جب شہباز شریف پنجاب کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ بنے تھے تو اسی وقت نیو نیوز، کا آغاز ہوا تھا۔ نیو نیوز، کے لئے مجھے پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ پنجاب پولیس کا کلچر نہ بدل سکے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے پنجاب پولیس کا چہرہ بدلنے کے لئے بہت کچھ کیا، ڈولفن سمیت نئی نئی فورسز متعارف کروائیں، بیک اینڈ پرمشتاق سکھیرا کے ذریعے کمپیوٹرائزیشن کی، فرنٹ اینڈ پر فرنٹ ڈیسک بنائے، پولیس کی کالی وردی تبدیل کی مگر جو شے وہ تبدیل نہ کرسکے وہ پولیس اہلکاروں کا رویہ تھی اور پھر اسی دورمیں سانحہ ساہیوال ہو گیاجس نے پنجاب اور لاہور پولیس کے منہ پر وہ کالک مل دی جو کبھی نہیں مٹ سکے گی۔ میں ایک ورکنگ جرنلسٹ ہونے کے حوالے سے سوچتا ہوں کہ شہباز شریف کی کوششوں میں وہ کیا کمی رہ گئی کہ پولیس اندر سے تبدیل نہیں ہوسکی تو اب رائے بن رہی ہے کہ شائد شہباز شریف کو بھی عمر شیخ جیسا ایک پولیس افسر درکار تھا جوپولیس کواندر سے تبدیل کرسکتا۔ میں چوہدری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کی صورت گورننس کے دوماڈل دیکھنے کے بعدکہہ سکتا ہوں کہ کوئی سیاستدان نہیں، پولیس کو تبدیل کرنے والا کام کوئی پولیس والا ہی کر سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر شیخ کو وزیراعظم عمران خان اسلام آباد میں لگانا چاہتے تھے مگرعثمان بُزدار انہیں لاہور میں چاہتے تھے۔ اسی دوران وزیراعظم حیران پریشان رہ گئے جب ان کے بہنوئی احدبرکی کو ان کے والد کو پی آئی اے سے الاٹ ہونے والے پلاٹ کا نہ صرف قبضہ نہ مل سکا بلکہ احد برکی کے ساتھی یوسف بھی قتل ہو گئے جن کا پلاٹ ان کے ساتھ ہی تھا۔ میں پلاٹ کے تنازعے پرتفصیل سے لکھ چکا اور اصل حالات قوم کے سامنے لا چکا مگر وزیراعظم عمران خان کو یہی تاثرملاکہ ان کے نیک کردار کے حامل بہنوئی کو پلاٹ کا قبضہ نہیں مل سکااور یوسف کے قاتل بھی نہ پکڑے گئے جس پر وزیراعظم عمران خان نے عمرشیخ جیسے پریکٹیکل پولیس افسر کو لاہور کا سی سی پی او لگانے کا بڑا فیصلہ کر لیا۔
سی سی پی او آفس کی دیواریں کہتی ہیں کہ پولیس کوپریزنٹیشنوں کے ماہر ممی ڈیڈی افسران نہیں بلکہ وہی قابو کر سکتا ہے جو اس کے تمام حربے اور چالاکیاں جانتا ہو جیسے خان پور میں ایک نوجوان کو قتل کر کے نہر میں پھینک دیا گیا اور وقوعہ بنایا گیا کہ وہ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے نہر میں گر گیا ہے۔ جب عمر شیخ کے پاس مقتول کابوڑھا باپ روتا پیٹتا آیا تو انہوں نے بطور آر پی او نہر پر ڈیرہ ڈال لیا۔ کرائم سین پوچھا تو وہ بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ نہر کا پانی ناپا گیا تو وہ بہت کم تھا اور انہوں نے خود تفتیش کرتے ہوئے ثابت کر دیا وہ نوجوان حادثے کا شکار نہیں ہوا اور وقوعہ بدلنے والے تمام افسران کو ہتھکڑیاں لگ گئیں۔ میں نے دیواروں سے پوچھا کہ سی سی پی او گالیاں بہت دیتے ہیں تو جواب ملا کہ آپ نے اچھی انگریزی بولنے والے اور اچھی فائلیں تیار کرنے والے بہت سارے افسران آزما کے دیکھ لئے، اب اگر ایک مرتبہ ایسے پولیس افسر کو آزما کے دیکھ لیا جائے جو پیٹی بھراوں سے ان کی زبان میں ہی بات کرتا ہے۔ اگر وہ شہر کے بیچ میں لگے ہوئے ایک ایس پی کو یہ کہہ سکتا ہے کہ تم نے ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کی ہے، کل تک اس کی تصدیقی رپورٹ پیش کرو یا کل ا پنے لئے وہ ہتھکڑی بھی ساتھ لے آنا جو تمہیں پسند ہو کہ شائد تمہیں میری لگائی ہوئی ہتھکڑی سے شکایت ہو کہ یہ بہت موٹی ہے، ہاتھو ں کو بہت تنگ کرتی ہے تو وہ ایس پی سے رزلٹ بھی لے سکتا ہے۔
قیصرثناءاللہ، پنجاب تھیٹر آرٹسٹ پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ہیں، میں نے پوچھا، کیا ضرورت پیش آ گئی کہ وہ سی سی پی او کے حق میں بینرز لگاتے پھریں۔ ا نہوں نے بتایا کہ تھیٹر کے آرٹسٹوں کو ایک ایسے بدمعاش کا سامنا تھا جو اسلحے کے زور پرتین برس سے فنکاروں کو ہراساں کررہا تھامگر کوئی مدد کے لئے تیار نہیں تھا۔ مبینہ طور پرعلاقے کا ایس ایچ او خود افتخار عرف بھولاکے ڈیرے پر مستقل بیٹھتا تھا تو ایسے میں سی سی پی او نے اسی ایس ایچ او سے اس بدمعاش کو ہتھکڑیاں لگوا دیں تو شکریہ تو بنتا تھا۔ میں لاہورمیں تاجروں اور فنکاروں سمیت مختلف طبقات کا جو رسپانس دیکھ رہا ہوں وہ سیاست سے ہٹ کر انہیں بہت زیادہ سراہنے والا ہے اور وہ اپنے عوامی انداز سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہیں۔ میں نے ا س سے قبل لاہوریوں کا یہی والہانہ پن بلوچستانی نوجوان ڈی سی او نور الامین مینگل کے لئے دیکھا تھا جس نے لاہور یوں کے دلوں کو موہ لیا تھا۔ نور الامین مینگل ڈی سی او شپ سے جب رخصت کئے جا رہے تھے توان کے لئے بھی شہر بھر میں بینرز لگے تھے اور پنجاب یونیورسٹی سمیت متعدد باوقار مقامات پر اعزاز میں تقریبات منعقدکی گئی تھیں۔
میں موجودہ حکومت کے بہت سارے فیصلوں پرکھل کر تنقید کرنے والوں میں سے ہوں مگر جہاں مجھے لگتا ہے کہ کوئی شخص شہریوں کی تکالیف میں کمی کے لئے اور شہر کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہا ہے تو اسے سراہنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے عمر شیخ کے خلاف بھی طنزیہ اور تنقیدی کالم لکھے ہیں اورپروگرام بھی کئے ہیں۔ نہ مجھے پہلے وہ کالم لکھتے ہوئے کوئی ڈراور خوف تھا اور نہ ہی اب مجھے کوئی لالچ ہے۔ مجھے سی سی پی او آفس کی دیواروں نے دلچسپ بات بتائی کہ لاہور کے ایک سینئر کرائم رپورٹر ( نام لکھنا ضروری نہیں ) نے عمر شیخ کے سی سی پی او لگنے کے ساتھ ہی ان کی مختلف جگہوں پر تعریفوں کے انبار لگانے شروع کر دئیے حالانکہ اس وقت پوری سول سوسائٹی ان کے موٹر وے واقعے کی خاتون کو رات کے وقت کسی مرد کو ساتھ لے کر سفر کرنے کے مشورے پر شدید برہم تھی اور میں نے بھی اس پر طنزیہ کالم ہم شیخ عمر کے عہد میں زندہ ہیں، لکھا تھا۔ ہمارے اس ساتھی نے ان تعریفوں کے ساتھ ہی اپنا ایس ایچ او لگوانے کی سفارش کر دی۔ واقفان حال کے مطابق اس کا جواب یہ تھا کہ اب میڈیا اہم نہیں رہا بلکہ اس کی بجائے سچ اہم ہو گیا ہے، میڈیا سے کہیں جو لکھنا ہے لکھ لے اورجو کہنا ہے کہہ لے، حق اور سچ کو پبلک ریلیشنگ کی کسی ٹیم کی ضرورت نہیں۔ میں خود یہ سمجھتا ہوں کہ اب میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا آچکا ہے جہاں ایک لمحے میں کاونٹر فیکٹس اور آرگومنٹس آجاتے ہیں اور یوں جھوٹ بے نقاب ہوجاتا ہے۔
توپیارے قارئین! میری رائے میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے بہت سارے فیصلے غلط ہوسکتے ہیں اورآپ کی رائے میں عمرشیخ، چلبل پانڈے بھی ہوسکتے ہیں اورمنابھائی ایم بی بی ایس بھی۔ یہ بات ماننے والی ہے کہ ان کا کام کرنے کا اندازبڑے بڑے ڈی ایم جی اور پی ایس پی افسران جیسا نہیں ہے اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان کاسٹائل رزلٹ دے رہا ہے اورہمیں پولیس میں نتائج ہی چاہئیں۔ میرے مطابق خدشہ صرف ایک ہے کہ موجودہ حکومت اپوزیشن کے خلاف جس طرح پولیس کو استعمال کررہی ہے عین ممکن ہے کہ عمر شیخ کی تمام تر کامیابیاں ان سیاسی ایف آئی آروں اور گرفتاریوں میں چھپ جائیں جو اوپر، کے احکامات پر ریکارڈ تعداد میں ہور ہی ہیں۔ پھر کہوں گا، سیاست سے ہٹ کر، موجودہ صورتحال یوں ہے کہ وہ پولیس جو کسی سے نہیں ڈرتی تھی اب اپنے ہی سی سی پی او کی پولیسنگ آف دی پولیس سے ڈرنے لگی ہے۔ میری طرف سے یہی کہا جا سکتاہے کہ لگے رہو عمر شیخ، ہوسکتا ہے کہ عام آدمی کے لئے پولیس ڈپیارٹمنٹ میں عزت اور انصاف ملنے کا جو کرشمہ سات عشروں میں نہیں ہوسکا، وہ اب ہوجائے۔