آپ کو کالم کے اس عنوان اور اس موقف نے چونکا دیاہو گا۔ آپ میں سے بہت سارے زیر لب مسکرائے ہوں گے اورکچھ نے اخبار اپنے کسی ساتھی کے سامنے بھی کر دیا ہو گا۔ مطلب ہو گاکہ دیکھو، دیکھو، لفافے کی مہربانی، ایک ایسے شخص کے احترام کا کہا جا رہا ہے جو سیاستدان ہے اور اس دہشت گردی کے الزامات کی ایک ایف آئی آر میں ملوث ہونے کے بعدجیل میں ہے۔ میں اپنے ان دوستوں کے جذبات سمجھ سکتا ہوں جنہیں کبھی سیاستدان کی عزت کرنا سکھایا ہی نہیں گیا، نظرئیے، کمٹ منٹ اورجدوجہد کاتقدس بتایا ہی نہیں گیا، کردار کا احترام کرنے کے بارے درس دیا ہی نہیں گیا۔ آپ مسکرا ہی نہیں سکتے بلکہ منہ بھر کے گالی بھی دے سکتے اگر آپ کو صرف عہدوں، روپوں اور طاقت کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے۔
خواجہ عمران نذیر سے میری واقفیت کو اب برسوں نہیں بلکہ عشروں پر محیط کہا جا سکتا ہے۔ میری اس نوجوان سے پہلی پہلی ملاقاتیں اس وقت ہوئیں جب پرویزمشرف کا مارشل لا اپنی جوانی پر تھا۔ مسلم لیگی رہنماوں کو کم و بیش اسی قسم حالات کا سامنا تھا جس قسم کے حالات کا سامنا وہ اس وقت جناب عمران خان کے دور میں کر رہے ہیں۔ نواز لیگ کی قیادت نے تب بھی جیلوں سے جلاوطنی تک کا سفر طے کیا تھا اور یہاں سیاسی اور جمہوری جدوجہد کرنے والوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ ان کے لیڈر کب واپس آئیں گے مگر اس دور میں کچھ سرپھرے ایسے تھے کہ میجر سیف جیسی چیزوں سے ڈرتے ہی نہیں تھے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسی نے پرویز رشید کو مٹی کی پہاڑی سے دھکا دیا تھا اور جب ان کی فیملی ان تک پہنچی تھی تو ان کی شلوار سمیت پورے کپڑے خون سے بھرے ہوئے تھے۔
اسی دورمیں جہاں سب سے بہادر شخص مجھے نوشاد حمید لگتا تھا جس نے برادرم اسد اشرف کے بعد شہباز شریف سیکرٹریٹ کے جنونی کارکنوں کی قیادت سنبھالی تھی اور اس کے بعد خواجہ عمران نذیر۔ وہ دور بھی لیگی کارکنوں کے لئے بہت مشکل تھا اور مقدمات اسی طرح ہوتے تھے جیسے اب ہو رہے ہیں۔ ہم میڈیا والوں کے لئے انفارمیشن کا اکٹھا ہونا بھی بہت دشوار تھا اور ایسے میں خواجہ عمران نذیر ہم صحافیوں کے واقف بنے وہ مسلم لیگ نون لاہور کے سیکرٹری انفارمیشن تھے۔ میں خواجہ عمران نذیر کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کسی کو بھی لوٹا کر سکتے ہیں مگر عمران نذیر کو نہیں کر سکتے۔ اس کے لہو میں اس کی جماعت اور قیادت ہے اورشائد اس کا ڈی این اے ہی ایسا سیٹ ہو چکا ہے کہ یہ کسی اور طرف جا ہی نہیں سکتا، سوچ ہی نہیں سکتا چاہے اس پر ایک نہیں دس مقدمات بنا لئے جائیں۔
جی ہاں! میں سیاسی کارکنوں کے احترام کی بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے بہت سارے کارکنوں کے ساتھ جو نام فورا ًآتا ہے وہ خواجہ عمران نذیر کا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ نظرئیے اور وفاداری کو اہمیت دی جانی چاہئے لہٰذا خواجہ عمران نذیر کا احترام ہر سیاسی کارکن کو کرنا چاہےے اور احترام کی دوسری وجہ کردار ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہم اس دنیا میں رہتے ہیں جہاں لوگ نبیوں اورپیغمبروں سے بھی خوش نہیں ہوتے، کچھ کو محض شکوے شکایتیں ہوتی ہیں اور کچھ کے نظریاتی ایشوز۔ میں نے خواجہ عمران نذیر کوایم پی اے کے بعد وزیر بنتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں بلاخوف و خطر کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب کی وزارت صحت کو پچھلے دورمیں دو درویش وزیر ملے۔ جہاں تک خواجہ سلمان رفیق کی بات ہے کہ وہ اپنے بھائی خواجہ سعد رفیق کے ساتھ سوا برس تک جیل میں رہے تو ان پر بطور وزیر صحت کسی قسم کاکوئی الزام نہیں تھا بلکہ الزامات ذاتی کاروبار بارے تھے جن پر ضمانت کے کیس میں سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ چکا ہے۔
خواجہ سلمان رفیق کے ساتھ ساتھ خواجہ عمران نذیر بھی صحت جیسی بڑی اورپیدا گیر، وزارت میں رہے مگر ان کے حوالے سے بھی نیب کچھ تلاش نہیں کرسکا تو پھر ایسے ہی مقدمات باقی بچتے ہیں بلکہ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ سابق دورمیں وائے ڈی اے اور حکومت کی سخت دشمنی رہی۔ شہباز شریف حکومت میں وائے ڈی اے پنجاب کے صدر حامد بٹ ہوا کرتے تھے حامدبٹ کا خواجہ عمران نذیر کی گرفتاری پرتبصرہ ہے، خواجہ عمران نذیر ایک اچھے انسان اور مسائل حل کرنے والے اچھے معاملہ فہم لیڈر ہیں، ان کی اس طرح گرفتاری افسوسناک ہے،۔ عبداللہ اسجد کہتے ہیں کہ یہ بندہ ہیرا ہے، یہ لاہور کادوسرا سعد رفیق ہے۔ خواجہ عمران نذیر کی اپنی پارٹی کے ساتھ کمٹ منٹ یہ ہے کہ انہوں نے جناب پرویزملک کے ساتھ مل کر لاہورمیں اپنی پارٹی کے لئے دفتر خریدا جب ان کی پارٹی کے پاس کوئی دفترتک نہیں تھا۔ اب فیروزپور روڈ پر ان کا لاہور دفتر ان کی جماعت کی ملکیت ہے۔
ہمار امسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے اپنے لیڈروں کا احترام کرتے ہیں جبکہ دوسروں کے لیڈروں کو گالیاں دیتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے شہر، صوبے اور ملک میں ایک بھی پلیٹ فارم ایسا نہیں جس پر سیاسی کارکن سیاسی اختلافات سے ہٹ کر متحد اورمتفق ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی مکالمہ کرتے ہوں۔ ہو یہ رہا ہے کہ کارکن بھی ڈرتا ہے کہ جیسے اسٹیبشلمنٹ سے اختلاف پر وہ ملک کا غدار قرار پا سکتا ہے اسی طرح اپنی قیادت سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ رابطہ رکھنے پر پارٹی کا غدار۔ حالانکہ سیاست میں محض اختلاف ہوتا ہے، دشمنی نہیں ہوتی مگر ہم سب اس کو دشمنی بنا لیتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے شہر میں بہت سارے سیاسی کارکن ایسے ہیں جنہوں نے اپنے نظرئیے کے ساتھ وفا کی، اپنی اپنی سوچ، فکر اور استطاعت کے مطابق سیاسی اصلاحات اور عوامی فلاح کے لئے جدوجہد کی۔ اس کی بڑی مثال جماعت اسلامی ہے جس کے کارکن اس کے امیر تک بنے اور اس وقت کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم کو سیاسی کارکنوں کا فخر کہا جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی ایسے کارکنوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ضیاءالحق کے کوڑے اور جیلیں تک برداشت کر لیں مگر جئے بھٹو کے نعرے سے غداری نہیں کی۔ یہ الگ موضوع ہے کہ جس پیپلزپارٹی کو ضیاءالحق اورنواز شریف ختم نہ کر سکے وہ خود اپنی ناقص کارکردگی سے ختم ہو گئی۔ مجھے یہ بھی اعتراف کرنا ہے کہ پی ٹی آئی میں بھی ایسے بہت سارے کارکن موجود ہیں جو سیاست کی آن، بان اور شان ہیں۔ میں ان کے نام بوجوہ یہاں نہیں لکھنا چاہتا مگر میں جانتا ہوں کہ وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ ایک نیا پاکستان بنانا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ یہ میری رائے ہے کہ کمی اور کوتاہی ان کے لیڈر میں ہوسکتی ہے مگر ان کی کوششوں، خواہشوں اور جذبوں میں نہیں ہے۔
بات خواجہ عمران نذیر کی ہو رہی ہے تو مہذب اور باشعور قومیں اپنے ایسے سیاسی کارکنوں کو لیجنڈ کا درجہ دیتی ہیں، ہاں، ہم بھی دیتے ہیں مگر بہت ساروں کو ان کے مرنے کے بعد۔ ہم میں وہ بڑائی اور ظرف ہی نہیں کہ ہم زندگی میں کسی کو سراہ سکیں، اس کی خوبیوں کا اعتراف کر سکیں اور اگر کسی دوسرے کو کرتے دیکھیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں، پریشان ہوجاتے ہیں۔ خواجہ عمران نذیر اس وقت جیل میں ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ نظرئیے اور کردار والوں کے لئے جیلیں کبھی شرمندگی کا باعث نہیں ہوتیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیاسی کارکن کبھی دہشت گرد نہیں ہوتے۔ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ شرمندگی اور خفت ان کو ہو گی جنہوں نے خواجہ عمران نذیر کو جیل بھیجا اور تاریخ میں دہشت گردی ان کی لکھی جائے گی جنہوں نے ایک نہتے نظریاتی سیاسی کارکن پردہشت گردی کی دفعات لگائیں۔ خواجہ عمران نذیر کا احترام کیجئے اگر آپ ظرف، شعور اورکرداررکھتے ہیں اور اگر تینوں سے سے محروم ہیں تو جو چاہے کہتے رہئے، کرتے رہئے۔