موجودہ حکومت کے قائم ہونے سے پہلے ہی پاکستان کا گروتھ ریٹ کم ہونے لگا تھا، وہ امیدیں ٹوٹنے لگی تھیں کہ نواز دور کا 5.8 فیصد کا گروتھ ریٹ 2019 میں 6.2 فیصد ہوجائے گا اور اس کی ذمے داری اس سیاسی عدم استحکام پر عائد ہوتی تھی جو دھرنوں کے بعد منتخب وزیراعظم کی عدالتی نااہلی سے پیدا ہوا تھا۔ موجودہ حکومت قائم ہونے کے بعد جی ڈی پی اور گروتھ ریٹ نے اس طرح نیچے کا سفر شروع کیا جس طرح پہاڑ سے پتھر لڑھک جائے تو پھر وہ کہیں نہیں رکتا۔ ابھی حکومت کی تمام تر توجہ ملکی تعمیر و ترقی کی بجائے اپوزیشن کے ایک ایک رہنما کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالنے پر ہی تھی کہ کورونا کاحملہ ہو گیا مگر کیا یہ بات ریکارد پر نہیں ہے کہ کورونا کے حملے سے پہلے ہی ایک برس کے قلیل ترین عرصے میں حکمران گروتھ ریٹ کو 5.8 سے1.8 پر لے آئے تھے یعنی پورے چار پوائنٹ مائنس مگر اس ترقی معکوس کو غلط اعداد و شمار کے ساتھ چھپایا جا رہا تھا۔ کورونا کی وبا آنے اور لاک ڈاون ہونے کے بعد یہی گروتھ ریٹ مائنس میں چلاگیا۔ یہ کتنا مائنس میں گیا ہے ابھی دوسری سہ ماہی کے اعداد و شمار مرتب ہوں گے تو علم ہوگا کیونکہ حکمران عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ عیدا لفطر کے بعد ایک مہینے کے لئے مزید سخت لاک ڈاون کرنے جا رہے ہیں۔
میں یہاں حکمرانوں کی مجبوری سمجھتا ہوں کہ اگر وہ لاک ڈاون نہیں کرتے تو وبا کے پھیلاو کی ذمہ داری لیتے مگر لاک ڈاون کے بعد معاشی تباہی کی ذمہ داری بھی حکمرانوں پر ہی عائد ہوگی جو آپ کسی دوسرے پر عائد نہیں کرسکتے، نواز شریف پر بھی نہیں، جو اس وقت ملک و قوم کے حال پر چھوڑ کے علاج کے نام پر لندن میں مقیم ہے۔ بات نااہلی اور بدانتظامی تک رہتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ کسی وقت بھی کوئی اچھا مینیجر اس صورتحال کو دوبارہ بہتر بنالے گا مگر اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ دو سال کی تباہی کو کم از کم پانچ سے سات سال میں ریکور کیا جا سکے گامگر وہ تباہی جو کورونا سے پہلے ہوئی، اب جو ہو رہی ہے میرے خیال میں اس کے لئے آپ کو مزید دو سے تین گنا مدت درکار ہوگی یعنی ہم دو برسوں کے نقصانات دو عشروں میں پورے کر سکیں گے۔ آپ خیال کیجئے کہ آپ کے پاس کروڑوں کی تعداد میں نوجوان ہیں جن کے لئے روزگار کی فراہمی ریاست کی سب سے بڑی منصوبہ بندی ہونی چاہئے مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے دار دو برسوں میں دو کروڑ نوکریاں ختم کررہے ہیں۔ جب آپ دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑے ہوں گے تو ٓپ کے یہی بیس، بائیس، پچیس برس والے نوجوان جوانی کو رخصت کر رہے ہوں گے۔
چلیں ! ہم حکومت کی کارکردگی بارے اچھی رائے نہیں رکھتے لہذا کہہ سکتے ہیں کہ وہ نااہل ہے مگر بات صرف نااہلی کی نہیں ہے، یہ بات اس سے کہیں آگے کی ہے۔ میں نے ادارہ شماریات کے اعداد وشمار دیکھے ہیں، حکمرانوں نے کتنی بھی نااہلی دکھائی ہو وہ سونا اگلتے کھیتوں کی پیدواوارایک، ڈیڑھ برس میں کیسے کم کر سکتے ہیں، ہماری فصلیں بیس سے تیس فیصد تک کم ہو ئی ہیں۔ ہم شہروں میں کرونا، کرونا کھیل رہے ہیں اور ہمارے دور دراز کے علاقوں میں ٹڈی دل نے لاکھوں ایکڑ پر حملہ کر دیا ہے۔ بے وقت کی بارشوں نے بھی گندم کو نقصان پہنچایا ہے۔ میں بارشوں کو اللہ کی رحمت سمجھتا ہوں مگر جب یہ بارش اس وقت طوفان کا روپ اختیار کرتی ہے جب ہماری گندم کٹنے کے تیار ہو تو یہ کاشتکار کو ہارٹ اٹیک بھی کروا سکتی ہے۔ میں اس وزیر کو تلاش کر رہا ہوں جو ان بارشوں کو اپنے لیڈر کی کرامت اور برکت قرار دیتی تھی اور اسے یہ خیا ل بھی نہیں تھا کہ کچے مکان والوں کی بارشوں سے دوستیاں اچھی نہیں ہوتیں۔ ہم شہروں میں رہنے والے زراعت کے شعبے کو کسی شمار قطار میں ہی نہیں لاتے جو ہماری تین چوتھائی دیہی آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے او ر اسی کے ساتھ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے شعبے جو اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ کچھ ہم غلط کر رہے ہیں یاکچھ ہمارے ساتھ غلط ہو رہا ہے کہ ایک تباہی اور بربادی کے دوسری تباہی اور بربادی آجاتی ہے۔ ریلوے میں اس برس ہمیں ریکارڈ خسارہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ لاہور سے کراچی جاتے ہوئے طیارے کا تباہ ہونا، یہ سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔ غریبوں کو روٹی کے لالے پڑے ہیں تو مڈل کلاس کی بچتیں ختم ہو گئی ہیں۔ اگر آپ اکنامکس کے طالب ہلم ہوں تو آپ کوعلم ہو کہ مڈل کلاس کی بچتیں ختم ہونا کسی ملک میں ایٹم بم گرنے سے زیادہ تباہی لاتا ہے۔
میں نے کچھ مہینے پہلے کالم لکھا تھا، عنوان تھا، یہ وقت دعاہے، مگر پھر یوں ہوا کہ مساجد کے دروازے بھی ہم نے خود ہی بند کر دئیے اورجب مساجد کے دروازے کھلے بھی تو لوگ اتنا ڈر چکے تھے کہ بہت ساروں نے کرونا کے خوف کو اللہ کے عذاب سے قریب اور بڑا جانا۔ یہ ایسا وقت آیا ہے کہ ہم بحثیت مجموعی دعائیں بھی نہیں مانگ سکے۔ ہمارے علمائے کرام جنہوں نے ہمیں توبہ کی راہ دکھانی تھی انہوں نے بھی اعلانات کر دئیے کہ وہ نمازیں گھروں پر ادا کریں گے یعنی کچھ تو ایسا ہوا ہے جس نے ہماری دعائیں اور سجدے بھی چھین لئے گئے ہیں، برکت ختم کرکے رکھ دی ہے۔ جس آبادی کی مساجد بے آیاد ہوجائیں وہ بستیاں کب آباد رہا کرتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں رجب الرجب میں معراج کی رات گزری جب آسمانوں میں ہمارے بجٹ بنتے ہیں۔ کس کو کتنا رزق ملے گا اور کس کی زندگی کا پتا ٹوٹ گرے گا، سب تحریر ہوجاتا ہے مگر ہمین تو اس شب کا بھی علم نہیں تھا کہ وہ کب گزری، جب علم ہوا وہ گزر چکی تھی۔
ایک حکایت کے مطابق پرانے وقتوں کا ایک نیک دل بادشاہ شکار کرنے جنگل میں نکلا تواپنے بہترین نسل کے گھوڑے پر تیر اندازی کے جوہر دکھاتا ہوا اپنے ہی ساتھیوں سے بہت آگے نکل گیا۔ گھوڑا دوڑتے دوڑتے ایک باغ میں جا پہنچا تو وہاں کچھ دیر سستانے کی ٹھانی تاکہ اس کے ساتھی اسے آملیں۔ باغ کے بوڑھے مالک نے اسے مسافر جانا اور اسے انار کے رس کی پیش کش کی۔ مرددانا نے ایک انار توڑا، اسے پیالے میں نچوڑا تو وہ پیالہ رس سے بھر گیا۔ بادشاہ نے ایسا زرخیز او رہرا بھرا باغ دیکھا تو منہ میں پانی بھر آیا، سوچا، واپس جاتے ہی اسے اپنی تحویل میں لے لوں گا یا اس پر بھاری ٹیکس عائد کر دوں گا کہ یہ بڈھا اکیلا اکیلا ہی اس سے فائدہ اٹھائے جا رہا ہے۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے پیالہ ختم کیا تو مالک نے ایک اور پیالے کی پیش کش کی جو اس نے قبول کر لی مگر اس مرتبہ ایک انار نچوڑا گیا تو پیالہ آدھا بھی نہ بھرا، یوں دوسرا، تیسرا اور چوتھا بھی اس پیالے کو نہ بھر سکے جو پہلے ایک ہی انار کے رس سے بھر گیا تھا۔ بادشاہ جو اس وقت مسافر کے طور پر تھا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا جبکہ باغ کے بوڑھے مالک کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں، اس نے اناروں اور پیالے کی طرف دیکھا اور بولا، خدا خیر کرے ہمارے بادشاہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے۔