کوئٹہ سے تفتان جانے والی بس میں منڈی بہاوالدین، گوجرانوالہ اور وزیرا ٓباد سے تعلق رکھنے والے پانچ پنجابی مسافروں کو اسلحے کی نوک پر اتار کے پہاڑ کی طرف لے جایا گیا اور پھر ان سب کی لاشیں ملیں۔ بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر پنجابیوں کو گولیاں مارنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس صوبے میں نسل در نسل بسنے والے وہ بلوچستانی بھی ہر وقت خوف اور ہراسگی کے عالم میں رہتے ہیں جن کے باپ، دادا کا تعلق پنجاب سے تھا اور انہیں سیٹلرز کہا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستا ن ایک آسیب کے سائے میں ہے جو اسے بلوچ ازم کے نام پر یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ یہ بلوچی لاہور سمیت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں پنجابیوں کے ٹیکس پر تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان کے بہت سارے پڑھے لکھے بیوروکریسی میں شامل ہو کر پنجاب پر حکمرانی کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ پختونوں ہی نہیں بلکہ سندھیوں اور بلوچیوں کے لئے اپنے دل اوربازو ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں مگر انہیں جواب میں کیا ملتا ہے، بیٹوں کی لاشیں؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب گونگابھی ہے اور یتیم بھی۔ وہ تمام سیاستدان اوربیوروکریٹ جو پنجاب کے ڈومیسائل پر کامیاب ہوتے ہیں وہ پنجابی کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ وہ نواز شریف ہوں یا چوہدری پرویز الٰہی، میں نے انہیں پنجاب کا دفاع کرتے کبھی نہیں دیکھا مگر دوسری طرف عمران خان (نیازی ہونے کے باوجود خیبرپختونخوا کو اپنی ہوم گراؤنڈ بنانے کے بعد) سے بلاول بھٹو زرداری تک کو خیبرپختونخوا اورسندھ کے لئے لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار پایا ہے۔
بلوچستان کے لیڈروں کی تو بات ہی الگ ہے۔ جب انہوں نے اقتدار لینا ہوتا ہے تو یہ آئین پرست بن جاتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر نکلتے ہیں تو قوم پرست۔ آئین پرست بنتے ہیں تو بھاری رائلٹیاں لیتے ہیں اور قوم پرست بنتے ہیں تو بھارت سے فنڈز۔ ان کی دونوں طرف موجیں ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے لوٹے بلوچی سیاستدان ہیں جن کا کوئی پیندا نہیں۔ وہ ایک منٹ میں لڑھک کے ایک طرف ہوجاتے ہیں اور دوسرے ہی منٹ میں دوسری طرف۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف پنجابی نہیں ہیں بلکہ کشمیری ہیں۔ میرے پاس موجود اطلاعات کے مطابق کشمیری بیگم کلثوم نواز تھیں اور ان کی شادی میاں محمد شریف کے بڑے بیٹے سے ہوئی تھی جو امرتسر کے گائوں جاتی امرا سے ہجرت کرکے لاہور میں آ بسے تھے۔ پھر انہوں نے لاہور رائے ونڈ روڈ پر اڈا پلاٹ کے قریب زمینیں خرید کرکے اپنے آبائی علاقے جاتی امرا کے نام پر علاقہ آباد کر لیا تھا۔
اس وقت صوبائی وزیر، کشمیری سیب جیسے لال سرخ، بلال یسین کا تعلق بیگم کلثوم نواز کی فیملی سے ہے۔ ویسے اگر نواز شریف اور شہباز شریف پنجابی نہ بھی ہوں تو ان پر پنجاب کا بڑا قرض ہے۔ اسی پنجاب نے انہیں بار بار وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ تک پہنچایا ہے۔ کیا حرج ہے اگر وہ پنجاب کی بات کر لیں۔ حکمران باپ کی طرح ہوتا ہے اور عوام اولاد کی طرح۔ بھلا اولاد کے بہیمانہ قتل پر والدین یوں سکون سے بیٹھتے ہیں جیسے کوئی دور پرے مر، مرا گیا ہو۔
کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جائے اور خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر وہاں کوئی ردعمل دیا گیا تو مشرقی پاکستان کا حال یاد رکھو۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہرگز، ہرگز بلوچستان کی دہشت گردی پر منطبق نہیں ہوتی بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ اگر کسی مثال کا انطباق ہوتا ہے وہ سب سے پہلے خالصتان کی تحریک کی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، ہندوستان نے گولڈن ٹمپل آپریشن کرکے اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ جیسے لیڈروں کو مار کے خالصتان تحریک کا زور توڑ دیا ہے اور شائد ہم بھی اپنے گریبا ن میں جھانک کے دیکھیں، نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ بنا لیا ہے اور ابھی کل اس نے وہاں انتخابات کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یہاں چین سمیت کئی دوسرے علاقوں کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ ریاستیں طاقت کا استعمال کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتیں، ہمیشہ طاقت کا استعمال ہی کرتی ہیں۔ ہمارے اپنے پاس امن کے لئے کراچی کی نسلی بدامنی کے تدارک کے لئے آپریشن کے علاوہ سرحدی علاقوں میں کئے جانے والے سریع الاثرآپریشنضرب عضب، کی مثالیں بھی موجود ہے۔ ہاں، یاد آیا، مشرقی پاکستان میں سب کچھ اس لئے ہوا کہ ہمارا اور ان کا جغرافیہ ایک نہیں تھا، ہمارے زمینی رابطوں کے درمیان ہندوستان موجود تھا۔
یہ بھی کہ بنگالی اکثریت میں تھے جبکہ باقی پاکستان اقلیت میں۔ یہ بھی کہ وہاں بھارت نے اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں اور مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ریاست مجیب الرحمان کو رام کر لیتی مگرتاریخ بتاتی ہے کہ ہماری عدالتوں نے مجیب الرحمان کی سہولت کاری کی تھی، طاقت دی تھی۔ اب بھی قومی سلامتی کے ذمے دار اداروں کے پاس شکایات کی طویل فہرست ہے کہ ان پر حملہ آوروں کی سہولت کاری عدالتوں سے ہور ہی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عا رنہیں کہ بلوچستان پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بننے جا رہا ہے۔ ریکوڈک اور سی پیک اپنی جگہ ہیں اور گوادر کو ریل نیٹ ورک کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ ایسے میں امریکا، بھارت اور اسرائیل سمیت بہت سارے ایسے ہیں جو پاکستان اور بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے۔ بی ایل اے جیسی تنظیموں اور سرمچاروں جیسے نعرے بازوں کے پیچھے ہمارے یہی دشمن ہیں۔ بہت دیر گمراہ کیا جاتا رہا کہ مسنگ پرسنزمظلوم ہوتے ہیں مگر اب اندھوں پر بھی واضح ہوچکا کہ یہ ظالم، دہشت گرد، قاتل اور غدار ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ماہ رنگ بلوچ جسے مسنگ پرسن کہہ رہی تھی اس نے گوادر کمپلیکس پر خود کش حملہ کیا۔ بتایا گیا کہ اسے اداروں نے اٹھایا تھا مگر چھوڑ دیا تھا۔ ثابت ہوگیا کہ اس کا اٹھایا جانا درست اور چھوڑا جانا غلط تھا۔
میرا اپنی حکومت اور ریاست سے پرزُور مطالبہ ہے کہ وہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرے۔ صوبے کو فوج کے حوالے کیا جائے اور وہاں اس وقت تک آپریشن کیا جائے جب تک چن چن کے ایک ایک دہشت گرد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ میں نہیں چاہتا کہ ماہ رنگ بلوچ جب دوبارہ اپنا سپانسرڈ مارچ لے کر پنجاب سے گزرے تو پنجابی اس سے اپنے بیٹوں کے خون کا بدلہ لینے کے لئے پہنچ جائیں۔
مجھے افسوس ہے کہ ایک نیشنل نیوز چینل کے پرائم ٹائم شو میں انہی دہشت گردوں کی عین اس وقت سہولت کاری ہو رہی تھی جب پنجاب کے بیٹوں کوبس سے اتار کے گولیاں ماری جا رہی تھیں، پھر بعد میں کہہ دیا گیا کہ اس قتل کی ذمے دار ایجنسیاں ہیں جوحقائق کو چھپانے اور دہشت گردوں کو بچانے کی بھونڈی کوشش تھی۔ ماہ رنگ بلوچ جواب دو، خون کا حساب دو۔ پنجاب سیاسی طور پریتیم نہ ہوتا تو آج اس ٹولے کو عبرت کا نشان بنا دیاگیا ہوتا مگر پنجابی حکمران رسمیپریس ریلیزوں میں گونگلوئوں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں۔