گوجرانوالہ میں اپنے پہلے جلسے کا اعلان کر کے پی ڈی ایم نے کسی باقاعدہ تحریک سے پہلے ہی حکومت پربالادستی حاصل کر لی ہے کہ حکمران اسی فیصلے پر پھنس کر رہ گئے کہ جلسے کی اجازت دی بھی جائے یا نہیں جس کے لئے سیاسی دماغ لڑانے کے بجائے سپیشل برانچ اور دیگر اداروں سے رپورٹس تیار کروائی گئیں۔ مسلم لیگ نون نے جمعے کے روز جناح سٹیڈیم میں جلسے کا اعلان کررکھا ہے جس سے بلاول بھٹو زرداری بھی خطاب کریں گے جبکہ مریم نوازشریف لاہور سے جلوس کے ساتھ گوجرانوالہ پہنچیں گی۔ یہ رپورٹس اتنی دلچسپ ہیں کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے جس نے سابق وزیراعظم کی جی ٹی روڈ ریلی میں سب سے زیادہ رسپانس دیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ جناح سٹیڈیم کے اندر مجموعی طور پر اگرچہ گنجائش تیس ہزارکی ہے مگر پچاس ہزار تک لوگ آسکتے ہیں۔ سپیشل برانچ کی رپورٹ نے بتایا ہے کہ گوجرانوالہ کے چاروں اطراف سے جب لوگ جلسہ گاہ کی طرف آئیں گے تو جمعے کے روز ہر طرف ٹریفک بلاک ہوسکتی ہے۔ سپیشل برانچ نے خبردار کیا ہے کہ مسلم لیگ نون کی طرف سے معطل پارٹی رکنیت والے ایم پی اے اشرف انصاری اور رہنما پی ٹی آئی یونس انصاری نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد پنڈی بائی پاس سے چن دا قلعہ تک جوابی ریلی کا جو اعلان کیا ہے اس کے نتیجے میں ایک بڑا تصادم ہو سکتا ہے جو کسی صورت حکومت کے حق میں نہیں جائے گا۔ سپیشل برانچ نے نام لے کر کہا ہے کہ عمران خالدبٹ عرف پومی بٹ سمیت دیگر وہی ہیں جنہوں نے عمران خان کی دھرنے والی ریلی پر پتھراو کر کے انہیں گوجرانوالہ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا اور پھر وہ اسلام آباد میں ہی نمودار ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ کے انصاریوں کو یہ پنگا نہیں لینا چاہئے تھا کہ اگر وہ ریلی کرتے ہیں تو کسی تصادم کی صورت میں ذمے دارقرارپاتے ہیں اور اگر نہیں کرتے تو بھاگ نکلنے کا تاثر ابھرتا ہے یوں لگتا ہے کہ حکومت کے پاس سیاسی دماغ اور حکمت عملی نام کی کوئی شے نہیں ہے اور وہ صرف اورصرف اداروں کی قوت پر بھروسا کر رہی ہے۔
گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ نے پہلے مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ خان کو بتایا کہ وہ انہیں جلسے کی اجازت نہیں دے رہے جس پر انہوں نے مریم نواز شریف سے رابطہ کیا۔ اس سے پہلے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر گوجرانوالہ میں جلسے کی اجازت نہ ملنے پر وہی دھمکی دے چکے ہیں جو مولانا فضل الرحمان کو نیب کی طرف سے طلب کئے جانے پران کے بھائی عطاءالرحمان نے دی تھی کہ اگر مولانافضل الرحمان کو طلب کیا گیا تو اس کے جواب میں وہ کور کمانڈر پشاور کے گھر کے باہر دھرنا دیں گے۔ عطاءالرحمان کی اس دھمکی کے بعد نیب نے مولانا فضل الرحمان کو طلب کرنے کے نوٹس کی خبر سے لاتعلقی ظاہر کر دی تھی مگر دوسری طرف کیپٹن صفدر کے خلاف ایسی ہی تقریر پر بغاوت کامقدمہ درج ہو چکا ہے۔ حکومت کے پاس یہ رپورٹس بھی موجود ہیں کہ جہاں گوجرانوالہ میں مسلم لیگ نون کا بڑاووٹ اور سپورٹ بنک موجود ہے وہاں لاہور، شیخوپورہ، سیالکوٹ، نارووال، گجرات اورمنڈی بہاوالدین تک سے بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت یقینی ہے کیونکہ لوگ اس وقت مہنگائی، بدانتظامی اورکرپشن سے انتہائی تنگ ہیں۔ یہ رپورٹس بھی موجود ہیں کہ گوجرانوالہ اور نواحی اضلاع میں ایسے چھوٹے بڑے مدرسوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن پر جمعیت العلمائے اسلام (ف) کا کنٹرول یا نمایاں اثرورسوخ ہے۔ ان تمام مدرسوں کے طالب علموں کو روکا جانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور اگر پی ٹی آئی کی مجوزہ ریلی کے ساتھ کسی بھی جگہ تصادم ہو گیا تو لہو بھی بہہ سکتا ہے۔ انتظامیہ کے لئے وہ ریلی بھی الگ سے تشویش کا باعث ہے جس کی قیادت مریم نواز شریف لاہور سے گوجرانوالہ تک کریں گی۔
پی ڈی ایم نے پہلے جلسے کے لئے گوجرانوالہ کا انتخاب کر کے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے کہ گوجرانوالہ لاہور سے صرف ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اوریہاں اپوزیشن کو کسی بھی دوسرے شہر کی نسبت بہت سٹرانگ میڈیا کوریج مل سکتی ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے حکومت کے پاس کھیلے جانے کے پتے کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حکومت نے اس امر پر بھی رپورٹس طلب کی ہیں کہ اگر جلسے پرکرونایا دہشت گردی کی بنیاد پر پابندی لگا دی جائے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ایسا کیا تو اسے بڑے پیمانے پر بہت سارے شہروں میں کریک ڈاون کرنا پڑے گا اور اپوزیشن کے متحرک کارکنوں کو گرفتار کرناپڑے گا مگر اس کے باوجود وپولیٹیکل ایکٹی ویٹی کو نہیں رک سکے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے لئے حکومت کومریم نواز شریف کو بھی گرفتار یا کم از کم نظربند کرنا پڑے گا اور اس خبر کی اہمیت بین الاقوامی ہوجائے گی۔ اپوزیشن اس موقعے پر حکومت کی توجہ مہنگائی اور بیڈ گورننس کے بجائے اپنے سے مقابلے پر لگانے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے لہٰذا سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں مہنگائی مزیدبڑھے گی۔ جلسہ ہو یا کریک ڈاون ہودونوں کے نتیجے میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں عدم اطمینان اور عدم اعتماد بڑھے گا اور دو برسوں میں ناقص ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حکومت کے ہاتھ پاوں پھولنے کے بعد اس امر کا کوئی امکان نہیں رہے گاکہ وہ کسی ترقیاتی منصوبے یا عوامی ریلیف کے پروگرام سے عوام کو مطمئن کرسکے۔ دوسری طرف پہلا کامیاب جلسہ اپوزیشن کے حوصلے بلند کر دے گا اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ اس لانگ مارچ کی طرف بڑھ سکے گی جس کے نتیجے میں اسمبلیوں سے استعفوں اور حکومت کی رخصتی کی امید لگائی جا رہی ہے۔
ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکومت بھی چاہتی ہے کہ تحریک کا رخ اداروں کی طرف رہے۔ اپوزیشن، نواز شریف کی تقریر کے بعد، یہ اس لئے چاہتی ہے کہ وہ جانتی ہے کہ اسی کے ذریعے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ تحریک عدم اعتماداور ان ہاوس تبدیلی کا آپشن بھی اوپن رکھا ہے مگر مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کے نزدیک یہ بوجودممکن نہیں ہے۔ شاہدرہ لاہور والے غداری اوربغاوت کے مقدمے میں حکومت نے لاتعلقی کا اظہار کر کے اپوزیشن کی اسی حکمت عملی کو تقویت دی ہے مگراس کا دوسرانتیجہ یہ نکلے گاکہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد حکومت مزیدغیر متعلقہ اور غیر اہم ہوتی چلی جائے گی اور یہ صورتحال کسی طور پر بھی حکومت اور اداروں کے مفاد میں نہیں ہوگی۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سیاسی تحریکوں میں اداروں کو کم سے کم ڈسکس ہونا چاہئے اور سیاسی بوجھ ہمیشہ سیاسی اداروں کو ہی اٹھانا چاہئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اداروں کی نمائندگی جس سیاسی قوت نے کرنی ہے اگر اسے اداروں کی سپورٹ نہ ہو تو اس کی اپنی ٹانگوں میں ا تنا دم خم ہی نہیں کہ تین ماہ بھی بطور حکومت کھڑ ی رہ سکے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ جس گھوڑے پر سواری کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ گھوڑا اپنا بوجھ بھی آپ پر لاد دیتا ہے، ایسے گھوڑے کو اٹھا کے سفر ناممکن ہوجاتاہے۔