک اطلاعات یہ ہیں کہ مختلف شاپنگ پلازوں کی یونینوں نے ڈنڈے سوٹے اٹھا لئے ہیں اور پلاننگ کر لی ہے کہ پلازے کا مالک کرایہ مانگنے آیا تو اس کے کُھنے کھول دئیے جائیں گے اور اس کے بعد اسی پر کرایہ مانگنے کا مقدمہ درج کروا دیا جائے گا۔ آئیے ہم سب عثمان بُزدار زندہ باد کے نعرے لگائیں جن کی قیادت ہمیں ایک نعمت اور سعادت کے طور پر ملی ہے، یقینی طور پر ان کا دور نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔