خان صاحب کنٹینر پر آزادی اظہار رائے کا بہت شور مچاتے تھے اور خطاب فرماتے ہوئے شلواریں گیلی ہونے جیسی باتوں تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ جب خود اپوزیشن میں تھے تو پارلیمنٹ، ایوان وزیراعظم اور پی ٹی وی پر حملے کو عین جمہوری جدوجہد سمجھتے تھے اور ہنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے سے سول نافرمانی تک کو عین اخلاقی، سیاسی اور قانونی مگر اب وہ اقتدار میں ہیں اور ان کے بغل بچے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے تحریک چلائی تو کورونا بھی ہوسکتا ہے اور دہشت گردی بھی، یعنی یہ دونوں آپ کے کنٹرول میں ہیں اور خان صاحب خود فرما رہے ہیں کہ وہ خود جمہوریت ہیں اور اپوزیشن ڈاکو ہے۔
مجھے خا ن صاحب کے حالیہ خطاب پر بات نہیں کرنی جوان کی سیاسی فلاسفی کی مکمل عکاسی ہے۔ مجھے اس سے کہیں چھوٹے مگر اہم ایشو پر بات کرنی ہے کہ ان کی حکومت نے تفریحی ویڈیوز کی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ ایپ بنیادی طور پر چین کی بنائی ہوئی ہے اور اس سے پہلے محض دشمنی کی بنیاد پر امریکا اور انڈیا اس پر پابندی لگا چکے ہیں۔ یہ ایپ امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم مودی کے لئے اتنی ہی خوفناک اور ڈراونی ثابت ہو رہی تھی جتنی یہاں خان صاحب کے لئے۔ معاملہ یوں ہے کہ سوشل میڈیا پر فیک اور پیڈ اکاونٹس کے ذریعے مکمل کنٹرول کے باوجود حکمران جماعت پی ٹی آئی اس ایپ پر اپنے خلاف تنقیدی ویڈیوز کا جواب نہیں دے پا رہی تھی جس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ فیس بک یا ٹوئیٹر پر آپ جعلی اکاونٹ بنا کے جتنی چاہے گالیوں بھری پوسٹس کر سکتے ہیں مگرٹک ٹاک پر پوسٹ اور رسپانس کے لئے محض گالی گلوچ نہیں بلکہ ٹیلنٹ بھی درکار ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ پی ٹی اے کی طرف سے ٹک ٹاک کو بین کرنے کے لئے غیر اخلاقی ویڈیوز کا جواز انتہائی بھونڈا اور بے بنیاد ہے کیونکہ غیر اخلاقی پن کسی ایپ میں نہیں ہے، لوگوں کے روئیوں میں ہے اور کیا سیاسی جماعتوں کے کارکن فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایک دوسرے کو ماں، بہن کی گالیاں نہیں دیتے؟
میری نظرمیں ٹک ٹاک یا اسی جیسی کوئی بھی دوسری ایپ مہنگائی، بے روزگاری اور ناامیدی کے اس دور میں صرف ایک تفریحی ایپ نہیں جس کی ویڈیوز دیکھ کر آپ مسکرا لیتے تھے، اپنا ذہنی دباو کم کر لیتے تھے بلکہ اس سے بھی کہیں آگے یہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک بڑا ذریعہ ہے، وہ نوجوان نسل جو منشیات کی طرف بھی جا سکتی ہے اور انتہا پسندی کی طرف بھی۔ خان صاحب کی یہ سوچ اپنے اصول، ضابطوں اور احکام میں وہی ضیاءالحقی، لئے ہوئے ہے جس نے عشروں پہلے ہماری فلم انڈسٹری کو قتل کر دیا، اس سوچ نے ہماری اشتہاری صنعت کو تباہ و برباد کیا اور انڈیا اس انڈسٹری میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا۔ ہمارے ہاں سٹیج ڈرامہ مقبول ہوا مگر اسے اپنی مقبولیت کے لئے پھکڑپن کا سہارا لینا پڑا۔ میں اپنے پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ٹک ٹاک کے ذریعے ہمارے گلی محلے کے عام نوجوانوں نے ثابت کیا کہ وہ بڑے بڑے چینلوں کے معروف اداکاروں سے زیادہ ریٹنگ اور مقبولیت لینے کا ہنر جانتے ہیں مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ کوئی ڈرامہ سیریل بنا کے اس میں خود کو متعارف کر وا سکیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی پرچی کوئی ریفرنس ہے جس پر انہیں کوئی فلم ساز یا ڈراما میکر گھاس ڈالے۔ ان میں وہ لڑکیاں بھی شامل ہیں جو محض اپنی چند سیکنڈز کی ویڈیوز سے بڑی بڑی اداکاراوں جیسی سیلیبریٹی بن گئیں، جی ہاں، وہ لڑکیاں جو کسی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے بستر کے راستے سے چانس نہیں لینا چاہتی تھیں۔ میں اضافی طور پر یہ بھی کہوں گا کہ جب ہماری فلم انڈسٹری سسک رہی اور چینلز بند ہو رہے ہیں تو ہمارے بہت سارے کیمرہ مینوں، نان لینئر ایڈیٹروں اور کانٹینٹ رائٹروں کو بہت ساری بننے والی چھوٹی چھوٹی کمپنیوں میں روزگار ملا اور ان کے گھر کا چولہا جلنے لگا مگر خان صاحب کے پی ٹی اے نے غیر اخلاقی ویڈیوز کابہانہ بنا کے سب کچھ بند کر کے رکھ دیا ہے۔
بات صرف اتنی نہیں کہ ٹک ٹاک بند ہو گئی اور ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں کے اظہار کا مقبول ذریعہ ختم ہو گیا، وہ لائیکی پر چلے جائیں گے تو اس کو بھی بند کر دیجئے گا تو وہ اس کے بعد ٹوئیٹر پر کام شروع کر دیں گے، اپنے فین اور فالوور گروپ بنا لیں گے، د و منٹ دس سیکنڈ کی ویڈیوز وہاں شئیر کرنا شروع کر دیں تو کیا پی ٹی آئی اپنی مقبولیت کا بیس کیمپ بھی بند کر دے گی کیونکہ ڈر اور خوف کی کوئی آخری سرحد نہیں ہوتی اور جب آپ بھاگنا شروع کر تے ہیں تو پھر اس وقت تک بھاگتے رہتے ہیں جب تک گر نہیں جاتے۔ جناب فاروق عادل ٹک ٹاک کے بند ہونے کو ایک بڑے کینوس پر دیکھتے ہیں کہ ٹک ٹاک چائینز ایپ ہے اور اس سے پہلے امریکا اور انڈیا بھی اس پر پابندی لگا چکے ہیں اور ہم نے اس پابندی کے ذریعے امریکی کیمپ جوائن کر لیا ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ موجودہ حکومت نے سی پیک کو محدود کر کے چین کی حکومت کے ساتھ دوریاں پیدا کی ہیں اور ٹک ٹاک بند کر کے چینی عوام کو پیغام دیا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ نہیں ہیں اور اگر یہ پیغام وائرل ہو گیا تو اس کے بعد ہم شہد سے میٹھی، کو بس باتوں میں ہی چاٹتے رہ جائیں گے۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے اور اس میں سفارتکاری ہو یا جنگیں وہ ایپس اور میڈیا پر ہی لڑی جا رہی ہیں اور آپ نے ٹک ٹاک بند کر کے چین کو انتہائی غلط پیغام دے دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ حکومت نے اپنے مخالفین کے کچھ اکاونٹ بند کرنے کے لئے ٹوئیٹر سے رابطہ کیا مگر مثبت جواب نہیں ملا تو انہوں نے ٹوئیٹر ہی بند کر دیا، ایک بڑے اختیار کا اس سے چھوٹا استعمال نہیں ہوسکتا۔
رہ، رہ کے مجھے خیال آتاہے کہ کیا غیر اخلاقی ویڈیوز کا بہانہ وہی نہیں جو کبھی ٹی وی کی مخالفت کی بنیاد تھا توکیا آپ نے ٹی وی کا راستہ روک لیا تھا۔ اکیسویں صدی کی رفتار بہت تیز ہے اور اس میں آپ اپنی آنکھوں اور کانوں سمیت مختلف سوراخ بند رکھ کردنیا سے الگ نہیں رہ سکتے، اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ میں کسی بھی دوسرے بندے سے یہ توقع کر سکتا ہوں مگر ایک بھرپور زندگی گزارنے والے عمران خان سے نہیں کہ وہ جب وہ ستر برس کے قریب پہنچ رہے ہیں توانہی نوجوانوں کا راستہ روک رہے ہیں جن کو سنہرے خواب دکھا کر وہ اقتدار میں آئے ہیں۔ مجھے ایک کرکٹر سے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے خلاف مزاحیہ نوعیت کی ہلکی پھلکی تنقید پر اس حد تک خوفزدہ ہوجائے گا کہ اس کھیل میں بلا گھما کے دے مارے گا، ، وکٹیں اکھاڑ پھینکے گااورمیدان کو ہی تالے لگوا دے گا کہ یہاں تو وہ ایمپائر کو ساتھ ملا کر بھی نہیں جیت سکتا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ٹک ٹاک کی ویڈیوز اتنی بھی بری نہیں تھیں جتنی بری باتیں موجودہ حکمران جماعت کی دھرنا تحریک سے منسوب کی جاتی ہیں اور ٹک ٹاک کا وہ راج مستری پھلو، مولوی عثمان، جنت مرزا، کنول آفتاب، فضہ منیب اور بہت سارے دوسرے اپنے اخلاق، کردار، گفتار، ظرف اور مزاح میں جناب فیاض الحسن چوہان، جناب شہباز گل اور جناب شیخ رشید وغیرہ وغیرہ سے بہت بہتر ہیں ا ور بات اخلاق پر ہی آ گئی ہے تو پھر پابندی صرف ٹک ٹاک پر کیوں لگائی گئی ہے، پوری پی ٹی آئی پر لگا دیجئے جس نے حقیقت میں یہ کلچر دیا ہے جس کی بنیاد پر آپ ٹک ٹاک بند کر رہے ہیں۔