کسی نے کہا، الوداع نوازشریف، میں نے کہا، یہ الفاظ میرے ہزار بار کے سنے ہوئے ہیں۔ نوے کی دہائی کے وسط میں اس وقت بھی کہے گئے جب غلام اسحاق خان کا طُوطی بولتا تھا مگر پھر غلام اسحاق خان بھی چلا گیا اور عبدالوحید کاکڑ بھی۔ پھر یہی الفاظ نوے کی دہائی کے آخر میں بھی سنے گئے جب پرویز مشرف نے آمر کے طور پرکلی اختیارات حاصل کر لئے یہاں تک اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی مہربانی سے آئین میں ترمیم تک کا اختیار اسے چلا گیا مگر پھروہ ڈکٹیٹر بھی چلا گیا اور اسے اختیار دینے والا بھی۔
یہ بات فیض اور باجوہ کی پشت پناہی سے عمران خان کی آمریت قائم کرنے کے پراجیکٹ میں بار بار کہی گئی مگر حقیقت یوں ہے کہ نواز شریف جیل میں تھا اور عمران خان جیل میں ہے۔ جنہوں نے الوداع نواز شریف کہا، انہوں نے عشروں میں بار بار کی ہی خواہش دہرائی اور میں کہتاہوں، خوش آمدید نواز شریف، کہ وہ اپنے وفاشعار چھوٹے بھائی کی وزارت عظمیٰ اور محبت سے سرشار بیٹی کی وزارت اعلیٰ کی صورت میں واپس لوٹا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ وہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھے ہوئے نواز شریف سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا جب وہ آئینی بندشوں سے باہر بیٹھا ہوگا۔ وہ وزارت عظمیٰ جس کے لئے عمران خان نے اپنی دنیا اور عاقبت خراب کرلی، جس کے لئے پوری نوجوان نسل کا اخلاق اور ظرف داؤ پر لگا دیا، جس کے لئے وطن کو امریکا اور اسرائیل کی کمپنیوں کے سامنے گروی رکھ دیا، نواز شریف نے اسی وزار ت عظمیٰ کو سلام کہہ دیا اور گھر بیٹھ گیا۔
میں نے یہ سمجھا بھی اور لکھا بھی کہ وزیراعظم بننا تو ایک طرف رہا، نواز شریف کو اس قومی اسمبلی میں بھی نہیں جانا چاہئے۔ میں جانتا اورمانتا ہوں کہ وزیراعظم کا عہدہ بہت بڑا ہوتا ہے مگر آپ بھی جان اور مان لیجئے کہ کچھ شخصیات وزیراعظم کے عہدے سے بھی بڑی ہوجاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نوے کی دہائی کے آخر میں نواز شریف وزیراعظم تھے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تو اس وقت بھی ایک شخصیت ان عہدوں سے بہت اوپر تھی اور اس کانام میاں محمد شریف تھا۔
آج والد کی رحلت کے بعد، مجھے لگ رہا ہے، نواز شریف، میاں محمد شریف کی جگہ پرجا کے بیٹھ گئے ہیں، ایک مشفق والد کے طور پر۔ مجھے بطور پولیٹیکل رپورٹر یاد ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ہر جمعے کے روز ماڈل ٹائون میں اپنی رہائش گاہ پر کارکنوں کی مجلس سجایا کرتے تھے اور اس سے پہلے بطور اپوزیشن لیڈر بھی۔ مگر جیسے ہی ساڑھے گیارہ، بارہ بجتے تھے وہ بے چین ہوجایا کرتے تھے کیونکہ جمعے کے روز نماز اور لنچ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ ہی کرنے ہوتے تھے۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہوسکتی تھی مگر نواز شریف کی رائے ونڈ روانگی مؤخر نہیں ہوسکتی تھی۔
مجھے یہ رائے دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ منقسم مینڈیٹ کے ساتھ اور ایک طاقتور ہی نہیں پارلیمانی اور سیاسی اخلاقیات سے عاری اپوزیشن کے ساتھ نواز شریف جیسے وضع دار شخص کو وزیراعظم کے عہدے پر نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان کی عزت اور وقار کے خلاف ہوتا۔
میں نے دیکھا کہ عمران خان نے جیل میں رہتے ہوئے بھی ایک ٹکے کا سبق نہیں سیکھا۔ اس نے خیبرپختونخوا پہلے دو نااہل ترین شخصیات کے حوالے کئے رکھا مگر اب جس کو دیا ہے وہ نااہل کے ساتھ ساتھ بدتمیز بھی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لانگ مارچوں کے حملوں اور نو مئی کی دہشت گردی میں تخریب کاروں کا مرکزی سپلائر جب خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ سنبھالے گا تووہ سرکاری اداروں کو استعمال کرتے ہوئے وفاق پر حملے کرے گا کیونکہ ان کے نزدیک پرفارمنس عوام کی کارکردگی میں نہیں، صرف حملوں میں ہے۔
دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ شیر افضل مروت کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مقرر کیا جا رہا ہے جس کے بعد ایوان میں پارلیمانی روایات اور اخلاقیات وغیرہ تو سب وڑ جائیں گے۔ میرا مشورہ تھا اور اب بھی ہے کہ اگر نواز شریف قومی اسمبلی کی نشست سے حلف بھی نہیں اٹھاتے تو کوئی مضائقہ نہیں یا حلف اٹھاتے ہیں تو اس کے بعد دوبارہ وہاں وقت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نواز شریف کے وزیراعظم نہ بننے پر ان سے محبت کرنے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں لیگی کارکن دکھی ہیں، وہ اس دکھ کا سوشل میڈیا پر اظہار بھی کر رہے ہیں مگر یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ نواز شریف نے اپنی مرضی سے وزارت عظمیٰ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اب بھی اقتدار شریف فیملی کے پاس ہی ہے لہٰذا جو لوگ اس سے یہ مطلب لے رہے ہیں کہ کوئی تبدیلی آ گئی ہے تو ان کے لئے پیغام ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔
نواز شریف اب سیاست کو مزید وقت دے سکتے ہیں اور میری خواہش ہے کہ وہ سندھ کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی طرف بھی زیادہ توجہ دیں، لاہور ہی نہیں پنجاب کے شہروں گوجرانوالہ، سرگودھا اور بالخصوص فیصل آباد کے انتخابی نتائج پر توجہ دیں۔ یہ درست ہے کہ ایک فتنے نے بہت کچھ خراب کر دیا ہے مگر اس فتنے کی سرکوبی اب بھی ان کی زیادہ ذمے داری ہے جنہوں نے اسے فتنہ بنایا۔ نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں اور سیاست کی کہی اور ان کہی باتوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ ایک بار پھر بازی کو پلٹ دیں اور اگلی مرتبہ مسلم لیگ نون کا اسی طرح کم بیک ہوجائے جیسے پہلے ہوتا رہا ہے کیونکہ وہ سیاست نہیں چھوڑ رہے۔
مریم نواز نے بجاطور پر لکھا ہے، "وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول نہ کرنے کا مطلب اگر یہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں تو اس میں کوئی سچائی نہیں۔ اگلے پانچ سال وہ نہ صرف بھرپور سیاست کریں گے بلکہ وفاق، پنجاب میں اپنی حکومتوں کی سرپرستی کریں گے، ان شاء اللہ۔ نواز شریف کی تینوں حکومتوں میں عوام نے واضح اکثریت دی تھی اور یہ بات وہ انتخابی تقاریر میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جو لوگ نواز شریف کے مزاج سے واقف ہیں انہیں نواز شریف کے اصولی مؤقف کا پتا ہے۔ شہباز شریف اور میں ان کے سپاہی ہیں، ان کے حکم کے پابند ہیں اور ان کی سربراہی اور نگرانی میں کام کریں گے۔ اللہ ہمیں کامیابی عطا فرمائے، آمین"۔
نون میں سے شین اورمیم نکالنے والوں کے اندر سے سارے کے سارے حروف تہجی نکل گئے سو مریم نواز شریف کے اس ٹویٹ کو ایک بار پڑھا جائے، دس بار یا سو بار۔ شریف خاندان کی اخلاقیات اور روایات کا ایک بار جائزہ لیا جائے، دس بار یا سو بار۔ شہباز شریف کی اپنے بھائی سے محبت اور اطاعت کی ایک مثال ڈھونڈی جائے، دس بار یا سو بار۔ ہر بار ایک ہی جواب آئے گا کہ نوا ز شریف الوداع نہیں ہوا، نوازشریف واپس آیا ہے۔ میں نواز شریف کی واپسی کو ایک مرتبہ پھر خوش آمدید کہتا ہوں۔