قیصر ثناءاللہ سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات میٹروپول میں ہوئی، اس روز پنجاب بھر سے تعلق رکھنے والے فنکار تھیٹر کھلوانے کے لئے سراپا احتجاج تھے، کھولو کھولو تھیٹر کھولو، کے زبردست نعرے لگا رہے تھے۔ کبھی میٹروپول کیا زبردست سینما ہوا کرتا تھا بلکہ ایبٹ روڈ پر سینماگھروں کی پوری مارکیٹ ہی، جب شو ٹوٹتا تھا تو کھوے سے کھوا چھلتا تھا مگر پھر یوں ہوا کہ فیملیوں نے فلمیں دیکھنے جانا بند کر دیا مگر اس کے باوجود انڈسٹری موجود رہی۔ وہ ضیاءالحق کا مارشل لاءتھا جس نے اسلامائزیشن کے نام پر آرٹ، ادب اور کلچر کا گلا گھونٹ دیا۔ معاشرے میں عجب فرسٹریشن پھیل گئی جب طاقت ہی اصول ٹھہرا۔ میں کبھی کبھار جمع تفریق کرتا ہوں تو سمجھ نہیں پاتا کہ ضیاءالحق کو مذہب واپس لانے کا کریڈٹ دوں یا اس کے ساتھ ساتھ منافقت، ناجائز اسلحے، صوبائیت، مذہبی انتہا پسندی، منشیات فروشی وغیرہ وغیرہ کا۔ سینما گھروں میں میرے اُن مزدوروں، ریڑھی بانوں، رکشہ اور ٹرک ڈرائیوروں نے جانا شروع کر دیا جن کا ہیرو سلطان راہی تھا جو گنڈاسہ اٹھاتا تھا اور چودھری کے بندوں کے ٹوٹے کر دیتا تھا۔ ہمارے غریبوں کی اکثریت یہی چاہتی تھی کہ دولت مندوں اور طاقتوروں کے جسموں کے ٹوٹے ٹوٹے کر دئیے جائیں، وہ خود کچھ نہیں کر سکتے تھے لہٰذا راہی صاحب کو گنڈاسہ لہراتے دیکھ کر سمجھتے تھے ان کا انتقام پورا ہو گیا۔
میٹروپول کی عمارت باہر سے اتنی خستہ ہوچکی ہے جیسے کوئی بھوت بنگلہ ہو مگرسچ یہ بھی ہے کہ زندہ دلوں کے شہر میں سینما انڈسٹری واپس آئی ہے، بہت سارے نئے سینما گھر بنے ہیں۔ اب یہاں ایک فرق آ گیا ہے کہ سینما انڈسٹری اور فلم انڈسٹری کے مفادات کچھ الگ ہوگئے ہیں۔ سینما گھروں میں رونقیں بحال کرنے میں انڈین فلموں نے اہم کردارادا کیا ہے اور یہاں بھی ہم نے منافقت نہیں چھوڑی یعنی جو فلم بھارت سے براہ راست خریدی جا سکتی تھی وہ فلم پہلے دوبئی یا لندن جاتی تھی اور وہاں سے کسی اور کمپنی کے نام پر واپس آجاتی تھی بہرحال یہ دونوں بھی الگ ایشوز ہیں کہ اس وقت بات قیصر ثناءاللہ کی قیادت میں احتجاج کرنے والے مشہور و معروف تھیٹر فنکاروں کی ہو رہی ہے، جی ہاں، وہی قیصر ثناءاللہ تماثیل تھیٹر والے، پنجاب تھیٹر آرٹسٹ پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین، گرم دم گفتگو بھی اور گرم دم جستجو بھی۔ سخت پریشان ہیں، سراپا احتجاج ہیں کہ چا رماہ سے تھیٹر بند ہیں اور اس سے وابستہ ہزاروں اور لاکھوں کارکن بے روزگار۔ تھیٹر کے ایسے فنکار بھی ہیں جنہوں نے کارواش سنٹروں پر گاڑیاں دھونی شروع کر دی ہیں یا پنکچر شاپس کھول لی ہیں کیونکہ حکومت نے بازار اور ٹرانسپورٹ تو کھول دی ہے مگر تھیٹر کھولنے کے لئے تیار نہیں کہ کہیں کرونا نہ پھیل جائے۔ ہماری حکومت بھی دلچسپ ہے اس نے ستمبر کے پہلے ہفتے میں شادی ہال کھولنے کا عندیہ دے دیا ہے اور اس کے لئے ہمیں پیارے دوست میاں اسلم اقبال کے دماغ کی بھی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے جو تاریخ دی ہے وہ محرم الحرام میں عاشورہ کے عین بعدکی ہے جبکہ ہمارے ہاں عمومی طور پر محرم اور صفر میں شادیاں ہی نہیں ہوتیں۔ مجھے اس شخص کا لطیفہ یاد آگیا جو بے انتہا کنجوس مشہور تھا۔ اس کے گھر اس سے قرض واپس لینے والا آ گیا تو نوکر نے دروازے سے ہی کہہ دیا، بھاگ جاو، تمہارا قرضہ قیامت کے دن ہی واپس ملے گا۔ وہ شخص نوکر پر برس پڑا کہ اسے قرض واپسی کی تاریخ دینے کیا ضرورت تھی؟
بات اپنے تھیٹر کے ہنرمندوں کی ہے جن میں علم نہیں کہ بے بسی اور لاچاری زیادہ ہے یا غصہ۔ نسیم وکی کہنے لگے کہ میں نے تیس برس پہلے اپنی زندگی کے سب سے پہلے انٹرویو میں عمران خان کو اپنی پسندیدہ شخصیت قرار دیا تھا اور ان دو برسوں کے بعد مجھے شرمندگی اور افسوس ہے کہ میں نے ایسا کیوں کہا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انسان اوپر جا رہا ہو تو منزل پر پہنچ کر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا ہاتھ کس کس نے تھاما تھا کہ اس نے واپس بھی آنا ہوتا ہے اور عمران خان کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ نسیم وکی کے ساتھ ساتھ طاہر انجم ہوں یا شاہد خان، سب یہی کہتے ہیں کہ عمران خان خود کامیڈین ہیں، وہ خود کنٹینر پر کھڑے ہو کر جگتیں لگاتے رہے ہیں لہٰذا اب اگر فنکاروں نے پی ٹی آئی پر کچھ جگتیں لگاد ی ہیں تو انہیں برا نہیں منانا چاہئے کہ جگتیں تو ضیاءالحق اور پرویزمشرف پربھی لگتی رہی ہیں۔ اب اس میں ان فنکاروں کا کیا قصور ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی پر جگتیں رسپانس اور کلیپ لے رہی ہیں اوریوں بھی حکومت نے تھیٹر کرونا کے نام پر بند کئے تھے اور جب کرونا دم توڑ رہا ہے تو ایس او پیز لاگو کرتے ہوئے تھیٹر کھول دینے چاہئیں۔ شاہد خان بتا رہے تھے کہ نواز شریف تو جواب میں بھی جگت لگا دیا کرتے تھے، امان اللہ کو سب سے پہلے ڈھاکے کی ڈائن انہوں نے ہی کہا تھا۔ طاہر انجم جذباتی ہو کر بولا کہ مجھے پی ٹی آئی والے گالیاں دیتے ہیں تو دیتے رہیں کہ ماضی میں تھیٹر کے کبھی ایسے حالات نہیں ہوئے۔ جناب راشد محمود بہت تدبر کے ساتھ بتا رہے تھے کہ تھیٹرز کو سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے کھولا جا سکتا ہے کیونکہ رش تو صرف ویک اینڈز پر ہوتا ہے باقی دنوں میں تو بہت ساری سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ میں نے فنکاروں کے نام لئے مگر تھیٹر صرف ان بڑے بڑے فنکاروں کانام نہیں ہے بلکہ جب یہ پرفارم کرتے ہیں تو ان کی پرفارمنس کو یقینی بنانے کے لئے سینکڑوں سٹیج سے پہلے اور سٹیج کے پیچھے بھی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے نام ہوسکتا ہے کہ چار، چھ ماہ کیا چار، چھ سال بیٹھ کے کھا سکتے ہوں مگر وہ سینکڑوں اور ہزاروں جو اتنا ہی کما کر لے جاتے تھے کہ دال روٹی پوری کر لیں وہ کیسے جئیں، اپنی حیات کا کاروبار کیسے چلائیں جب ہر شعبے میں ہی مندی ہے، بے روزگاری ہے۔
میں نے قیصر ثناءاللہ کو چوہدری برادران سے ملتے ہوئے دیکھا تو خوشی ہوئی کہ ان کی بات حکومتی حلقوں میں سنی گئی ہے کیونکہ وہ بہت سارے دنوں سے بہت سارے حکومتی رہنماوں سے ملنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کا گھر بھی خوب ہے کہ یہاں سب کی سنی جاتی ہے، دکھی اور پریشان لوگوں کو اُمید مل جاتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ میاں اسلم اقبال، چوہدری پرویز الٰہی کی بات مانتے ہیں یا وہ بھی مراد راس بن جاتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ وزیر سکولز ایجوکیشن نے پیف ایشو پر نہ صرف چوہدری پرویز الٰہی کی بات نہیں مانی بلکہ ان کی بنائی ہوئی پارلیمانی کمیٹی کو بھی یوں ٹھینگا دکھایا کہ اساتذہ اس وقت دو ہفتے سے زیادہ ہو گئے سڑکوں پراحتجاج میں خجل خوار ہو رہے ہیں، ماریں کھا رہے ہیں، گرفتاریاں دے رہے ہیں مگر ان کی نہیں سنی جا رہی۔ قیصر ثناءاللہ اس سے پہلے کہہ رہے تھے کہ اگر ایک جمہوری اور سیاسی حکومت میں کسی نے نہ بات سننی ہے اور نہ ماننی ہے تو پھر بہتر ہے کہ ایسی حکومت کی چھٹی کروا دی جائے اور اس کی جگہ پر فوج آجائے جو تین برس کی اصلاحات کے بعد الیکشن کروائے، اس سے کم از کم یہ ہو گا کہ ہر محکمے میں جومیجر سے بریگیدئیر تک بیٹھے فیصلہ کر رہے ہوں گے وہ بات تو سن لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قیصر ثناءاللہ نے یہ بات غصے میں کی ہے اور بہت سارے دنوں سے وہ سخت برہم ہیں۔ ننگ دھڑنگ فنکار اپنے اوپر روٹیاں لٹکائے تھیٹر کھولو، تھیٹر کھولو کے نعرے لگا رہے ہیں مگرمتعلقہ لوگوں نے شائد کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ میں آپ کو پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہے تو آپ اس شخص کی بات سمجھ ہی نہیں سکتے جس کا پیٹ خالی ہے۔ خالی پیٹ کی دانش، دلیل اور منطق سب جدا ہوتی ہیں۔ ان کے دو اور دو ہمیشہ چار روٹیاں ہوتی ہیں۔ جیسے میرے تھیٹر کے فنکاروں اور ہنر مندوں کا ہرسوال کا ایک ہی جواب ہے، "کھولو کھولو تھیٹر کھولو"۔