سر! آپ کی عوامی مقبولیت، صحافت کا تجربہ، باخبر لوگوں سے تعلقات اور تجزئیے کی صلاحیت سب کچھ ہی مجھ سے زیادہ ہے مگر میں بصد احترام عرض کروں کہ وہ کچھ نیا نہیں ہونے والا جس کا آپ بتا رہے ہیں، ہاں، وہ نیاتب ہوسکتا تھا جب میں نے 30 اکتوبر 2011ء کی رات آپ کو ملک کے مقبول ترین چینل پر تجزیہ کرتے ہوئے سنا تھا، آپ بتا رہے تھے کہ عمران خان نامی سیاستدان نے ان خاندانوں کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا ہے جو ہمیشہ تک سیاست سے لاتعلق رہے۔ خیال تھا کہ جب یہ نئے اور صاف شفاف خاندان سیاست میں آئیں گے تو انقلاب برپا ہو جائے گا۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں یہ سب ایک نیا پاکستان بنائیں گے جس میں میرٹ ہوگا، اخلاقیات ہوگی، ترقی ہوگی مگر وہ سب کچرا نکلے بلکہ میں ان خاندانوں کی سوشل میڈیا پر زبان اور حکومت میں کارکردگی دیکھتا ہوں تو یقین بڑھتا ہے کہ یہ تو محض غلاظت تھی۔ مجھے تیس اکتوبر کی رات ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سب فریب نظر ہے۔
میں نے رات دس بجے جلسہ ختم ہونے کے بعد گیارہ بجے جو کالم تحریر کیا تھا وہ جناب مجیب الرحمان شامی کے مؤقر روزنامہ پاکستان، کے صفحہ دو پر گیارہ کی صبح شائع ہوگیا تھا۔ میں نے عمران خان کو ایک سراب قرار دیا تھا۔ وہ کالم، کالم نویسوں میں کوہ ہمالیہ سمجھے جانے والے جناب عطاء الحق قاسمی کو اتنا پسند آیا تھا کہ اسے، اسی ہفتے میرے نام کے ساتھ روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں من و عن شائع کر دیا تھا۔
سر! معاملہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے ڈسکارڈ ہونے کی باتیں میں نوے کی دہائی سے سن رہا ہوں۔ اس سے پہلے کا مجھے اس لئے علم نہیں کہ میں اس وقت خود طالب علم تھا، بچہ تھا۔ میں نے غلام اسحاق خان کی طرف سے نواز شریف کی حکومت برخواست کرنے پر بھی یہی سنا تھا کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی اور اس وقت بھی جب وحید کاکڑ، مسلم لیگ نون کے مخالف ہوئے تھے۔
میں نے یہ پروپیگنڈہ اس وقت اپنے کامل عروج پر دیکھا جب مشرف کا مارشل لا لگا اور نواز شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ مجھے یاد ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے مسلم لیگ نون لاہور کے صد ر کو قاف لیگ میں شامل کیا تو مسکراتے ہوئے کہا ہم نے لاہور میں ان کا دفتر ہی ختم کر دیا ہے۔ ہمارے ساندے والے میاں اجو بھی ناکام ہوئے حالانکہ ان کی پارٹی کی حکومت قائم کی گئی تھی، ہاں، یہ درست ہے کہ مسلم لیگ نون کو ختم کرنے کے لئے مشرف دور کے بعد نیا فارمولہ آزمایا گیا یعنی نئے سیاستدان کے ذریعے پرانے سیاستدانوں کا خاتمہ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ موصوف مکمل طور پر نااہل ثابت ہوئے۔
آپ خود کہہ چکے کہ وہ محض گفتار کے غازی ہیں، عمل زیروہے۔ بیانئے کے ذریعے حکمرانی پانی کا بلبلہ ہوتی ہے۔ میں یہاں ایک اور تصور کو واضح کرتا چلوں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرتی ہے اور اس میں وزرائے اعظم بے اختیار ہوتے ہیں۔ اس تھیوری میں کچھ سچ ہے اور بہت سارا پروپیگنڈہ۔ وضاحت اس کی یوں ہے کہ اگر وزرائے اعظم واقعی بے اختیار ہوں، کٹھ پتلی ہوں تو ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کبھی نہ بگڑے، میر ظفر اللہ جمالی کی مثال ہی دیکھ لیں۔
حقیقت یوں ہے، اسٹیبلشمنٹ ایسی حکومت تو ضرور چاہتی ہے جو اس کے ساتھ محاذ آرائی میں نہ ہو، اس کو ٹارگٹ نہ کر رہی ہو، اس کا نقصان نہ پہنچا رہی ہو مگر وہ ایک نااہل اور نکمی حکومت کبھی نہیں چاہتی جو معیشت کی ایسی تیسی کر دے اور خارجہ تعلقات کا تیا پانچہ۔ وطن کے دفاع کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ایسے وزیراعظم کو کیسے پسند کرسکتے ہیں جو جادو ٹونے کے زیر اثر کوئٹہ کے دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے جنازوں تک میں نہ جاتا ہو اور انہیں بلیک میلرز کہہ دیتا ہو۔
سر! ہمیں ایک اور تاثر سے باہر نکلنا ہوگا جو اقتدا ر نکلنے والا ہر سیاستدان پھیلاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی دشمن ہے۔ یہ درست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات ہیں مگر اسے نکتہ نظر کا فرق کہا جاسکتا ہے۔ اس پورے منظرنامے میں اسٹیبلشنمنٹ کسی سیاسی حکومت کو یہ نہیں کہتی کہ وہ کام نہ کرے، عوامی مسائل حل نہ کرے، معیشت کو ترقی نہ دے، میگا پراجیکٹس نہ لے کر آئے بلکہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فوج کے ادوار ہمیشہ سے پروگریسو اور ڈویلپمنٹ والے رہے ہیں اور اگر فوجی ادوار کا کسی سیاسی ادوار سے مقابلہ ہو سکتا ہے تو وہ صرف مسلم لیگ نون کے ہی ہیں۔
بہت ساروں کو یہ لگتا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری سیاسی منظرنامے پر پیچھے جا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اتنی ہی تیزی کے ساتھ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری سامنے آ رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سارے اسے موروثیت کہیں گے لیکن کیا یہ فیصلہ ان پارٹیوں کے کارکن اور ووٹر کریں گے کہ ان کا لیڈر کون ہوگا یا ہم صحافی۔ ویسے دلچسپ یہ ہے کہ عمران خان کے متبادل کے طور پر علیمہ خان آ رہی ہیں یا بشریٰ بی بی تو پھران میں فرق کیا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ اگر عمران خان کے بچے پاکستان میں ہوتے تو وہ بھی لیڈر ہوتے۔ اب وہ پاکستان میں کیوں نہیں ہیں، سیاست میں حصہ کیوں نہیں لے رہے بلکہ ڈیڑھ برس سے قید باپ کا منہ تک دیکھنے کیوں نہیں آ رہے اس المیے پر آپ مجھ سے بہتر رائے دے سکتے ہیں۔
سر! ایک لمحے کے لئے مجھے لگا تھا کہ پی ٹی آئی پنجاب سے مسلم لیگ نون اور سندھ سے پیپلزپارٹی کو نکال سکتی ہے اورمیں نے اس پر تجزیاتی کالم بھی لکھے تھے مگر اب میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کبھی کسی ذریعے سے دوبارہ اقتدار تک پہنچ جائے مگر آپ میرے ساتھ اتفا ق کریں گے کہ اس کا دوسرا دور پہلے سے زیادہ نااہل، کرپٹ اور انتقامی ہوگا۔ یقین کیجئے، اس مرتبہ جو نیا ہونے والا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ میں کسی تھڑے پر بیٹھا ماجھا گاما ہوں اور نہ ہی کسی ٹھنڈے ڈرائنگ روم میں بیٹھا سوڈوانٹلکچوئل، میں بطور صحافی سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنے ملک کی تعمیر وترقی کا مقدمہ لڑنا ہے۔
مجھے یہاں سی پیک بھی لانا ہے اور میٹرو اور موٹرویز بھی بنوانی ہیں۔ کیا آپ نے پہلے کبھی یہ دیکھا تھا کہ جج وزیراعظم کو کھانے والے ہوں اور خود اپنے یقینی عہدوں سے محروم ہوجائیں۔ کیا آپ نے کبھی یہ دیکھا تھا کہ ایک ڈیفالٹ ہوتا ملک چند مہینوں میں اپنے پیروں پر یوں کھڑا ہوجائے کہ آئی ایم ایف جیسا ادارہ حیران رہ جائے۔ میں آپ کو پورے یقین سے بتاتا ہوں کہ جس طرح مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے پرویزمشرف اور عمران خان کی آمریتوں میں اپنے وجود کو برقراررکھا ہے، وہاں مریم اور بلاول آپ کو ایک مرتبہ پھر حیران کر دیں گے۔