میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ بننے جا رہی ہے اور یہ بھی اپنے ہی کالموں میں لکھا تھا کہ اگر مسلم لیگ نون نے میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے پر اصرار جاری رکھا تو اسے سادہ اکثریت نہیں ملے گی، ہاں، اگر شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی یقین دہانی کروا دی گئی تو اس کا اچھا نتیجہ مل سکتا ہے۔
میں گذشتہ چالیس برس میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر کچھ اندازے لگارہا تھا جو درست ثابت ہوئے۔ میرا ندازہ 2018 کے انتخابات میں اس حد تک تبدیل ہوا تھا کہ عمران خان چاروں سیٹوں سے کامیاب کروا دئیے گئے تھے حالانکہ میرا خیال تھا کہ وہ صرف میانوالی کی سیٹ سے جیت رہے تھے۔ اب بھی میرا اندازہ خیبرپختونخوا کے حوالے سے زیادہ غلط رہا۔ میرا خیال تھا کہ خیبرپختونخوا کی ہزارہ والی سائیڈ سے مسلم لیگ نون کو کچھ سیٹیں ضرو ر ملیں گی اورکچھ بلوچستان سے زیادہ شئیر۔
پنجاب کے بارے یہ خیال ہرگزنہیں تھا کہ مسلم لیگ نون فیصل آباد ڈویژن کی دس میں سے نو سیٹیں ہار جائے گی۔ سرگودھا میں ناکامی ہوگی جہاں کبھی مسلم لیگ نون اتنی مضبوط تھی کہ خود نواز شریف وہاں سے الیکشن لڑتے تھے، گوجرانوالہ اورشیخوپورہ کے نتائج نے بھی گڑبڑ کی جس کے نتیجے میں مسلم لیگ نون قومی اسمبلی میں سویا ایک سو دس کی بجائے ستر سے اسی کے درمیان سیٹوں پر آگئی تاہم بنیادی اندازہ درست ثابت ہوا کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ ہوگی جس میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو دوبارہ حکومت بنانی پڑے گی۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران میں بلاول بھٹو زرداری کو بار بار مشورے دیتا رہاکہ وہ اتنی سخت زبان استعمال نہ کریں کہ بعد میں شرمندگی ہو۔ بتایا جا رہا ہے کہ جب نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی رہائش گاہ پر شہباز شریف اورآصف زرداری کے درمیان پہلی ملاقات ہوئی تو شہباز شریف نے باقاعدہ طور پر اس طرز تخاطب کا شکوہ کیا جو بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی مہم کے دوران اختیار کئے رکھا۔
خیر، جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب اسمبلی اور تقریبا حکومت بھی بن چکی۔ میرے بہت سارے دوستوں کا اندازہ ہے کہ ستمبر، اکتوبر میں کوئی بڑی مہم شروع ہوسکتی ہے۔ ان کے خیالات یہ بھی ہیں کہ کوئی چھوٹا موٹا مارشل لا یا ایمرجنسی ٹائپ صورتحال بھی ہوسکتی ہے مگر میں ان سے متفق نہیں ہوں۔ ]پی ٹی آئی کو اب وہ سپورٹ بھی نہیں جو 2013 سے 2017 کے دوران تھی۔
پی ٹی آئی نے ایک اور غلطی کر دی ہے کہ اس نے موقع اوروقت ہونے کے باوجود اپنے انتخابات نہیں کروائے اوراس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل بن چکی ہے۔ تین مارچ کو پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات ہو رہے ہیں چونکہ ان میں بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب بالترتیب چئیرمین اور جنرل سیکرٹری کے امیدوار ہیں اس لئے وہ ایس آئی سی کا حصہ نہیں بنے کیونکہ اگر وہ سنی اتحاد کونسل جوائن کر لیتے تو پی ٹی آئی کا لیکشن نہیں لڑ سکتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور بات واضح ہوگئی کہ پی ٹی آئی کے وہ تمام ارکان جنہوں نے ایس آئی سی جوائن کر لی اب وہ نہ پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی اس صورتحال کو بھی اپنے فائدے کے لئے استعمال کرسکتی ہے کہ وہ پارٹی تنظیم، ارکان اسمبلی سے مکمل طور پر الگ کر دے، اس سے وہ مضبوط ہوگی۔ میرے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں بہت سارے ووٹ لینے کی وجہ سے عمران خان کو ریلیف ملے گا مگر دوسری طرف یہ امکانات موجود ہیں کہ نومئی کے مقد مات میں سزائیں ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر کالعدم بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکومت فیصلہ کرے گی اور سپریم کورٹ اس پر مہر تصدیق ثبت کرے گی۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولز ابھی مزید غلط کھیل گئے ہیں او رانہوں نے قاضی فائز عیسی کے خلاف مذہب کی بنیاد پر جو نفرت انگیز مہم شروع کی، اس کی قیمت بھی ان کو ادا کرنی پڑے گی۔
خیر، سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر میرے سامنے سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا۔ اندازہ ہے کہ یہ اسمبلی بھی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل کی صورت ایوان میں موجود رہے گی۔ شہباز شریف کی حکومت کمزور بھی ہے اور مضبوط بھی۔ کمزور اس طرح کہ پیپلزپارٹی کسی بھی وقت اسے پریشان کر سکتی ہے مگر مضبوط اس طرح کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے رہنماوں کو وزارتوں میں لا کے اپنی کمانڈ کو مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف کس طرح کھیلتے ہیں۔ وہ اپنے حکومت کو مضبوط بناتے ہیں یا سولہ ماہ کی حکومت کی طرح وہ دور، دور رہتے ہیں۔
نواز شریف کا حکومتی امور سے دور رہنا اس لئے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ معاملہ صرف شہباز شریف کا نہیں بلکہ مریم نواز کا بھی ہے۔ وہ مریم نواز کو بہرحال ایک بہترین اور کامیاب ترین وزیراعلیٰ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کے لئے پنجاب کی بیوروکریسی کو جاتی امرا طلب کرکے جو ایجنڈا اپنی ذاتی نگرانی میں مرتب کروایا ہے وہ طاقتور اور شاندار ہے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ پنجاب کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل اور ورچوئل ورلڈ پر لے جانے کی ضرورت ہے۔ مریم نواز کس طرح کامیاب ہوسکتی ہیں اس کے لئے ایک الگ کالم کی ضرورت ہے۔
حکومت کے سامنے اس وقت پی ٹی آئی کے شور شرابے سے بھی زیادہ بڑا چیلنج میکرو اور مائیکرو لیول پر اقتصادی صورتحال کاہے۔ عام آدمی کی چیخیں گیس اور بجلی کے بلوں نے نکلوا دی ہیں۔ دوسری طرف اس برس پاکستان کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے کی واپسی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں یقینی طو ر پر آئی ایم ایف کے سامنے قرض کے لئے دست سوال دراز کرنا ہی پڑے گا مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری اس سرمایہ کاری کونسل کو فعال بنانا ہے جسے جنرل عاصم منیر اور شہباز شریف نے مل کر بنایا ہے۔
پاکستان کو اس وقت صرف ایک ہی چیز بچا سکتی ہے اور وہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے چاہے وہ زراعت کے شعبے میں ہو یا کان کنی کے۔ اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ وفاق اور پنجاب میں ایسی ٹیم موجود ہو جو پروپیگنڈے کے محاذ پر کام کر سکے۔ حال یہ ہیکہ پنجاب کے لوگوں نے عثمان بزدار جیسے نااہل اور کرپٹ وزیراعلیٰ سے نفرت کے باوجود پی ٹی آئی کوووٹ دے دئیے ہیں۔ اب مسئلہ کارکردگی سے کہیں زیادہ کارکردگی بیچنے کا ہے اور حکومت کی کامیبابی اور ناکامی اسی پر بنیاد پر کرتی ہے ورنہ آپ جتنی مرضی موٹرویز بنا لیں، میٹروز کے جال بچھا دیں، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔