تحریک انصاف کی حکومت میں صریحاً ناانصافی کی بنیاد پرطویل ترین سیاسی اسیری کاٹنے والے خواجہ رفیق شہید کے دونوں صاحبزادے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق سپریم کورٹ آف پاکستان سے اس طرح ضمانت کے بعد رہا ہو رہے ہیں کہ احتساب کا عمل ایک مرتبہ پھر ننگا ہو گیا ہے، اس نے ایک مرتبہ اپنی عزت اور ساکھ گنوا لی ہے، ضمانت دیتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ نیب بدنیت ہے یا نااہل، میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ ان دونوں سوالوں کا جواب اثبات میں دے رہی ہے، مو رخ نواز شریف سے احد چیمہ تک ایک ایک الزام اور گرفتاری کا احوال لکھ رہا ہے، خواجہ سعد رفیق پچھلے برس سے بھی پہلے گزرنے والے دسمبر میں گرفتار کئے گئے تھے اورریکارڈ کی بات ہے کہ اس طویل ترین مدت میں ان کے خلاف الزامات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکا۔
کیا خواجہ سعد رفیق اس لئے گرفتار ہوئے کہ انہوں نے کوئی کرپشن کی تھی تو اب اس سوال پر بھی قہقہہ بنتا ہے۔ قومی ادارے پاکستان ریلوے کا مسیحا، اسے دوبارہ زندگی دینے والا، کیوں گرفتار ہوا، یاد آیا، جب خواجہ سعد رفیق نے گوجرانوالہ کے ورکرز کنونشن میں یہ کہا تھا کہ ہم لوہے کے چنے ہیں، ہمیں چبانے کی کوشش کرو گے تو دانت ٹوٹ جائیں گے، تو اس وقت بہت سارے ماتھوں پر بل پڑ گئے تھے حالانکہ خواجہ سعد رفیق نے ٹی وی چینلوں کے ٹکرز کو ذو معنی دیکھتے ہوئے تھوڑے ہی وقت میں وضاحت جاری کر دی تھی کہ یہ ان کا خطاب ان کے سیاسی مخالفین کے لئے تھا جو سازشوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانا چاہتے تھے۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بلا اس کوجو خود کو لوہے کا چنا کہتا ہے پھر اختیار کی بڑی کرسی پر بیٹھے ہوئے منصف نے اس عظیم سیاسی کارکن کی مقدور بھر توہین کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اس عظیم ترین آئینی عہدے سے بھائی کے ذریعے بھائی کو خوفناک انجام کی دھمکی بھی پہنچائی۔ اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ جناب چیف جسٹس کے توہین آمیز لہجے کے جواب میں خواجہ سعد رفیق جیساجذباتی اور بدتمیز سمجھا جانے والا شخص جناب، جناب کی گردان کرتا تھا، کہتا تھا کہ آپ ہمارے لئے قابل احترام چیف جسٹس ہیں، ہم نے ریلوے میں محنت کی ہے اور ہم آپ کو بزرگ سمجھتے ہوئے آپ سے شاباش کے حقدار ہیں۔ نجی محفلوں میں بھی خواجہ سعد رفیق کا یہی موقف تھا کہ میں ایک جمہوری سیاسی کارکن ہوں، آئین کی بالادستی کا حامی ہوں، میں اگر اپنے چیف جسٹس کی عزت نہیں کروں گا توپھر کون کرے گا مگر میں تجزیہ کرسکتا ہوں کہ اس آئین، قانون اور جمہوریت پسندی کو کمزوری کے طور پر لیا گیا، یہ سمجھا گیاکہ یہ لوہے کا چنا نہیں، موم کی ناک ہے، اسے دبایا، موڑا اور توڑا جا سکتا ہے۔ ا ن چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ وہ اپنی عزت اور احترام کروانا جانتے ہیں اور پھر انہیں کسی نے عدالت میں ہی سمجھایاتھا کہ طاقت سے آپ دلوں میں صرف خوف پیدا کر سکتے ہیں، عزت اور محبت نہیں۔
بنیادی طور پر یہ ایک جمہوریت پسند سیاسی کارکن ناصر بٹ کی سوشل میڈیا پر تحریر ہے جسے میں ایک تعلق کی بنیاد پر پرنٹ میڈیا کے لئے ترامیم کا از خود حاصل کیا گیااختیار استعمال کر تے ہوئے پیش کر رہا ہوں، جی ہاں، خواجہ سعد رفیق نے لوہے کا چنا محاورتاً استعمال کیا تھا جس کا مقصد اپنے جمہوری نظریات کے ساتھ کمٹ منٹ بتانا تھا مگر بہت ساروں کو اس بات سمجھ نہ آئی، اسے جیل میں ڈال دیا گیا اور میڈیائی رکھیلوں سے بھی گھنٹوں سعد رفیق کی کردار کشی کروائی گئی۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ نواز شریف سے لے کر شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ، احسن اقبال، مریم نواز، حمزہ شہباز، شہباز شریف، سعد رفیق، سلمان رفیق، کامران مائیکل، حنیف عباسی، راجہ قمرالسلام سمیت کتنے ہی نام ذہن میں آتے ہیں جن کو چبانے کی کوشش کی گئی، کتنے چبائے گئے؟
اوپر پوچھاگیا سوال درست ہے کہ جناب عمران خان جب اقتدار میں آئے تو وہ طاقت کے تمام ایوانوں کے ساتھ ایک صفحے پر تھے، انہوں نے اس طاقت کااستعمال کرتے ہوئے یہ تک خیال نہیں کیا کہ اعلیٰ ظرف سیاستدان اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی میدان میں ہی مقابلہ کرتے ہیں، چلیں، یہ وقت بھی اسی طرح گزر گیا جس طرح پرویز مشرف کا وقت گزر گیا تھا بلکہ اس سے بہت پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو کا وقت گزر گیا تھا جس میں خواجہ محمد رفیق کو شہید کیا گیا۔ ایک بیوہ عورت کے پاس دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے تو کیا اس خود دار عورت کو جھکا لیا گیا۔ پھر پرویز مشرف کا وقت آیا جب سعدرفیق حسب معمول اور حسب دستور اپنے سیاسی نظریات کی بنیاد پر جیل میں تھا اور ان کی والدہ ہسپتال میں، بسترمرگ پر تھیں۔ تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کے لئے بتاد وں خواجہ سعد رفیق نے ضیاءالحق کی جیل بھی کاٹی ہے اور یوں ہر دور کے بعد جناب عمران خان کا دور بھی آ گیا جو تاریخ کی کم ترین مدت میں اپنی عدم مقبولیت کی انتہا پر ہے، جی ہاں، جب جیل کا پھاٹک کھل رہا ہے تو اس سے بڑا سوال اور کیا ہو سکتا ہے کہ جھکا لیا کیا؟ مٹا دیا کیا؟ کوئی آپکے قدموں میں گرا؟ کسی نے آپ سے رحم کی بھیک مانگی؟ سرکار! سیاسی کارکنوں کے بس میں یہی ہوتا ہے کہ وہ جبر برداشت کریں، ناانصافی کے خلاف لڑیں، اپنا عزم نہ ٹوٹنے دیں، اپنی آواز کی گھن گرج کو برقرار رکھیں، کیا ان سب نے یہ نہیں کیا؟ کیا طاقت انکے عزم میں فرق ڈال سکی؟ وقت کی کسوٹی پر یہ سونا کھوٹا نکل سکا؟ رہائی کے بعد رہائش گاہ پر ہونے والی پریس کانفرنس بتار ہی ہے نہیں، بالکل نہیں بلکہ وہ سلمان رفیق جس کے بارے خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ سیاست کے بجائے صرف کاروبار پر ہی توجہ دیں گے، وہ بھی بضد ہیں کہ اب سیاست ہو گی، ملک و قوم کی خاطر ڈٹ کر ہو گی۔
اب آئیے دانت ٹوٹنے کی طرف، ظاہر ہے کہ نہتے سیاسی کارکنوں نے مقابلہ اپنی برداشت سے ہی کرنا تھاان کے پاس کوئی ٹینک، توپیں، میزائل تو ہوتے نہیں جن سے جوابی حملہ کریں تو پھرکسی کے دانت کیسے ٹوٹ سکتے تھے۔ سعد رفیق نے جو کہ میری سیاسی زندگی کا ایک ذہین ترین سیاسی کارکن ہے، جو بات کی تھی وہ آج پورے ملک کے سامنے ہے۔ آپ نے ان سب کو مٹانے کے لئے جو حربے استعمال کئے ان کے نتائج سامنے آچکے، ملک میں سیاسی افراتفری ہے، سٹاک ایکسچینج برباد، شرح نمو کی ریکارڈ پستی، افراط زر بلند ترین سطح پر، لارج سکیل مینو فیکچرنگ منفی میں چلی گئی، کاروباری سرگرمیاں مفقود، زراعت کے شعبے میں ریکارڈ تنزلی، ترقیاتی کام ٹھپ، کشمیر ہاتھ سے گیا، خارجہ پالیسی تباہ، ریکارڈ قرضے لینے کے باوجود کوئی نیا پراجیکٹ نہیں، شرح سود ایسی کہ کوئی قرض لینے کو تیار نہیں، قرض اس قدر لیا گیا کہ اسکی شرح جی ڈی پی کے پچانوے فیصد کے برابرہو گیا اور مجھ سے عام پاکستانی کو اس وقت فکربھارت جیسے دشمن کے مقابلے میں اپنی دفاعی ضروریات کی ہے۔۔۔ اور دانت ٹوٹنا کیا ہوتا ہے؟
سعد رفیق کی گواہی لینی ہے تو اس کے حلقے کے عوام سے لیجئے۔ سعد رفیق کی گواہی لینی ہے توپاکستان ریلوے کے ملازمین سے لیجئے، سعد رفیق کی گواہی لینی ہے تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے لیجئے۔ یہ تمام عدالتیں بتاتی ہیں کہ سعد رفیق لوہے کا وہ چنا تھا جو واقعی نہیں چبایا جا سکا مگر دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ملک ایک اندھی سرنگ میں داخل ہو چکا ہے۔ آپ نے وزیر اعظم کے منصب کو اس قدر رسوا کر دیا ہے کہ کوئی عزت دار اس منصب کو قبول کرنے سے پہلے سو دفعہ یہ سوچے گا کہ کون اس اپنی زندگی بھر کی وفاشعار شریک حیات کے بسترمرگ پر ساتھ کھڑے ہونے کے حق سے بھی محروم ہو، کون اپنی بیٹیوں کو جیلوں میں سڑتا دیکھے، کون میڈیا ٹرولز کی فورسز سے گالیاں کھائے، کون ناکردہ گناہوں پر موت کی کال کوٹھڑیوں میں سالہا سال پڑا رہے۔ آپ تو کھلاڑی تھے مگر آپ نے کہیں بھی سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کیا آپ کو مبارک دی جائے کہ آپ نے لوہے کے چنے کو چبانے کی کوشش کرتے کرتے وطن عزیز کو چبا ڈالا، کیا اس نام نہاد سیاسی اور جمہوری دور کو مبارک دی جائے کہ اس نے آج سیاست کا نام گالی بنا ڈالا۔ سعد رفیق اور اسکے باقی رفیق تو آپ سے ٹوٹ نہیں سکے مگر اسکی سزا آپ نے اس ملک کو ضرور دے دی۔