چوہدری عتیق الرحمان مسلم لیگ نون کے کارکن تھا۔ اونچا لمبا، گورا چٹا اوربااخلاق۔ میں اسے تب سے میاں نواز شریف کے ارد گرد دیکھ رہا ہوں جب سے پولیٹیکل رپورٹنگ شروع کی یعنی عشرے گزر گئے۔ میاں نواز شریف نے کرکٹ کھیلنی ہے، انہوں نے کسی جگہ کا دورہ کرنا ہے یا کوئی دوسری سرگرمی، عتیق وہاں اس طرح موجود ہوتا تھا جیسے ڈیوٹی پر ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے شروع شروع میں عتیق کوئی کارکن نہیں بلکہ نواز شریف کے سٹاف کابندہ لگتا تھا کیونکہ کارکن اکثرچھٹی بھی کرلیا کرتے تھے مگر عتیق نہیں۔
اس کی دوسری عادت یہ تھی کہ میاں نواز شریف کے بہت قریب رہنا جیسے کوئی باڈی گارڈ ہو۔ ان کے لئے ہٹو بچو کی ویسی ہی آوازیں لگانا جو ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بہت پسند ہوتی ہیں۔ نوے کی دہائی بیتی تو اگلی صدی کا آغاز مشرف کے مارشل لا سے ہوا۔ عتیق، بیگم کلثوم نواز کے ساتھ بھی اسی طرح اپنے شوق کے ہاتھوں ڈیوٹی دیتا تھا، ہر پیشی پر، ہر مظاہرے پر۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا نواز لیگ دوبارہ پہلے پنجاب اور پھر وفاق میں اقتدار میں آ گئی۔
مسلم لیگ نون کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ جب اقتدار میں آتی ہے تو اس پر میرٹ کاٹھی ڈال کے سوار ہوجاتا ہے۔ مجال ہے کہ اس کے کارکن کہیں کسی جگہ بدتمیزی کر جائیں۔ کسی افسر کی شان میں کوئی گستاخی کر دے۔ نواز لیگ اس کا بہت سخت نوٹس لیتی ہے کہ یہ پیپلزپارٹی کا کلچر ہے۔ اسی طرح نواز لیگ یہ بھی سمجھتی ہے کہ ایوان وزیراعظم ہو، ایوان وزیراعلیٰ یا کسی وزیر کا دفتر وہ سرکاری ادارے ہیں اور وہاں کارکنوں کے آنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیگی کارکنوں کی ضرورت اسی وقت ہوتی ہے جب ریلیاں شلیاں نکالنی ہوں یا کوئی مظاہرے شظاہرے کرنے ہوں جیسے میاں نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل سے آدھی رات کے وقت سروسز ہسپتال منتقل کروانا تھا تو حسین نواز رات کے اڑھائی بجے بھی کارکنوں کے نہ پہنچنے پر سخت برہم تھے۔
مجھے مسلم لیگ نون کے ایک نائب صدر نے بتایا کہ وہ جاتی امرا اور ماڈل ٹاون میں داخل نہیں ہوسکتا اور اگر داخل ہوجائے تو اسے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا (نوے کی دہائی میں) میاں نواز شریف کارکنوں کے ساتھ کھلی کچہریاں لگایا کرتے تھے اور کارکنوں کی ان تک ہفتے میں ایک دن رسائی ہو جاتی تھی مگر پھر یہ روایت بھی ختم ہوگئی۔
مسلم لیگ نون میں ایک اور کلچر بھی بہت طاقتور ہے کہ یہاں لیڈر کچھ لوگوں کو اپنی ناک کا بال بنا لیتا ہے اور پھر اس کے بعد باقی لوگوں کا وہاں داخلہ بند ہوجاتا ہے۔ ایک طویل عرصے تک یہ شہرت تھی کہ حمزہ شہباز شریف لیگی کارکنوں کے دل کے بہت قریب ہیں۔ وہ انکے مسائل جانتے ہیں مگر ان کی چھوٹی سی وزارت اعلیٰ میں یہ تصور بھی ہوا ہوگیا۔ انہوں نے تو اپنی کابینہ ہی اس وقت بنائی جب وزارت اعلی سے چند گھنٹوں بعد چھٹی کنفرم ہوگئی تھی۔ مجال ہے کہ انہوں نے کسی کو اس دوران عزت دی ہو، کوئی عہدہ دیا ہو۔
مسلم لیگ نون جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو وہ کارکنوں کو اپنی ترجیح سے نکال دیتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ وہ سب کو لیپ ٹاپ دیتی ہے، وہ سب کے لئے میٹرو اور اورنج لائنیں بناتی ہے، وہ سب کو آسان قرضے دیتی ہے مگر وہ سب جواب میں نون لیگ کوووٹ نہیں دیتے بلکہ ڈٹ کے کہتے ہیں کہ لیپ ٹاپ شہباز شریف سے لیں گے اورووٹ عمران خان کو دیں گے کہ شہباز شریف کون سا پلے سے دے رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب جدہ سے واپسی کے بعد شہباز شریف وزیراعلیٰ بنے تو مشرف دور میں ماریں کھانے والے کہیں بھی اکاموڈیٹ نہ ہوئے۔
میں نے سردار ذوالفقار کھوسہ جو کہ اس وقت پارٹی کے صوبائی صدر تھے، سے درخواست کی کہ وہ کارکنوں کے ساتھ میرے پروگرام میں بیٹھیں۔ ہم نے پنجاب اسمبلی کے باہر ایک چوپال سجائی او ران کی آواز اٹھائی جس کے بعد بہت ساروں کو ذمے داریاں ملیں۔ میں بات چوہدری عتیق الرحمان کی کر رہا تھا مگر یہاں تو نوشاد حمید جیسا کارکن جھوٹے سچے الزامات کے بعد اپنی بہت ہی اچھی اورنیک قیادت کے ہاتھوں مسترد ہو کے دھکے کھاتا پھر رہا ہے اور اس کی بیوی افشاں لطیف بہت کچھ کرنے کے باوجود مریم اکرام کے درجے پر بھی نہیں پہنچ سکی۔
نواز شریف کے متوالے کارکن چوہدری عتیق الرحمان کے جانے میں لاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر کے سوا کوئی دوسرا رکن قومی و صوبائی اسمبلی موجود نہیں تھا۔ مجھے پی ٹی آئی اس لئے اچھی لگتی ہے کہ کم از کم تصویریں بنوانے کے لیے جنازے تو اٹھا لیتی ہے مگر نون لیگ والوں کے پاس کارکنوں کے جنازوں کاوقت بھی نہیں، بہت مصروف ہیں۔ میں نے جیسے پہلے بتایا کہ عتیق نے میاں نواز شریف کی محبت میں اپنی دکان تک تباہ کر لی۔ معاشی حالت بہت خراب ہوگئی تو پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئی۔
مسلم لیگ نون کے ایک عہدیدار نے مجھے فون کیا اور مجھ سے پوچھا، نواز لیگ کے لاہور میں جان مال قربان کرنے والے کتنے کارکن ہوں گے، دوتین سونہیں تو چارپانچ سو، ان میں مالی امداد کے مستحق کتنے ہوں گے چالیس، پچاس نہیں تو سو، سواسو۔ مگر مسلم لیگ نون نہ عہدے دیتی ہے اور نہ ہی کسی کی کارکن کی مدد کرتی ہے۔ کارکن اسی لئے پارٹیوں کے لئے کام کرتے ہیں کہ جب ان کے بڑوں کے پاس بڑے بڑے عہدے ہوں گے تو ان چھوٹوں کے پاس بھی کچھ چھوٹے چھوٹے عہدے ہوں گے مگر پھر وہ میرٹ پر پورے نہیں اترتے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ کارکنوں کے حوالے سے تین بڑی جماعتوں میں سب سے بہتر پیپلزپارٹی ہے، ا سکے بعد تحریک انصاف ہے جبکہ نواز لیگ سب سے پیچھے اور سب سے نیچے ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تیس، چالیس برس کے بعد اب قیادت کی عادات بدل جائیں گی تویہ اس کی خوش فہمی ہے۔ بہرحال اس پالیسی کا نتیجہ سامنے آنا شروع ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ نون ایک تو بیانیے کے محاذ پر کمزور ترین ہے تو دوسرے اس کے کارکنوں نے بھی قیادت کے ساتھ وہی سلوک روا رکھنا شروع کر دیا ہے جو قیادت ان کے ساتھ رکھتی ہے۔ لاہور کے اہم ترین حلقے ہی نہیں بلکہ اپنے دوسرے مضبوط ترین گڑھ فیصل آباد سے بھی کلین سویپ ہوگئی ہے۔
مجھے کسی نے بتایا ہے کہ رمضان نگہبان پیکج بھی مکمل میرٹ پر تقسیم کیا گیا ہے یعنی نہ کارکنوں کی کوئی سفارش اور نہ ہی وہ تقسیم میں بااختیار بلکہ پرانے ڈیٹا بیس کی بنیاد پر بہت ساری جگہوں پر پی ٹی آئی والوں نے اسے تقسیم کیا۔ عتیق الرحمان کے مرنے پر فیصل آباد کا دورہ بہت ضروری تھا، چلیں، ہوگیا۔ باقی کارکن بھی تین چار سال میں مر جائیں گے یا مایوس ہو کے ادھر ادھر نکل جائیں گے اور پھر اس کے بعد مسلم لیگ نون اگلا الیکشن سو فیصد اپنی کارکردگی پر لڑ کے دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گی۔