میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بُزدار کی طرف سے ان کے لاہور کے لئے نیو ڈویویلپمنٹ پیراڈائم کے تحت چھ ہزار کروڑروپوں کے میگاپراجیکٹس کاخیر مقدم کرتا ہوں، میں اس وقت سرکاری دعوت پر نوے شاہراہ قائداعظم پرہی موجودتھا جہاں وزیراعلیٰ کہہ رہے تھے کہ وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ لاہور کو نظراندازنہیں کرسکتے، وہ بتا رہے تھے کہ لاہورمیں ایل ڈی اے پینتیس ہزار سے بھی زائد ہاوسنگ یونٹ بنائے گا، پہلے مرحلے میں دوبیڈ کے چار ہزار اپارٹمنٹس بنیں گے جن کی قسط محض پندرہ ہزار روپوں کے لگ بھگ ہوگی۔ بحریہ ٹاون جانے والوں کے لئے شاہکام فلائی اوور، ریلوے اسٹیشن سے شیرانوالہ گیٹ تک فلائی اوور، وحدت روڈ پرکریم بلاک مارکیٹ کے سامنے فلائی اوور، فیروز پورروڈپرگلاب دیوی ہسپتال کے سامنے انڈرپاس، بارشی پانی کی نکاسی اور ذخیرہ کے لئے دس انڈر گراونڈ واٹر ٹینک، ٹھوکر نیاز بیگ پر بین الاقوامی معیار کا بس اڈہ بنیں گے، لاہور کے لئے پچاس الیکٹرک بسیں آئیں گی۔ سروسز ہسپتال کی توسیع کا منصوبہ مکمل ہونے کے علاوہ گنگا رام میں مدر اینڈ چائلڈہسپتال اور چلڈرن ہسپتال میں بچوں کے امراض پر تعلیم، تحقیق اور تدریس کے لئے یونیورسٹی بنے گی، ہزار بستروں کا ایک نیا ہسپتال بنے گا، پنجاب اسمبلی کی برس با برس سے زیر تعمیر عمارت کومکمل کیا جائے گا۔
میں نوے شاہراہ قائداعظم کے اس ہال میں موجود تھا جسے چوہدری پرویز الٰہی نے تعمیر کروایا تھا، یہ ہال آٹھ برس تک شہباز شریف اوران کے ساتھیوں کے زیر استعمال رہا اور اب وہاں ایک خوبصورت خاتون اینکر بطور سٹیج سیکرٹری، عثمان بزدارکی قیادت، متانت، ذہانت اورتدبرپر شاعری فرمارہی تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ چھ ہزار کروڑ تو بہت بڑی رقم ہوتے ہیں اورجب ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لئے پہلی میٹرو بس بن رہی تھی تو اسے جنگلا بس کہا جا رہا تھااور یہ کہ پنجاب بھر کے وسائل لوٹ کرتخت لاہور کودئیے جا رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہورہی تھی کہ اب لاہور کے میگا پراجیکٹس کے مخالفین کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ لاہور جیسے تاریخی شہر ملکوں کا اثاثہ، چہرہ ہوتے ہیں اور چہرے ہمیشہ اپنی رونق اور آب و تاب کے لئے پورے جسم سے زیادہ توجہ، محنت اور خرچ مانگتے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعلیٰ نے لاہور کے لئے چھ ہزار کروڑ کا اعلان اس وقت کیا ہے جب اپوزیشن، حکومت کے خاتمے کے لئے لاہور میں فیصلہ کن جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ تنقید کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ اڑھائی برس میں لاہورمیں صرف ایک انڈرپاس اورایک انڈر گراونڈ واٹر ٹینک بنانے والوں سے ان منصوبوں کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ میں نے سیکرٹری صحت کی تقریر کوغور سے سنا، وہ یونیورسٹی آ ف چلڈرن سائنسز اور ایک ہزار بستروں کا ہسپتال تین برسوں سے پہلے نہیں بنا سکتے، چاہے وہ پوری رفتار سے کام کریں کہ اس سے پہلے حکومت کی مدت پوری ہوجائے گی۔ میں لاہور کے تعمیر و ترقی کے منصوبوں کا دفاع کرتا ہوں چاہے یہ کسی سیاسی تحریک کے جواب میں ہی کیوں نہ ہوں، یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اب کوئی سیاسی جماعت لاہور میں میگا پراجیکٹس کی ضرورت کی مخالف نہیں رہی۔
میں نے وزیراعلیٰ کو لاہور کے لئے منصوبوں کا اعلان کرنے پرمبارکباد دی اور درخواست کی کہ وہ منصوبوں کی مدت اورمعیار کی طرف توجہ دیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ابھی کچھ ہی روز قبل انہوں نے ٹھوکرنیاز بیگ پولیس ناکے کے ساتھ باب لاہور کا افتتاح کیا ہے مگر اس کے ساتھ آگے ملتان روڈ، ہڈیارہ ڈرین تک، تین برسوں سے زیر تکمیل ہے۔ دس بارہ کلومیٹر کی تعمیر پر تین برس لگ جانا شرمناک ہے اور اگر ہم لاہور کے دوسری طرف چلے جائیں تو جہاں اسٹیشن شیرانوالہ فلائی اوور بنانے کا منصوبہ ہے وہاں ایک موریہ پل کا پراجیکٹ بھی تین برسوں سے ہی پھنسا ہوا ہے، اس کی لاگت باون کروڑ سے ایک ارب دس کروڑ ہوچکی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ جس لعل شہباز قلندر انڈر پاس کا افتتاح کر کے آئے اس کی تعمیر کی مدت تین ماہ تھی مگر وہ چھ ماہ آٹھ دن کے بعد کھولا جا سکا اور افتتاح کے پندرہ روز بعدبھی وہاں سائیڈ روڈز بن رہی تھیں۔ وزیراعلیٰ نے اتفاق کیا اوربتایا کہ وہ چیف منسٹر ہاوس میں ایک سیل بنا رہے ہیں جو ان تمام ترقیاتی منصوبوں کی مقررہ مدت میں تکمیل اور معیار پر نظر رکھے گا، اسے یقینی بنائے گا۔ وزیراعلیٰ نے تقریب سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ وہ اس حوالے سے ملاقات بھی کریں گے، میرا جواب تھا کہ لاہور کو میں اپنے ہاتھ کی لکیروں سے زیادہ بہتر جانتا ہوں، میں منتظر رہوں گا۔ میں وزیراعلیٰ کو بتانا بھول گیا کہ جب آپ ملتان روڈ سے لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کا افتتاح کیا گیا باب لاہور، سڑک کی نسبت سے ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے، اس کا ایک گیٹ بڑا اور دوسراچھوٹا ہے جو اس کے ڈیزائن کا نان پروفیشنل بلکہ مکروہ نقص ہے۔ اسی طرح ایل ڈی اے نے لاہور میں میگا پراجیکٹس کی ڈیزائننگ میں بلنڈر کئے ہیں جیسے والٹن روڈ پر آپ ڈیفنس یا پیکجز مال سے نکلیں تو واپسی کے لئے کوئی یوٹرن دستیاب نہیں، آپ کو کئی کلومیٹر دور فیروز پور روڈ پر جنرل ہسپتال یا دوسری طرف پیکو روڈ تک آنا پڑتا ہے تاکہ آپ واپس کینٹ یا ڈیفنس کی طرف آسکیں اور یہی صورت حال کینٹ سے جیل روڈ پر آنے والوں کے لئے ہے کہ فوارہ چوک کا یوٹرن مین بلیوارڈ پرجا کے ملتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ لاہور سمیت پنجاب بھر میں صرف ایڈمنسٹریشن بہتر کر کے سڑکوں پر پیدا ہونے والے مسائل آدھے سے بھی کم کئے جا سکتے ہیں۔ تجویز یہ ہے کہ کاروبار صرف دکان کے اندر ہو، دوسرے اگر دکان کے باہر کوئی ریڑھی لگانے کی اجازت دی گئی ہے تو وہ بہرصورت واپڈا وغیرہ کے کھمبوں سے پیچھے ہو۔ تیسرے کسی بھی سڑک پر ییلو لائن سے آگے پارکنگ کی ہرگزاجازت نہ دی جائے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے نہ صرف جرمانہ ہو بلکہ غیر قانونی پارک کی گئی گاڑی کے کسی قسم کے نقصان یا چوری کا مقدمہ بھی درج نہ کیا جائے۔
ایس ایم عمران، وہ شخصیت ہیں جوایل ڈی اے کے زیر اہتمام ہزاروں گھروں کی تعمیر کے منصوبے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ اب وہ ریورراوی فرنٹ ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے بھی نگران اور ترجمان ہیں۔ میں نے انہیں اس مزدورکارونا سنایا جو وہ میرے سامنے رویا تھاکہ اس نے دومرلے زمین آٹھ لاکھ میں خریدی اور پانچ لاکھ میں گھر بنایا، مکمل چودہ لاکھ خرچ ہوئے اور اب اس گھر کی مالیت سترہ لاکھ روپے ہوچکی ہے جس میں اس کی والدین اور بچوں سمیت پوری فیملی رہتی ہے مگر حکومت اس سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے مرلہ میں وہ جگہ لینا چاہتی ہے۔ وہ ساری عمر بھی محنت کرے تو چودہ لاکھ کا یہ نقصان پورانہیں کر سکتا۔ ایس ایم عمران نے کہا کہ یہ کس نوٹیفیکیشن میں لکھا ہے کہ اسے صرف تین لاکھ بیس ہزار مل رہے ہیں۔ میرا کہنا تھا کہ اس کاجواب آپ کے وزیر ہاوسنگ میاں محمود الرشید کے بھائی میاں مصطفی رشید ہی دے سکتے ہیں جو اس منصوبے کے خلاف ایک بڑی مہم کی قیادت کررہے ہیں۔ ایس ایم عمران نے کہا کہ وہ چند ہفتوں میں لوکیشن کے دورے شروع کر یں گے اور عوامی اعتراضات کے براہ راست جواب دیں گے۔ کامران لاشاری اندرون شہر کے لئے اربوں روپوں کا ایک اور منصوبہ پیش کر رہے تھے اورمیرا خیال ہے کہ ہر شے میں اربوں کھربوں گھسانے کے بجائے اعظم کلاتھ مارکیٹ، پاکستان کلاتھ مارکیٹ، شاہ عالم، رنگ محل سمیت تمام ہول سیل بازاروں میں تاجروں کی مشاورت سے تجاوزات کا مسئلہ حل کرکے اندرون شہر کو قابل رسائی اور خوبصورت بنانے پر زیادہ دھیان دینا چاہئے۔