تحریک انصاف کے بانی نے پاک فوج کے خلاف کی ہوئی ایک ٹوئیٹ پر شامل تفتیش ہونے کے ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر کہہ دیا ہے کہ مذاکرات کٹھ پتلیوں سے نہیں طاقتوروں سے ہی ہوں گے۔ ان کا مطلب واضح ہے کہ وہ وزیراعظم یا ان کے سیاسی نمائندوں کی بجائے فوج کے سپہ سالار اور افسران سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ سوال غیر ضروری اور بے معنی ہے کہ اس حوالے سے آئین اور قانون کیا کہتے ہیں کیونکہ ان کے اور ان کے کلٹ کے نزدیک آئین اور قانون وہی ہے جو وہ کہیں۔ ان کی ڈکشنریاں ہی الگ اور تضادات سے بھری ہوئی ہیں۔
ان کی لغت میں ایک پلے بوائے ریاست مدینہ بنا سکتا ہے اور تمام جماعتوں کا کچرا جمع کرکے نیا پاکستان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اسی لغت میں امریکا میں لابنگ فرمز ہائر کرکے امریکا کی غلامی سے نجات بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور محمود خانوں، گنڈا پوروں، بزداروں اور فرح گوگیوں کے ذریعے گڈ گورننس بھی ہو سکتی ہے۔ وہ احتساب کی بات کرتے ہیں مگر کالے دھن والوں کو ایمنسٹی سکیم دیتے ہیں جس میں خود ان کی سگی بہن بلیک منی کو وائٹ کرواتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اکہتر جیسی صورتحال ہے بلکہ اس سے بھی بدتر مگر وہ سیاسی قوتوں سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے بہت سارے دوست مذاکرات کے بہت زیادہ حامی ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے لئے کون سے سی بی ایمز یعنی کانفیڈنس بلڈنگ مئیرز لیے گئے ہیں۔ وہ اس فوجی افسر سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جنہیں انہوں نے کرپشن کی نشاندہی پر مدت پوری ہونے سے پہلے ہی عہدے سے الگ کر دیا تھا۔ وہ اس آرمی چیف سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جن کی تقرری کے موقعے پر انہوں نے نہ صرف ڈٹ کے مخالفت کی تھی بلکہ اس تقرری کو رکوانے کے لئے ایک لانگ مارچ بھی کیا تھا۔
جسے کسی قسم کا کوئی شک ہو وہ ان تاریخوں کے اخبارات دوبارہ دیکھ سکتا ہے۔ وہ اسی آرمی چیف سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں جن کی تصویریں وہ اپنے شہباز گِلوں، حیدر مہدیوں اور عادل راجوں کے ذریعے لندن کی سڑکوں پر پھینکواتے ہیں اور صرف پھینکواتے ہی نہیں ہیں۔
وہ پاکستان کی فوج کے خلاف اسرائیل نواز اخبارات میں مضامین بھی شائع کرواتے ہیں اور ان تمام کے باوجود جب فوج ان کے چیف منسٹر کو کورکمانڈر ہاؤس میں بلاتی اور افطاری کرواتی ہے تواس کی خبریں سامنے آنے کے بعد وہ معاملات کو دوبارہ خراب کرتے ہیں، صحافیوں سے گفتگو کے بعد وہ اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے فوج کے سربراہ پر اپنی اہلیہ کے قتل کروانے کی سازش کا الزام لگا دیتے ہیں اوراس میں بہت سارے توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
سب سے بنیادی بات، وہ مانیں یا نہ مانیں، ان کے ٹائیگرز فوج کے دفاتر اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرتے ہیں اور اس جرم کی معافی تک مانگنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، پہلے بھی کہا، آئین اور قانون کو ایک طرف رہنے دیجئے، اس اخلاقی اور سیاسی پوزیشن کے بعد کیسے مذاکرات، کس بات پر مذاکرات؟
ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ ہر معاملے کا اختتام مذاکرا ت کے ذریعے ہی ہوتا ہے جبکہ میں اس پر واضح ہوں کہ ہر وہ معاملہ جو طاقت اور تشدد کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے اس کا اختتام طاقت کے ذریعے ہی ہوتا ہے، کسی ایک فریق کی تباہی کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویٹس ہرر ات پاک فوج کوختم کرکے ہی سوتے ہیں اور یہ وہ خواب ہے جو بھارت کا بھی آج تک پورا نہیں ہوا جو ہم سے پانچ گنا زیادہ آبادی، معیشت اور فوج والا ملک ہے اور نہ ہی انشاء اللہ تعالیٰ ہوگا تو اس کے ایجنٹوں کا کیسے ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ مثالیں آپ کو دکھی کریں جیسے افغانستان کی مثال جسے تورا بورا بنا دیا گیا۔
ہمارے ہمسایہ ملک میں قصائی کے طور پر مشہور تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے شخص نے مقبوضہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے آئینی حصہ نہیں بنایا اور نہ ہی اس سے پہلے اس کی مخالف کانگریس نے خالصتان کی تحریک مذاکرات کے ذریعے کچلی تھی۔ عمران خان نے سیاست کی لڑائی کو طاقت کی لڑائی میں بدل دیا ہے۔
سیاست کی لڑائی سیاستدان لڑتے ہیں۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان سے زیادہ آمریتوں کے خلاف اتحاد بنانے اور مذاکرات کرنے کا تجربہ کس کو ہو سکتا ہے۔ ہم ان کے ساتھ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا کرتے، چائے کی چسکیاں لیا کرتے تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ سیاستدانوں کے پاس نہ توپ ہوتی ہے نہ بندوق۔ وہ فوج کے مقابلے میں ہتھیاروں سے نہیں لڑ سکتے۔ سو، اب سوال ہے کہ جو فوج پر حملہ آور ہوئے، جنہوں نے نو مئی برپا کیا کیا وہ سیاسی عمل تھا؟
ہمارے بہت سارے دوست جو مذاکرات کی بات کرتے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ پاک فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ کیاپاکستان اس وقت نئے انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیاعمران خان وزیراعظم بنا تو پاکستان دوست ممالک کے ساتھ چل سکتا ہے؟ جب وہ مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو وہ دراصل اپنی فوج کو ملک دشمنوں کے گھیرے میں لانے کی راہ دکھاتے ہیں۔ کچھ حلقوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ فوج کی مداخلت کا پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے ہیں یا قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس، یہ مداخلت زیرو ہوچکی ہے۔ اس وقت ماضی کے کچھ واقعات کی بنیاد پر چائے کی پیالی میں طوفان لایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے معصوم عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے مگر میں نہ احمق ہوں اور نہ کسی ملک دشمن ایجنڈے پر ہوں سو میرا سوال کچھ اور ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر فوج کی مداخلت ہوتی تو کیا ایک آرمی چیف ہر کور کمانڈر اور فارمیشن کمانڈر اجلاس میں انصاف، انصاف کی دہائی دے رہا ہوتا۔
مجھے لگتا ہے کہ مداخلت کے الزامات اور مذاکرات کی سازشوں کے ذریعے فوج کو بندگلی میں لے جایا جا رہا ہے۔ ایک برس ہوگیا مگر فوجی عدالتوں کو سزائیں سنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایک برس ہوگیا مگر گوجرانوالہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے فیصلہ تک نہیں آ سکا۔ آرمی چیف نے نو مئی کو لاہور گیریژن میں کہا تھاکہ ان کے صبر کو لامحدود نہ سمجھا جائے مگر ان کے بیان کے ساتھ نو مئی کے مجرموں کو کلین چٹیں ملنا شروع ہوگئیں۔
ہمارے دوست بتا سکتے ہیں کہ کس کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کر رہے ہیں؟ سیاستدانوں کے صرف سیاستدانوں کے ساتھ ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ کسی ملک کی فوج مذاکرات نہیں کیا کرتی۔ وہ صرف ملک دشمنوں پر ایکشن کیا کرتی ہے۔ فوجی مذاکرات کے ماہر بھی نہیں ہوتے۔ کیا ہماردوست پی ٹی آئی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں، ہرگز نہیں، وہ اپنی فوج کو گھیر کے ایک اورتماشا لگوانے کی سازش کر رہے ہیں۔