ہوسکتا ہے کہ بہت سارے بہت ساری واہ واہ کر رہے ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ہی کارکن ایم پی اے ملک وحید کی پولیس کے ٹرینی سب انسپکٹر کے ساتھ تو تکار کی ایک ویڈیو سامنے آنے کے بعداس پولیس والے کو بلا کے ا س سے معافی مانگی۔ ملک وحید پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس کی گاڑی کے شیشے کالے تھے اور اس ٹرینی سب انسپکٹر نے اسے روک کر روایتی انداز میں ہی ٹریٹ کیا تھا جس پر ملک وحید کے اندر کا سیاسی کارکن بیدا ر ہوگیا اوراس نے خود ویڈیوز بنواتے ہوئے کہا کہ وہ بدتہذیبی اور بدتمیزی پر اس سے معافی مانگے۔
جو ویڈیووائرل ہوئی اس میں ملک وحید خو د کہہ رہا ہے کہ پولیس کے پاس غلط انفارمیشن تھی۔ اس ویڈیو میں ایم پی اے کا رویہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ وہ غلطی پر نہیں ہے، غلطی پولیس اہلکار کی ہے جس کے دماغ میں ٹریننگ میں ہی خناس ڈال دیا گیا ہے کہ وہ کسی کی بھی عزت پامال کر سکتا ہے بلکہ مجھے بعد میں ملی ہوئی انفارمیشن کے مطابق یہ خناس اس سیاسی جماعت سے وابستگی کا تھا جس کے کارکن تو کارکن، لیڈروں کے ہاتھوں کسی کی عزت برقرار نہیں ہے۔ نواز لیگ کے ارکان اور رہنماوں کو دیکھ کے ان کے منہ سے غلاظت کا طوفان نکلتا ہے، وہ اپنی نفرت چھپا ہی نہیں سکتے، جی ہاں، اس کی پروفائل کے شیئر ہونے والے سکرین شاٹس کے مطابق وہ ایک یوتھیا ہے۔
ملک وحید پنجاب اسمبلی سمیت ہر جگہ چیخ چیخ کر دہائی دے رہا ہے کہ اس کی گاڑی کے شیشے کالے نہیں تھے اور میں تو اس سے بھی ہٹ کے بات کرتا ہوں کہ کہ اگر ٹریفک پولیس یا پنجاب پولیس کے اہلکار کسی گاڑی کو کالے شیشے ہونے پر روکتے ہیں توکیا وہ اپنے ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز، ایس پیزسے ڈی آئی جیوں کی گاڑیاں بھی اسی طرح پیچھا کرکے روکتے ہیں جن سب کے شیشے کالے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کیمرہ مینوں کی پولیس افسران کے دفاتر کے باہر ڈیوٹی لگا دوں اور وہ وہاں سے نکلنے والی ہر گاڑی کی ویڈیو بنواؤں۔
میری رائے ہے کہ گاڑی کسی کی بھی پرسنل سپیس ہوتی ہے۔ تمام امپورٹڈ گاڑیاں ٹنٹڈ گلاسز کے ساتھ ہی آتی ہیں۔ یہ ضروری کیوں ہے کہ پہلی نظر میں ہی گاڑی کو اندر تک دیکھا جاسکے اور اگر یہ کوئی قانون ہے تو تمام کیری ڈبے اور ٹرک بھی اسی طرح شفاف ہونے چاہئیں، صرف کاریں کیوں جو کہ فیملیوں کے استعمال میں ہوتی ہیں۔ میں پرزور سفارش کرتا ہوں کہ اگر کوئی انٹیلی جنس رپورٹ ہو یا اس سے ہٹ کے بھی اگر شک ہو تو گاڑی ضرور چیک کی جائے بلکہ صرف شیشوں کے اندر منہ کیوں گھسایا جائے، اس کار کا انجن اورڈکی تک کھلوا کے دیکھی جائے۔
اس تمام کے باوجود میں اس بات کا قائل ہوں کہ آپس میں تو تو میں میں ہوہی جاتی ہے اور آج کل فونوں کے ذریعے ویڈیو گرافی کا دور ہے اور ہر کوئی ویڈیو سے اپنی پسند کا حصہ کاٹ کے پیش کر سکتا ہے۔ میں اس سے پہلے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی طرف سے اس ٹرینی سب انسپکٹر کو بلا کے ویڈیو جاری کرنے کا مشورہ دینے والوں کی عقل پر ماتم کروں، دو باتیں بتانا چاہوں گا۔ پہلی بات کی تصدیق وہ پرویز بشیر، سلمان غنی سمیت کسی بھی سینئر جرنلسٹ سے کر سکتی ہیں جو ان کے والد شروع سے کوریج کرتے رہے۔
ہم بطور بیٹ رپورٹر جب میاں صاحب کے لاہور آنے پر ائیرپورٹ جایا کرتے تھے تو اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوا کرتا تھا۔ صرف پرنٹ میڈیا اور اس کے پولیٹیکل رپورٹرز ہم، جن میں اشرف ممتاز مرحوم اور خواجہ فرخ سعید مرحوم بھی ہوا کرتے تھے۔ ہم میاں نواز شریف سے سوال کیا کرتے تھے تو کبھی کبھار جواب ہوتا تھا کہنہ کوئی سوال کوئی نہ کوئی جواب۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ آپ نے یہ بھی نہیں چھاپنا کہ وزیراعظم سے یہ سوال ہوا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔ اس وقت بہت برا لگا کرتا تھا کہ میاں صاحب نے ایک بڑی خبر مس کروا دی ہے مگر بعدمیں علم ہوا کہ وہ بہت سارے معاملات کو صرف نظرانداز کرکے انہیں بگڑنے سے بچا لیا کرتے تھے۔
دوسری بات یہ کہ کسی اخبار میں ایڈیٹر کی اصل صلاحیت یہ نہیں ہوتی کہ اس نے کون سی خبر لگانی ہے کیونکہ اس کے پاس ہزاروں خبریں ہوتی ہیں مگر وہ سب نہیں لگا سکتا سو اس کی اصل صلاحیت یہ ہوتی ہے کہ اس نے کون سی خبر نہیں لگانی۔ اسی طرح بطور وزیراعلیٰ ان کے پاس کہنے اور کرنے کو ہزاروں باتیں ہیں مگر بڑے بھائی پرویز رشید کو انہیں بتانا چاہئے کہ انہیں ہر ٹوئیٹ کا جواب نہیں دینا، ہر معاملے کانوٹس نہیں لینا اور اگر لینا بھی ہے تو ویڈیو یا پریس ریلیز ضروری نہیں۔
میری ملک وحید سے نہ تو اس معاملے پر تفصیلی بات ہو سکی ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی ذاتی تعلق ہے، چلیں ایک لمحے کے لئے مان لیتے ہیں کہ شیشے بھی کالے تھے اور غلطی بھی ملک وحید کی تھی مگر کیا یہ وزیراعلیٰ کے نوٹس لینے کا کام تھا اور اگر نوٹس لینا بھی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ساتھی جس نے ان کے والد کے نام پر جان تک قربان کرنے میں کسر نہیں چھوڑی، پرویز مشرف دور میں ان کا خود کش بمبار بن کے پھرتا رہا، عشروں سے وفادار اس کارکن کی کل کے لونڈے بلکہ یوتھیے کے لئے تذلیل کر دی جائے۔ مجھے اچھا لگا کہ حمزہ شہباز کے بعدعطا تارڑ نے بھی چوہدری عتیق الرحمان کے گھر تعزیت کر لی مگر میں پیغام پہنچا دوں کہ آپ کے کارکن اس وقت بہت مایوس ہیں۔
یہ درست ہے کہ جب تک آپ وزیراعلیٰ ہیں ہر کسی نے تُو تُو کہہ کے بات کرنے والا پولیس کا بڑے سے بڑا افسر بھی آپ کے سامنے بھیگی بلی بنا رہے گا جس کی بدتمیزی ہر جگہ مشہور ہے لیکن جب کبھی آپ نے دوبارہ الیکشن لڑنا ہے یا عوام کے پاس جانا ہے تو آپ کے کارکن ہی آپ کے ساتھ ہوں گے بلکہ خطرہ تو یہ ہے کہ کہیں بہت اوپر کچھ تبدیل ہونے کے بعد یہی پولیس آپ کے گھروں کی پھر دیواریں پھلانگ رہی ہو۔ پنجاب کواپنا سیاسی قلعہ بنائیں روایتی پولیس اسٹیٹ نہیں۔ ایک سیاسی رہنما کو اپنی سیاسی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ نواز لیگ کے کارکن مجھے بتا رہے ہیں کہ ان کے لئے ایوان وزیراعلیٰ کے دروازے اسی طرح بند ہیں جس طرح عثمان بزدار اور پرویز الٰہی کے دور میں ہوا کرتے تھے، وہ سب اس وقت عجیب مسکین بنے پھر رہے ہیں۔
میری باتوں کا ا س وقت بھی برا منایا گیا تھا جب میں نے دواڑھائی برس پہلے خواہ مخواہ کی مزاحمت کی پالیسی تبدیل کرنے کے لئے کالم لکھے تھے اور ہو سکتا ہے کہ یہ کالم بھی تلخ لگے مگر میرا یہی کہنا ہے کہ کوئی سپہ سالار اپنے ہی فوجی مار کے اپنی فتح کاجشن زیادہ دیر تک نہیں منا سکتا۔