یہ معاملہ صرف پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ زاہد بخاری کا نہیں کہ ہمارا سوشل میڈیا فلتھ ڈپو، بنا ہوا ہے مگران کی وجہ سے زیادہ سنگین ضرور ہوگیا ہے کہ اگر ایک صوبے کی طاقتور وزیر ایک نازیبا ویڈیو پر اپنی تصویر لگا نے اور پھر اسے ایک سیاسی جماعت کی ایکٹیویسٹ کی طرف سے ٹرول کرنے پر عبرت کا نشان بنانا تو دور کی بات کٹہرے تک میں نہیں لاسکتیں تو پھر ایک عام شہری کیا کر سکتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بے شرمی اور بے ہودگی کا آغاز آج سے بارہ، تیرہ برس پہلے ہوا، یقینی طور پر اس سے پہلے بھی ایسے لوگ موجود تھے مگر اسے باقاعدہ گروہ بنا کے ایک دھندے کی طرح جس طرح اب چلایا گیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میں نے دیکھا کہ ایک اچھی سیاسی کارکن میڈیا کے سامنے چیخ رہی تھی، پوچھ رہی تھی کہ کیا پی ٹی آئی سے باہر کسی کی عزت نہیں ہے۔ انہوں نے صوبے کی سب سے بڑی عدالت کی سب سے بڑی جج کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہاں سے ایف آئی اے کا راستہ دکھایا گیا۔
عظمیٰ زاہد بخاری نے ایف آئی اے کے کئی چکر لگائے مگر کوئی داد رسی نہ ہوئی تو کہنے پر مجبور ہوگئیں کہ وزیراعظم ایف آئی اے کے سائبرکرائم یونٹ کو بند کر دیں کہ ان کے پاس ٹکے کی مہارت نہیں ہے، یہ بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں مگر کام کچھ نہیں کرتے۔
میں نے وکلا، بالخصوص خواتین وکلا سے پوچھا توسامنے آیا کہ سیاسی نفرت اور تعصب میں خواتین بھی خواتین کے ساتھ نہیں ہیں۔ مجھے ایک خاتون وکیل نے کیمرے آن ہونے سے پہلے کہا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ میں نے پوچھا عظمیٰ زاہد بخاری نے ایسا کیا کیا ہے جس پر آپ یہ کہہ رہی ہیں تو وہ بات بدل گئیں۔ ایک اور خاتون وکیل نے آگے بڑھتے ہوئے اسے خواجہ آصف کی طرف سے شیریں مزاری کے لئے پارلیمنٹ میں کہے ہوئے الفاظ سے ملا دیا۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ اس کے ذریعے اس حرکت کو جوا ز دے رہی ہیں توآئیں بائیں شائیں کرنے لگیں۔ انہوں نے پنجاب کی خاتون سیاستدان کے حوالے سے کہا کہ ویڈیوز کا کام تو وہ کرتی ہیں جس پر میں نے کہا کہ اگر وہ سچی ہیں اور ان میں اخلاقی جرأت ہے تو پھر یہ بات کیمرے پر کہیں، پھر وہ اس کی بھی ہمت نہ کرسکیں۔ پھر کہا گیا کہ بے نظیر بھٹو کی تصاویر پھینکی گئی تھیں تو میں نے انہیں بتایا کہ یہ کام مبینہ طور پر پنڈی کے شیطان کے طور پر جانے والے سیاستدان سے منسوب کیا جاتا ہے۔
نجانے ہم کیوں کہتے ہیں کہ خواتین زیادہ مہذب اورباوقار ہوتی ہیں۔ عظمیٰ زاہد بخاری کے حوالے سے فیک ویڈیو کبھی وائرل نہ ہوتی اگر اسے پی ٹی آئی کی ایک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے پوسٹ نہ کرتی اور جب عظمیٰ زاہد بخاری نے اسے چیلنج کیا تو پھر وہ پوسٹ ڈیلیٹ کرکے بھاگ گئی مگر معاملہ رکا نہیں، ان کے بیٹے کے ساتھ تصویر لگا کے واہیات کمنٹس کئے گئے۔
میں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف عظمیٰ زاہد بخاری کا نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص ہے جو سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ اس پربھونکتے ہوئے کتوں کا ایک غول چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ سوشل میڈیائی کتے ہر جماعت نے رکھے ہوئے ہیں حتیٰ کہ داڑھیوں والے اور ماتھوں پر محرابوں والوں کی جماعتوں نے بھی۔ منافقت کا یہ حال ہے کہ اس معاملے کو بھی بشری بی بی کے عدالتی معاملات سے جوڑ کے جواز دیا جا رہا ہے حالانکہ دونوں ایشوز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک طرف صریحاً جھوٹ ہے اور دوسری طرف عدالت میں کیس۔
عظمیٰ بخاری کا معاملہ ٹرولز کا ہے جبکہ بشریٰ بی بی کا جھوٹا سچا مقدمہ ان کا سابق شوہر عدالت میں لے کر گیا، گواہ ان کا ذاتی دوست تھا، نکاح خواں اور ملازم، وہاں کوئی فیک ویڈیو نہیں بلکہ ان کے شوہربارے بھی جو کچھ ثابت ہوا وہ امریکی عدالت میں ہوا اور جو کچھ کہا گیا ان کی دوسری بیوی کی کتاب میں کہا گیا۔ وہ چاہتے تو اسے جھوٹ اور الزام قرار دے کے خاتون وزیر کی طرح عدالت میں چیلنج کر سکتے تھے مگر انہوں نے نہیں کیا۔
بدقسمتی ہے کہ ہمارے ارد گرد پی ٹی آئی رہنما شاہد صدیق کے بیٹے قیوم صدیق جیسے دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ لوگ ایک نیلے رنگ کی شرٹ میں ملبوس شخص کی تصویر ڈی پی پر لگاتے ہیں اور اوپر سورۃ فاتحہ کی آیت کور فوٹو، اس کے بعد یہ ہر طرح کی بدزبانی کرتے ہیں بالکل اسی طرح منافقت اور ذلالت جس طرح قیوم شاہد نے اپنے باپ کو قتل بھی خود کروایا، پھر اس کا جنازہ بھی خود ہی پڑھایا اور روتا بھی رہا۔ ہمارا سوشل میڈیا ایسے منافقوں سے بھرا پڑا ہے۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی اس قسم کی حرکت کرے تواس کا بدلہ خود لیا جائے۔ جب پچاس سو کتے کی طرح بھونکنے کے بعدواقعی کتے کی موت مرے تو باقیوں کوخود ہی کان ہو جائیں گے مگر کیا اس طرح کوئی ریاست، کوئی معاشرہ چل سکتا ہے، ہرگز نہیں، پنجاب حکومت نے فیک نیوز اور ہتک عزت پر ایک قانون بنایا ہے مگر افسوس اس کے نفاذ کو پنجاب ہی کی عدالت نے آزادی رائے کے نام پر معطل کررکھا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ رائے کی آئینی آزادی کے نام پر الزام اور گالی کو تحفظ دیا جاتا ہے بھلا دنیا بھر میں عدالتیں دہشت گردوں اوربدقماشوں کے حقوق کی محافظ ہوتی ہیں یا ان کا نشانہ بننے والوں کی۔ وہ معاشرہ کبھی درست نہیں ہوسکتا جہاں پروفیشنلز بھی نفرت اور تعصب کے مارے ہوں اور جہاں کی عدالتیں مجرموں کی پشتی بان۔ نومئی بھی ایک افسوسناک اور شرمناک مثال ہے۔ المیہ ہے کہ سوشل میڈیا کے کروڑوں صارفین ہونے کے باوجود ان کی عزت کے تحفظ کے لئے کوئی ایکشن لینے والا ادارہ موجود نہیں او رجو ٹوٹے پھوٹے قوانین موجود ہیں ان پر ہماری عدالتوں میں فیصلے تک نہیں ہوتے۔
ایف آئی اے عظمیٰ بخاری کے ہی کام نہیں آسکا بلکہ یہ ادارہ تو ان ای میلز اور کمپلینٹس کو پڑھنے تک کی اہلیت، صلاحیت اور عملہ نہیں رکھتا جو اسے کی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا تو ایک طرف رہا ہمارے بڑے بڑے ناموں کو جب چینلوں کے ساتھ مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ لندن کی عدالتوں میں جاتے ہیں۔ وہاں سے چینلوں کو بھاری جرمانے کرواتے ہیں اور کئی دینداروں کے چینل الزام لگانے کے بعد بھاری جرمانوں سے ڈرتے ہوئے وہاں اپنی نشریات بند کرکے بھاگ نکلتے ہیں مگر پاکستان میں آپ ان کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتے۔
ہمارے تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں دے رہے ہیں تعلیم اور تربیت نہیں۔ میرا خیال ہے ہمیں اگلی نصف صدی تک اپنے تعلیمی اداروں میں مڈل تک ریاضی اور سائنس وغیرہ کے مضامین ختم کرکے صرف اور صرف اخلاقیات پڑھانی چاہئے کہ کائنات کی سب سے دانا ہستی نے فرمایا، عزت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی جان اور مال، شائد اسی طرح ہم اپنا معاشرہ بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔