اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے بلکہ بعض دوست تو مضحکہ خیز انداز میں پوچھتے ہیں، کیسا معاہدہ، کون سا معاہدہ، کب ہوا معاہدہ، کس نے کیا معاہدہ اور آپ کے پاس دکھانے کے لئے ایک پچاس روپے کے اشٹام کے سوا کچھ بھی نہیں جس پرسابق وزیراعظم کو کوٹ لکھپت جیل سے لندن جانے کی اجازت دی گئی تھی، نہیں نہیں، آئیے کتابی باتیں کرتے ہیں کہ وہ اجازت عین آئین اور قانون کے مطابق تھی، پھر میرے ذہن میں سوال آتا ہے کہ آئین کی کون سی شق اورقانون کی کون سی دفعہ، جی ہاں، آئین کی کون سی شق اور قانون کی کون سی دفعہ جس کے تحت سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی سیاسی سرگرمیاں ہی معطل نہیں تھیں بلکہ گذشتہ ماہ نیب میں طلب کئے جانے تک ان کا ٹوئیٹر اکاونٹ بھی خاموش تھا۔ وہ ٹوئیٹر اکاونٹ جو کسی سیاسی تحریک سی اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔
میرے خیال میں بات بہت ہی سادہ اور ہموار طریقے سے آگے بڑھ رہی تھی کہ غیر اعلانیہ معاہدہ کرنے والوں کے درمیان غلط فہمیاں او ر دوریاں پیدا ہونے لگیں۔ مجھے باخبر دوست بتاتے ہیں کہ ان غلط فہمیوں او ردوریوں کے پیدا کرنے میں حکومت کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور میں یہاں پی ٹی آئی کے اپنے ایک دوست کی بیان کردہ حکمت عملی کو ایک فہم اور منطق کے تحت درست بھی سمجھتا ہوں کہ حکومت کو دونوں فریقین، کو بہت زیادہ کلوز نہیں ہونے دینا چاہئے کہ کہیں فاصلے بالکل ہی ختم نہ ہوجائیں نئے قول و قرار نہ ہوجائیں اور اگر ایسا ہوا تو بے چاری سیاسی حکومت کیا کرے گی، کہاں جائے گی، یہی وجہ ہے کہ سیاسی حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ایف اے ٹی ایف پر اپوزیشن اور اداروں کے درمیان وہی دوریاں اور نفرتیں دوبارہ پیدا ہوجائیں جو آج سے ڈیڑھ، دو برس پہلے تھیں، اپوزیشن کو ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بھارت کی زبان بولنے والا قرار دے دیا جائے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جو محب وطن دوستوں کے دلوں پر تیرکی طرح لگتی ہے اور اسے چھلنی کردیتی ہے۔ حکومت کا فائدہ یہ ہے کہ ان ہاوس تبدیلی کا آپشن ختم ہو کے رہ جائے گا جس کی تجویز ایک مرتبہ پھرپیپلزپارٹی کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور جناب شہباز شریف کی طرف سے مبینہ طور پرنئے انتخابات کی بات کی گئی ہے۔
کیا یہ عجیب و غریب بات نہیں ہے کہ اگر تبدیلی کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ اپوزیشن کے مفاہمت پسند سیاستدان پر اتفاق کر لیا جائے جو شہباز شریف ہی ہوسکتے ہیں مگر لطیفہ یہ ہے کہ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق شہباز شریف نے ان ہاوس تبدیلی کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ گمان یہی ہے کہ انہوں نے یہ تجویز اپنی عزت بچانے کے لئے مسترد کی ہے کیونکہ انہیں پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت تو حاصل ہوسکتی ہے مگر اپنی فیملی اور اپنی جماعت کی حمایت، اس بارے میں کچھ واضح نہیں۔ مسلم لیگ نون کے میرے ایک دوست نے کہا کہ ایسی بات نہیں، کیا میاں نواز شریف نے خود ہی میاں شہباز شریف کو انتخابات کے لئے ملک کا وزیراعظم نامزد نہیں کیا تھا۔ میں ان کی خوش گمانی پر مسکرا اٹھا اور کہا، ہاں، مگر اس کے بعد جناب شاہد خاقان عباسی کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ میں بطور سیاسی تجزیہ نگار شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے اور قائم رکھنے کے فیصلے کی حمایت کرتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو صرف قائدین کے گھروں تک محدود نہیں ہونا چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جانتا ہوں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے۔ وہ شہباز شریف نے جس نے اپنی محنت سے پنجاب کا رنگ نقشہ بدل دیا اور دوسرے صوبوں کے عام لوگ اسے ایک نجات دہندہ کے طور پر سمجھتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سندھ، خیبرپختونخوا یا بلوچستان کے کسی بھی عام شہری پوچھ لیاجائے مگر اسے پیپلزپارٹی سے بھی پہلے بھائی اور بھتیجی سے این او سی درکار ہے۔
بات اس غیر اعلانیہ معاہدے کی ہے جس کے تحت موجودہ نظام کو دھاندلی کے الزامات کے باوجود نہ صرف قبول کیا گیا ہے بلکہ اس کے خلاف آج تک کوئی ٹھوس وائیٹ پیپر تک جاری نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی اس لئے مطمئن ہے کہ اس کے پاس سندھ موجود ہے اور نواز لیگ کو ملنے والا ریلیف اسے اطمینان دلا دیتا ہے۔ مریم نوازاور نواز شریف کی جیل سے رہائی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کی معطلی کوئی سیاسی راز نہیں ہے مگر خرابی وہاں پیدا ہوئی جہاں پی ٹی آئی نے نوا زشریف کی ریسٹورنٹ میں کافی پیتے یا بیٹے کے ساتھ سڑک پر چلتے ہوئے بنی ہوئی تصاویر کو بھی برداشت کرنے سے انکار کر دیا اور اسے معاہدے، کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اب سرگوشیاں کرنے والے بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو معاہدے کاپابند رکھنے کے لئے ایک مریم نواز کو نیب میں طلب کر لیا گیا حالانکہ یہ بھی غیر اعلانیہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ جب ایک طر ف سے خلاف ورزی ہوئی تو دوسری طرف سے بھی فریق نے پیغام بھیج دیا کہ اب ہم بھی پابند نہیں۔ مسلم لیگ نون نے کارکنوں کو نیب کے دفتر کے باہر پہنچنے کی کال دے دی اور پھر جو کچھ ہوا سب پر ظاہر ہے کہ سارا احتساب ایک طرف رہ گیا اور ڈائریکٹر جنرل نیب نے کہہ دیا کہ وہ مریم نواز کو طلب کر کے پتھر نہیں کھانا چاہتے یعنی ایک فریق معاہدے پر واپس جا رہا ہے مگر دوسرا فریق اس موقعے سے پورا فائدہ اٹھا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے مری سے اسلام آباد آتے ہوئے بارہ کہو پر ایک اچھا پولیٹیکل شو کیا اوراس کے بعد ان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر گفتگو بھی واضح پیغام دے رہی ہے۔
اب معاملہ نواز شریف کی واپسی کا ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ وہ اس معاملے پر کھیلے۔ یہ معاملہ عدالت کا نہیں ہے بلکہ حکومت کا ہے کہ وہ ضمانت میں توسیع دیتی ہے یا نہیں۔ حکومت کے اس اقدام کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجا سکتا کیونکہ وہ اپنے ووٹروں کو مطمئن رکھنا چاہتی ہے جو نواز شریف کے حوالے سے بغض اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں اورانہیں ہر حال میں جیل کی کوٹھڑی میں دیکھنا چاہتے ہیں اگرچہ یہ ایک صحت مندانہ سیاسی رویہ نہیں ہے مگر ہماری سیاست اسی بیماری کا طویل عرصے سے شکار ہے۔ یہاں ہر سیاسی جماعت کے کارکن اپنے سیاسی مخالف رہنما کو کرپٹ اور بھارت کا ایجنٹ سمجھتے ہیں اور اسے پھانسی دینے تک کی حمایت کرتے ہیں۔ حکومت نواز شریف کی واپسی اس لئے بھی چاہتی ہے کہ وہ اسے خطرہ ہے کہ کہیں جج ارشد ملک والے معاملے کے بعدکہیں نواز شریف کی سزائیں ختم نہ ہوجائیں اور الزامات دوبارہ تحقیقات یا ٹرائل والی جگہ پر واپس نہ چلے جائیں تو ایسے میں نواز شریف کسی مجرم کی طرح نہیں بلکہ کسی فاتح کی طرح واپس لوٹیں گے اور وہ سیاسی میدان پوری طرح فتح کر لیں گے جو حکومت نے اپنی نااہلی اور کوتاہی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ خالی چھوڑ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آج آزادنہ اورمنصفانہ انتخابات ہوجائیں تو نواز لیگ نہ صرف پنجاب بھر میں ایک مرتبہ پھر کلین سویپ کر جائے گی بلکہ دوسرے صوبوں سے ملنے والی اضافی سیٹوں کے ساتھ وفاق بھی لے جائے گی مگر میری جن بھی باخبر لوگوں سے بات ہوئی ہے وہ اس پر سو فیصد قائل ہیں کہ نہ تو موجودہ اسمبلیاں ٹوٹیں گی اور نہ ہی مڈٹرم انتخابات ہوں گے۔ انتخابات کے لئے 2023 کا ہی انتظار کرنا پڑے گا تو واحد راستہ ایوان کے اندر تبدیلی ہے اور شہباز شریف جیسے کسی محنتی اور مفاہمت پسند سیاستدان پر اتفاق ہے مگران ہاوس چینج کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔