اب یہ کہنا غلط ہے کہ ہر پاکستانی مہنگائی سے پریشان ہے کہ میں نے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل صاحب کو ایک ٹی وی پروگرام میں اس پر سخت غصے میں سوال کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ کہاں ہے مہنگائی۔ اب مہنگائی کوئی ایسی چیز تو تھی نہیں کہ اینکرمیز کی دراز سے نکال کے دکھا دیتا، بس باتیں ہی بناتا رہ گیا۔ یہ مہنگائی سے متاثر نہ ہونے والوں کی ایک قسم ہے جبکہ دوسری قسم مجھے پی ٹی آئی کے اچھرے میں ہونے والے ورکرز کنونشن میں ملی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ اگر چینی پانچ سو روپے اور پٹرول ہزار روپے "کلو" بھی ہوجائے تو وہ جناب عمران خان کے ساتھ ہے کیونکہ انہوں نے ریاست مدینہ بنانے کا نعرہ لگایا ہے۔
مجھے ایک بابا جی کی ویڈیو بھی ملی ہے جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ آج سے پچاس برس پہلے بھی ایک کلو دیسی گھی فروخت کرکے ایک بوڑھی عورت اپنا سوٹ خرید لیتی تھی اور اب بھی وہ گھی اٹھارہ سو روپے کلو بیچتی ہے تو سوٹ کے ساتھ دوپٹہ بھی خرید لیتی ہے لہٰذا سوال وہی ہے کہ کہاں ہے مہنگائی۔ مہنگائی کا تو علم نہیں مگر خبر ہے حکومت نے راشن کارڈ دوبارہ شروع کرنے پر غور کیا ہے تومجھے اندازہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں پچاس برس پرانے پاکستان میں ہی لے جا رہی ہے جب راشن کارڈ اور آٹے، چینی کے ڈپو ہوا کرتے تھے۔
میں نے آج یہ کالم لکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے ورلڈ میٹر پر پاکستان کی آبادی چیک کی ہے تو یہ 21 کروڑ 91 لاکھ 94 ہزار 696 افراد پر مشتمل ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے ایک کروڑ 69 لاکھ تین ہزار 702 لوگ مہنگائی کا رونا روتے اچھے نہیں لگتے کہ اس صورتحال میں کچھ نہ کچھ حصہ ان کا بھی ہے، ان کے ساتھ ساتھ مذکورہ میجر جنرل صاحب جیسے بہت سارے لوگ ہیں جن کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہوسکتی ہیں اور وہ جب، جہاں او رجو چاہیں خرید سکتے ہیں لہٰذا ان کے لئے بھی مہنگائی وجود نہیں رکھتی۔
ان میں ملک بھر کے دس لاکھ سے زائد بڑے کاروباری افراد اور ان کے پچاس لاکھ سے زائد اہل خانہ بھی شامل ہیں، وہ سرکاری ملازمین بھی ہیں جن کے گریڈ اوپر کے ہیں اور اچھی خاصی تنخواہیں لیتے ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والے بیس لاکھ سینئرز (جونئیرز اور ورکرز نہیں ) اور ان کے اہل خانہ کو بھی ایک طرف کر دیں اور اسی طرح لاکھوں ملازمین (جن کے محکمے لکھنا ضروری نہیں )مگران کی رہائش سے بلوں تک کو قومی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے لہٰذا ان کے لئے بھی مارکیٹ کی قیمتیں اہم نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت ساروں کو کسی حد تک مہنگائی اس وقت نظر آتی ہے جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ آئی فون سوا تین لاکھ کا ہوگیا ہے یا ری بورن جو دو برس پہلے پچیس لاکھ کی تھی نئے پاکستان میں اس کی قیمت چالیس لاکھ رروپے ہوچکی ہے۔
ان سب مالی طور پر بڑے بڑے لوگوں کو مہنگائی کے شکوے والے خانے سے نکال دیا جائے تو باقی مہنگائی صرف تین، چوتھائی پاکستانیوں کے لئے بچتی ہے یعنی 16کروڑ 43 لاکھ 96 ہزار 22 پاکستانیوں کے لئے، یہ ایگزٹ وہ اعداد و شمار ہیں جو ہر چار میں سے تین پاکستانیوں کو ظاہر کرتے ہیں مگر معاملہ یہ ہے کہ یہ پاکستانی غریب ہیں، بے اختیار ہیں، فیصلہ ساز نہیں ہیں۔
اب عمران خان صاحب کی حکومت نے نواز شریف کے دور کی سوا تین فیصد مہنگائی کو سوا چودہ فیصد پر لے جاتے ہوئے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری ہے اور زیادہ تر اخبارات کی خبروں کے مطابق پندرہ ارب روپوں کے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق اس وقت گھٹیا گندم کا 805 روپے میں ملنے والا بیس کلو گندم کا تھیلا آٹھ سو میں ملے گا یعنی پورے پانچ روپوں کی بچت ہوجائے گی۔ جب ہم ان تین چوتھائی پاکستانیوں کو دیکھتے ہیں اور اس پیکج کو ان پر منصفانہ انداز میں تقسیم کرتے ہیں تو ہر کسی کے حصے میں 91 روپے 24 پیسے آتے ہیں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ یہ پیکج ایک مہینہ کے لئے نہیں بلکہ مالی سال کے پورے بجٹ سے ہے تویہ ہر مہینے کے سات روپے ساٹھ پیسے بنتے ہیں اور روزانہ کے سوا پچیس پیسے۔
ہر مہینے ساڑھے سات روپے سے زائد اکٹھے مل جانا کوئی چھوٹی بات نہیں لہٰذا جب آپ مہینے بھر کا آٹا، دالیں، چینی اور گھی خریدنے جائیں گے تو آپ کے پاس ایک لوڈر گاڑی ہونی چاہئے اور ساتھ ہی میں تحریک انصاف کا کوئی ایسا کارکن جو آپ کو دئیے گئے اس خزانے کی حفاظت کر سکے اور بازار میں شکرگزاری کے عظیم ترین احساس کے ساتھ عمران خان زندہ باد کے نعرے لگا سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ عطا کئے گئے قارون کے اس خزانے سے بجلی، گیس، پانی، پٹرول اور ڈیزل وغیرہ سستے نہیں ملیں گے، اس سے نہ آپ بچوں کی کتابیں اور یونیفارم سستی خرید سکیں گے اور نہ ہی والدین کے لئے دوائیں۔ نہ ان پیسوں سے پھلوں میں کوئی رعایت ملے گی اورنہ ہی مصالحہ جات میں اور یہی صورتحا ل کپڑوں سمیت دیگر الیکٹرانکس تک کی ہے جن کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ابھی دو سے تین مہینوں میں چینی تقریباً پچیس روپے کلو مہنگی ہوئی ہے یعنی عمران خان صاحب کی دی ہوئی امداد اگر آپ تین مہینے تک جمع کریں تو ایک کلو چینی کا خسارہ قریب قریب پورا کر سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار رہنے دیجئے کہ پٹرول 65 روپوں سے 118 روپوں پر پہنچ گیا، بجلی کے بل کم از کم دوگنے ہوچکے اور گیس کے چوگنے۔ ڈالر 108 سے155 پر ہے اور کوئی موسمی سبزی بھی آپ کو سو روپے کلو سے کم پرنہیں ملتی۔ بس یہ دیکھئے کہ حکومت نے پندرہ ارب روپوں کی خطیر رقم غریبوں، مسکینوں پر اپنے صدقے کے طور پر وار کے پھینک دینے کا فیصلہ کیا ہے لہٰذا میری تجویز تویہ ہے کہ جناب وزیر اعظم کا نام حاتم طائی رکھ دینا چاہئے۔
بات صرف اتنی نہیں، شنید ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کوئی پچاس ہزار کریانے کی دکانیں بھی کھلوا رہی ہے مگر شائد انہیں کسی نے غلط بتایا ہے کہ ملک بھر میں دکانیں نہیں ہیں یا ان میں اشیاءدستیاب نہیں ہیں۔ انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں دکانوں پر ضروریات زندگی کی تمام اشیا موجود ہیں مگرہم عوام کی جیبوں میں انہیں خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ پچا س ہزار سستے تندور بھی قائم کئے جا رہے ہیں جن کے بارے میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ جو سستی روٹی شہباز شریف نے دی تھی وہ حرام تھی مگر یہ سستے تندور اور ان کی روٹیاں بالکل اسی طرح حلال ہوں گی جیسے لاہور کی تیس ارب کی میٹرو حرام تھی اور پشاور کی سوا سو ارب میں بھی تعمیر نہ ہوپانے والی بی آرٹی حلال۔
میں اب بھی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا گروپوں کی تشریحات پر یقین رکھتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے مخالف کرپٹ، جاہل اور غریب ہیں لہٰذا اگر آپ خود کو ایماندار، انقلابی، پڑھا لکھا اور دولت مند قرار دلوانا چاہتے ہیں تو اس پیکج کی نہ صرف تعریف کیجئے بلکہ سب کو بتائیے کہ جیسے ہی یہ عظیم الشان پیکج ریلیز ہوا تو ہم اس کی وجہ سے ہونے والی بچت سے عمرہ کرنے چلے جائیں گے اور اس سے پہلے ترکی اور دوبئی کا چکر بھی لگا لیں گے بلکہ آپ یہ خبر بھی شئیر کر سکتے ہیں کہ آپ کے محلے میں کئی مردوں نے ماہانہ سات روپے ساٹھ پیسے کی عظیم الشان بچت کو دیکھتے ہوئے دوسری شادی کا منصوبہ بنا لیا ہے اور چوری چھپے میرج بیوروز کے چکر لگانا شروع کر دئیے ہیں۔