بات ایک نوٹیفیکیشن سے شروع ہوئی تھی جو لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس تک پہنچ گئی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میرا جب لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منیر حسین بھٹی، سیکرٹری رائوتحسین اور دیگر کے ساتھ مکالمہ ہو رہا تھا توکہنے میں عار نہیں کہ مجھے سول عدالتوں کی لاہور کے وسط سے ماڈل ٹائون سمیت دیگر تحصیلوں میں منتقلی درست لگ رہی تھی۔
میرا خیال تھا کہ لاہور کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور سیکرٹریٹ کے ارد گرد کا علاقہ عدالتوں میں آنے والے ہزاروں سائلین کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام کاشکار رہتا ہے مگرلاہور بار عدالتوں کی منتقلی کو جہاں سینئر وکلا کے لئے بڑی مشکلات کا آغاز سمجھتی ہے وہاں خیال ہے کہ لاہور جیسے سیاسی طور پر متحرک شہر کی وکلا برادری کو تقسیم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس لاہور کی وہ وکلا برادری جس نے ایک آمر کے دانتوں سے اپنا چیف جسٹس واپس چھین لیا تھا مگر یہ ا لگ ہے کہ اب وہ اس پر فخر کی بجائے افسوس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے لاہور بار کے صدر، سیکرٹری اور دیگر عہدیداروں سے پوچھا، یہ مخالفت کیوں۔ چھ ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا جس میں تین ماہ مسلسل ہڑتال رہی اور اب بھی ہرجمعرات کو عدالتوں کابائیکاٹ ہو رہا ہے۔ اس سے ہزاروں غریب سائلین کو انصاف کی فراہمی میں مزید مشکل ہوتی ہے جن کی زندگی پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کا جواب تھا کہ وہ ہڑتال نہیں کرنا چاہتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ لاہوربار ہی نہیں بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنوں کے ساتھ ساتھ بار کونسلیں بھی اس منصوبے کی مخالفت کر چکی ہیں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ کراچی میں کورٹس کے کلسٹر کی حمایت کرتے ہیں تو یہ فارمولہ لاہور کے لئے کیوں نہیں ہے۔ وکلا اس سے بھی آگے بڑھ کے سوال کرتے ہیں کہ اگر عوام کوا ن کی دہلیز پر ہی انصاف دینا ہے تو پھر فیصل آباد میں ہائیکورٹ کا بنچ کیوں قائم نہیں کیا جاتا اور اسی طرح دور دراز کے تمام اضلاع میں۔ میں وکلا کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں کہ جو بھی فیصلہ ہونا چاہئے وہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے ہونا چاہئے کیونکہ اس پر عمل متعلقہ لوگوں نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی آئینی اور جمہوری معاشرے میں ا ٓپ فیصلے اوپر سے نہیں تھوپ سکتے۔
یہ معاملہ بہت خراب ہوچکا ہے اور مزید خراب ہونے کی توقع ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے چند روز پہلے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عزت کریں اور عزت کرائیں۔ لاہور بار کی طرف سے باقی تمام باتیں حذف کرتے ہوئے بطور صحافی یہی لکھ سکتا ہوں کہ یہی جواب واپس دیا گیا ہے۔
بات حقائق پر ہونی چاہئے اور میرا سوال تھا کہ سول عدالتوں کی ماڈل ٹاؤن منتقلی کی مخالفت کیوں؟ کورٹس ماڈل ٹاؤ۔ ن، رائے ونڈ یا شالیمار منتقل ہوں گی تو لوگوں کو گھر کے قریب انصاف ملے گا تواس کا جواب تھا کہ اسکے نتیجے میں وکالت دشوار ترین ہوکے رہ جائے گی۔ اب ایک سینئر وکیل ایوان عدل یا سیشن کورٹ سمیت چھ، چھ جگہوں پر ایک ہی دن پیش ہوسکتا ہے مگر عدالتوں کے دور دراز منتقل ہونے کے بعد اس کے لئے وہاں جانا ناممکن ہوجائے گا اور یوں انصاف میں تاخیر ہوگی۔
میرا کہنا تھا کہ کیا یہ اچھا ہے کہ سائل اتنی دور، اتنے رش میں آئے، وقت بھی لگائے اورپیسہ بھی تو اس کا جواب تھا کہ سینئر اور ماہر وکلا یہیں پر ہیں۔ سائلین کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے سینئر اورماہر وکیل کی خدمات حاصل کریں۔ اگر سائل نہیں ا ٓئے گا تو وکلا جائیں گے اور یہی سائل وکلا کے آنے جانے کا خرچ بھی دیں گے اور پہلے سے کہیں زیادہ فیس بھی۔ اس سے انصاف کہیں زیادہ مہنگا ہوجائے گا۔ ماڈل ٹاؤن کچہری کے حوالے سے بھی وکلا کے تحفظات سو فیصد جینوئن ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ وہاں کی سیکورٹی نامناسب ہے اور وہاں انفراسٹرکچر بھی موجود نہیں اور اس بارے سینئر ججز بھی اپنی رائے دے چکے ہیں۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کا مقدمہ ہے کہ تمام عدالتیں ایک ہی جگہ پر بنا دی جائیں۔ وہ کہتے ہیں اس سے سیکورٹی بھی ہوگی اور انصاف کی بہترین فراہمی بھی۔ وہ ایوان عدل سے لے کر ایل او ایس تک کئی جگہیں جوڈیشل کمپلیکس کے لئے تجویز کرتے ہیں۔
وکلااس پر بھی شدید برہم ہیں کہ ان کے احتجاج کی کال پر پولیس کی بکتر بند گاڑیاں اور پریژن وینز منگوائی گئیں اوریہ بھی کہ وکلا پر سیون اے ٹی اے یعنی دہشت گردی کے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں کہ بھلا ایک وکیل عدالت میں دہشت گردی کیسے کرسکتا ہے؟ واضح رہے کہ یہ معاملہ وکلا اور حکومت کے درمیان نہیں، پولیس اور وکلا کے درمیان تصادم پروزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ٹوئیٹ کیا تھا اور بتایا تھا کہ انہوں نے پولیس کو وکلا پر سختی کرنے سے روک دیا ہے۔ انہوں نے قانونی برادری کو اپنے معاملات باہمی افہام و تفہیم سے طے کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
یہ دلچسپ ہے کہ وکلا برادری کے خیال میں کچھ مقتدر حلقے انہیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ورنہ موجودہ چیف جسٹس، پہلے چیف جسٹس کی طرف سے یہ نوٹیفیکیشن جاری کرنے پر اس کے حق میں نہیں تھے مگر میرا سوال ہے کہ مقتدر حلقے، یہ کیوں چاہیں گے کہ جہاں وکیلوں کا ایک کلسٹر ہو وہاں شہر کے ہر کونے میں ان کے کلسٹرز بن جائیں؟
مجھے بطور صحافی اپنے عدالتی نظام سے ڈھیروں گلے شکوے ہیں۔ یہاں مقدمات کی بہت لمبی سماعت ہوتی ہے، اتنی لمبی کے دادا کے مقدمے پوتا لڑتا ہے اور اگر کوئی کچہری میں گھس جائے تو اس کی اینٹ اینٹ رشوت مانگتی ہے۔ مجھے ایک جذباتی پاکستانی کے طور پر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے مقابلے میں ہمارے دشمن ملک کی عدلیہ نے اپنا نام اور مقام بنایا ہے۔ وہاں بدترین حالات میں بھی عدالت لے جانے کو انصاف کے حصول کی کوشش اور ضمانت ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں عدالت لے جانے کا مطلب ذلیل اور دیوالیہ کرکے رکھ دینا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہماری باریں اور ہمارے بینچ اپنے سسٹم کی عالمی رینکنگ کو بہتر بنانے، اپنے بگڑے چہرے کو سنوارنے کے لئے کام کریں مگر وہ ایک دوسرے کے منہ پر مزید کھرنڈیں ڈال رہے ہیں، مزید سیاہی انڈیل رہے ہیں، ایک دوسرے کے لئے مزید مشکلات پید اکر رہے ہیں، یہ نہ مناسب ہے اور نہ ہی دانشمندانہ۔
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایشیا کی سب سے بڑی بار کا یہ بگڑا معاملہ صرف کچھ بڑوں کی معاملہ فہمی اور بزرگانہ شفقت سے سلجھ سکتا تھا۔ وقت آ گیا ہے کہ جہاں ہمیں عدلیہ میں شفاف کردار کے اہل ججوں کی تقرری کے حوالے سے معاملات کو درست کرنا ہے تاکہ ہم قابل اعتماد منصفی لے سکیں وہاں ہمیں اپنے اس اہم ترین ادارے کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے ایک روڈ میپ بھی بنانا ہے۔ عدالتوں کے لئے شہر میں دور دراز مقامات پرکئی کمپلیکس بنیں یا ایک ہی جگہ پر جوڈیشل کمپلیکس ہو کیا یہ تنازع اتنا مشکل ا وربڑا ہے کہ اسے مہینوں حل نہ کیا جاسکے؟