اہلِ علم پنجاب کے نوجوان وزیرتعلیم رانا سکندر حیات کے ساتھ جمخانہ میں بیٹھے ہوئے تھے، اس ملاقات کا اہتمام معروف کالم نگار اور تعلیمی امور کے ماہر پروفیسر نعیم مسعود نے کیا تھا کہ وزیرتعلیم نے اپنے ضلعے قصور کا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سنایا۔ انہوں نے گائوں کا نام بھی بتایا جسے آن دی ریکارڈ لانا مجھے مناسب نہیں لگ رہا۔ یہ واقعہ سننے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ہم بطور معاشرہ کتنے گل سڑ چکے ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ گائوں کے سکول کے چوکیدار نے وہاں پڑھنے کے لئے آنے والی غریب خاندان کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ رانا سکندر حیات کے مطابق وہ لڑکی اب ساڑھے تین ماہ کی حاملہ ہے۔ جب یہ معاملہ اُٹھا تو پولیس بھی اس میں ا نوالو ہوئی مگر وہ چوکیدار اپنے شعبوں میں موجود بھائیوں اور کزنوں کی وجہ سے بہت طاقتور تھا یعنی کوئی وکالت میں تھا اور کوئی پولیس وغیرہ میں۔ وہ اپنے ساتھ ڈھیر سارے بندوں کو لے کراس بچی کے گھر چلا گیا، اس کے والدین کو ڈرایا دھمکایا اور ان سے صلح یا غلط فہمی وغیرہ کی ایک تحریر حاصل کرکے پولیس سے کلین چٹ حاصل کر لی۔
رانا سکندر حیات بتا رہے تھے کہ جب یہ معاملہ ان کے نوٹس میں آیا تو ان کا فیصلہ تھا کہ اس چوکیدار کی صرف ٹرانسفر نہیں بلکہ مکمل قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے اس پر ایکشن لیا تو اس چوکیدار کی سفارش میں آنے والوں میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی شامل تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ جب چوکیدار معاملہ طے کرچکا ہے، صلح صفائی ہوچکی ہے تو وہ کیوں اس پراڑے ہوئے ہیں کہ ضرور کارروائی ہونی چاہئے۔
وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ ایک دو ارکان اسمبلی کے اصرار پر ان سے منہ ماری بھی ہوئی، ان کا موقف تھا کہ اس چوکیدار کو صرف ٹرانسفر ہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے نوکری سے ہی برخواست ہونا چاہئے کیونکہ اگر یہ کسی دوسری جگہ چلا گیا تو وہاں بھی ایسی ہی حرکتیں کرتا رہے گا۔ میں اس واقعے کو سن کوششدر رہ گیا مگر صرف اس لئے نہیں کہ ایک چوکیدار نے سکول میں آنے والی بچی کے ساتھ زیادتی کی حالانکہ یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے مگر اس المئیے سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ اس کی سفارشیں کرنے والوں میں ایک وفاقی وزیر سمیت ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی تھے۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ اچھی اچھی باتیں کرکے منتخب ہونے والوں نے کس منہ سے سکول میں بچی کے ساتھ ریپ کرنے والے کی سفارش کی ہمت کی ہوگی۔ کیا ان کی اپنی بیٹیاں نہیں ہوں گی یا وہ یہ سمجھتے ہوں گے ان کی بیٹیوں سے کوئی زیادتی کر ہی نہیں سکتا۔
میں کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر مائوں اور بہنوں کی گندی گندی گالیاں دینے والوں کا ماتم کر رہا تھا۔ ایک شخص جس نے درود پاک کی کور فوٹو، ایک لیڈر کی ڈی پی لگانے کے بعد متعدد دینی پوسٹس لگا رکھی تھیں وہ گندی گندی گالیاں دے رہا تھا۔ جب میں نے اس کی نشاندہی کی، اسے شرم دلانے کی کوشش کی تو بہت سارے دوسرے آ گئے جن کاکہنا تھا کہ گالیاں بکنا عین درست عمل ہے۔ افسوس کی با ت یہ ہے کہ صرف عمران خان نہیں، نواز شریف، آصف زردار ی اور سراج الحق تک کے حامی اختلاف رائے پر یہی غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔
میں نے ایک دوست سے وزیرتعلیم کے بتائے ہوئے واقعے کا ذکر کیا تو اس نے کہا یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ چوکیدار صرف خود ہی زیادتی نہیں کرتا ہوگا بلکہ یہ سفارش کرنے والوں کا سپلائر بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ سکول کا دیگر بااختیار عملہ بھی ملوث ہوگا ورنہ ایک چوکیدار اتنا زیادہ بااثر نہیں ہوسکتا۔ میرا یہ گمان درست لگتا ہے کہ جب تک دوسرے لوگ اس کی غلط کاریوں سے مستفید نہ ہوتے ہوں تب تک یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے سفارشی بن جائیں۔
اس واقعے کے ساتھ ہی مجھے کاشانہ کی افشاں لطیف بھی یاد آ گئیں جنہوں نے سابق حکومت کے دوران یتیم خانے کی بچیوں کی حکمرانوں کو فراہمی کا سکینڈل اٹھایا تھا اور انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس واقعے پر ایک کالم لکھا تھا جس پر اس وقت کی خاتون اول نے وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا تھا اور پوچھا تھا کہ میرے پاس واقعے کے حوالے سے کیا تفصیلات موجود ہیں۔ میں نے جواب دیا تھا کہ میں ایک صحافی ہوں اور میرے پاس وہی انفارمیشن اور ثبوت ہیں جو افشاں لطیف نے پیش کئے ہیں۔
میں نے سوال کیا تھا کہ ایک وزیراعلیٰ کو رات کے اندھیرے میں بغیر پروٹوکول بچیوں کے اس ادارے میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے مجھ سے بہت کچھ کرید کے پوچھا تھا مگر بعد میں نوشاد حمید نے مجھ سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ اس انکوائری کامقصد یہ تھا کہ کہیں میرے پاس کچھ ایسے ثبوت تو نہیں جو ابھی تک سامنے نہ آئے ہوں تاکہ ان کا بھی توڑ کیا جا سکے۔
افشاں لطیف نے جس وزیر پر الزامات لگائے تھے وہ اب مسلم لیگ نون میں شامل ہو چکا ہے مگرجیت نہیں سکا۔ افشاں لطیف اب تک انصاف کی امید لئے جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس معاملے میں ایک بچی کی جس طرح موت ہوئی تھی وہ بھی دل دہلا دینے والی کہانی ہے اور اس کی اب تک جتنی بھی انکوائریاں ہوئی ہیں وہ اس ٹارگٹ کے ساتھ ہوئی ہیں کہ افشاں لطیف کو غلط اور جھوٹا ثابت کیا جائے۔
میں نے یہ کالم اس لئے لکھا کیونکہ رانا سکندر حیات نے بہت سارے اہل علم اور اہل ادب کے سامنے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم اس واقعے کو بیان کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب میں ایک خاتون وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے ایک ایسے چوکیدار کو بچ نکلنا چاہئے جو سکول کی بچی کے ساتھ زیادتی کرے اوروہ تین چار ماہ کی حاملہ ہوجائے۔ کیا یہ افسوسناک امرنہیں کہ وزیر تعلیم خود اسے سزا دینا چاہتے ہیں، لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو ایسے عناصر سے پاک کرنا چاہتے ہیں مگر خود ارکان اسمبلی انہیں سفارش کرکے کہہ رہے ہیں کہ جب اس نے معاملہ حل کروا لیا ہے تو تمہیں اس پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
دوسری طرف افشاں لطیف ان کی پارٹی کے بہت ہی دیرینہ اور جانثار کارکن نوشاد حمید کی اہلیہ ہیں۔ نوشاد حمید نے نواز شریف کی جلاوطنی اور پرویزمشرف کی آمریت کے دوران جس طرح کی سیاسی جدوجہد کی مجھے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وہ حقیقی معنوں میں جاوید اشرف کے سیاسی وارث تھے۔
میری رائے ہے کہ پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کو ان دو کیسوں کو ٹیسٹ کیس بنا لینا چاہئے اگر وہ صرف سڑکیں نہیں بلکہ ایک معاشرہ بھی بناناچاہتی ہیں، ایک ایسا معاشرہ جس میں سکول جاتی اور یتیم خانوں میں رہتی بچیاں محفوظ ہوں اور ان پربھیڑئیے مرد حملہ آور نہ ہوں، وہ انہیں اپنی ہوس، اپنے کاروبار اور اپنی پی آر کے لئے استعمال کرنے سے پہلے سو بار ڈریں، سو بار کانپیں۔