پروفیسر صاحب نے کہاپاکستان کا مستقبل مریم نواز ہے تو میں اس فقرے پر چونک پڑا۔ پروفیسر صاحب مجھے شعبہ سیاسیات میں پولیٹیکل ٹرینڈز پڑھاتے رہے ہیں جو میری دلچسپی کا سبجیکٹ تھا اوریہی وجہ ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک تعلق برقرار ہے۔ وہ سیاسی جمع تفریق بہت اچھی کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ پولیٹیکل سائنس واقعی ایک سائنس ہے۔ میں نے کچھ حیرت اور کچھ اعتراض کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو بولے، فقرے کو محتاط اور بہتر کرنا چاہتے ہو تو یہ کہہ لو کہ پاکستان کی سیاست کا مستقبل مریم نواز ہے۔ اب پوچھنے کی باری تھی اورمیں نے پوچھا، سرِ، آپ ہمیشہ ملک کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے فقدان پر افسوس کااظہار کرتے رہے ہیں تو ایسے میں سابق وزیراعظم کی بیٹی کے حق میں ایسی یک طرفہ رائے حیرت انگیز ہے۔
پروفیسر صاحب مسکرائے، بولے، ہاں، میں سیاست میں سجادہ نشینوں جیسی موروثیت کا سخت مخالف ہوں اور یہ کہ سیاسی جماعت کو ئی مکان نہیں ہوتی کہ اس کی ملکیت وارثوں کو منتقل ہوجائے مگرکیا تم کہہ سکتے ہو کہ قائداعظم علیہ رحمہ کی وفات کے بعد جب مادرملت اس وقت کی آمریت کے خلاف میدان میں آئی تھیں تو وہ موروثی سیاست تھی۔ میں نے کہا، نہیں ہرگز نہیں، مادر ملت نے کرداراور جرات کا مظاہرہ کیا تھا اور ایوب خان کے سامنے ڈٹ گئی تھیں اورمیں پورایقین رکھتا ہوں کہ اگر مادر ملت الیکشن جیت جاتیں تو پاکستان ہرگز دوٹکڑے نہ ہوتا۔ پروفیسر صاحب نے عجیب وغریب نکتہ اٹھایا اور یہ کہا کہ پاکستان کا دولخت ہونا تمہارے لئے ایک دکھ، افسوس اور المیہ ہے مگر بنگالیوں کے لئے نہیں ہے۔ میں اس نکتے کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھ گیا اورڈر کے مارے واپس موروثیت کے موضوع پر آگیا، میں نے کہا، یہ کہاں کی بات ہوئی کہ سابق وزیراعظم پارٹی کی قیادت پلیٹ میں رکھ کر اپنی بیٹی کو پیش کر دیں، یہ غیر جمہوری ہے، غیر منصفانہ ہے۔ سوال کے جواب میں مجھ سے سوال ہوا کہ تم ایک عرصے تک ضیاءالحق مرحوم کے بیٹے اعجاز الحق کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے رہے وہ آج کہاں ہے، کیا وہ اپنے باپ کی برسی پر چند ہزار لوگ بھی اکٹھے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اوراسی کے ساتھ دوسری مثال پرویز مشرف کی ہے، اس کا بیٹا بلال اگر پاکستان آجائے تو وہ کتنے لوگوں کو ائیرپورٹ پر بلاسکتا ہے، کتنی سیٹیں جیت سکتا ہے۔ یہاں موقع تھا کہ میں اپنے استاد کی بات پر بات رکھ دیتااورمیں نے کہا، سر، یہ تو فوجی سربراہ تھے، فوج میں کب وراثت چلتی ہے۔ وہ بولے، یہ درست ہے اور دعا کرو کہ ہمارا یہ ادارہ کسی سیاسی نظرئیے کی وراثت سے بھی بچا رہے کہ یہ فوج تمہاری بھی ہے اورمیری بھی ہے، اچھا، یہ بتاو کہ تمہاری نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ بھی اچھی یاد اللہ رہی، ان کے ڈیرے پر اکثر شام کی چائے پیتے تھے، شعر سنتے تھے اور سیاسی فلسفے سیکھتے تھے۔ یہ بتاو کہ نوابزادہ نصراللہ خان کا بیٹانوابزادہ منصور علی خان کہاں ہے، وہ کیوں نوابزادہ نصراللہ خان کی سیاسی وراثت نہیں سنبھال سکا؟
میں نے پوچھا، آپ نے یہ رائے کیسے بنائی، بولے، تم نے مریم نواز کو سیاست کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس نے لاہور کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے پہلے جی ٹی روڈ پر ریلی نکالی، اگلے روز وہ اسلام آباد تھی اور اس سے اگلے روز کاہنہ سے اچھرہ، مزنگ، گوالمنڈی، لوہاری سے داتاردربار تک ریلی۔ میں نے اب تک کسی سیاستدان کو کسی ایک جلسے کے لئے اتنی محنت کرتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ مریم کے والد نواز شریف کو بھی نہیں۔ اس سے پہلے تم نے ملتان میں مریم نواز کی تصویریں دیکھیں، سیاسی اعتماد، جرات اوربہادری کی اس سے بہتر عکاسی ہو ہی نہیں سکتی، تم نے مریم کو ٹوئیٹر پر دیکھا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی جس طرح فالو کرتی ہے، انہیں رپلائی اور ری ٹوئیٹ کرتی ہے، وہ تیزی کے ساتھ دلوں میں گھر بناتی جا رہی ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ عمران خان کو کس بات نے بہت مقبول کیا، وہ اس کی کھلی ڈلی بغیر کوئی لحاظ رکھے گفتگو تھی اور مریم نواز ہی واحد رہنما ہے جو عمران خان کو اس سے زیادہ بہتر انداز میں جواب دے رہی ہے، للکار رہی ہے۔ لیڈرکی گفتگو کے ساتھ ساتھ اس کا لباس بھی اہم ہوتا ہے، اس کے لباس کی چوائس میں تمہیں وقار اور متانت کے ساتھ رنگ اور خوبصورتی بھی ملیں گے یوں اس کے اندر ایک کرشماتی لیڈر بننے کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ جب عمران خان، مریم نواز کو نانی کہہ کر تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں مخالف کی کرشماتی شخصیت کا یہی خوف ہوتا ہے اور جب شہباز گل، فیاض الحسن چوہان یا فردوس عاشق اعوان مریم نواز کو مریم صفدر کہنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ نواز شریف سے مریم نواز کا تعلق توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو بھلا یہ کب ممکن ہے۔
پروفیسر صاحب نے بات کرتے ہوئے سانس لی اور پھر کہا، مریم نواز کو باپ کابھرپور اعتماد بھی حاصل ہے اگرچہ باپوں کو ہمیشہ بیٹے زیادہ پیارے ہوتے ہیں مگر یہ حیرت انگیز ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی سیاسی وراثت بیٹی کو دی اور نواز شریف بھی یہی کر رہا ہے حالانکہ ان کے بیٹے بھی موجود ہیں۔ یہاں تاریخ کا ایک اور سبق بھی آجاتا ہے کہ مکانوں اور جائیدادوں کے قبضوں کے مقابلے میں سیاسی وراثت اس کوملتی ہے جو آگے بڑھ کے خود کو حقدار ثابت کرے۔ اب اسی پیرائے میں تم اس کے خاندان اوراس کی اپنی پارٹی کو بھی لے آو۔ مریم نے بہت دانشمندی کے ساتھ اپنے چچا، چچازاد بھائی ہی نہیں بلکہ پارٹی میں بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کو کارنر کیا ہے اوراپنی فالووئنگ پرمجبور کیا ہے۔ ہم تاریخ اور سیاست کے اس موڑ پر کھڑے ہیں کہ مریم نواز کے مقابلے پر کراوڈپُکر عمران خان بھی نہیں رہے کیونکہ وہ اب دوبرس سے ایسے وزیراعظم ہیں جنہوں نے مہنگائی، بدانتظامی اورکرپشن کی انتہا کردی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کا بیانیہ چلتا رہتا اور لوگ شریف خاندان کوکرپٹ سمجھتے رہتے مگر یہاں دو وجوہات بن گئیں، پہلی وجہ نیب کی وہ نااہلی ہے کہ وہ تین، چار برسوں میں بھرپور سپورٹ ہونے کے باوجود کرپشن ثابت نہیں کر سکا اور دوسری وجہ حکومت کی معاشی میدان میں ناکامی اور نااہلی ہے۔ یہ علم معاشیات اور علم سیاسیاست کا ایک مشترکہ باب ہے کہ عوام آمریت برداشت کر لیتے ہیں اگر ان کے گھر کے معیار زندگی بہتر ہو رہے ہوں، انہیں زندگی کی ضروریات، سہولیات اورآسائشیں آسان اور ارزاں مل رہی ہوں لیکن اگر ایسا نہ ہو تو وہ جمہوریت بھی برداشت نہیں کرتے۔
میں نے عشروں کی نیاز مندی کا فائدہ اٹھایا اورکہا، سر، آپ پکے پٹواری ہو گئے ہیں تو جواب آیا، نہیں، میں ایک ریٹائرڈ آدمی ہوں اور روزانہ گھر سے گوشت اور سبزی لینے جاتا ہوں۔ میں کتابوں میں بیان کی گئی دانشوروں کی تھیوریوں کو اپنے گلی محلوں میں پھرتے عوام کے جذبات کے ساتھ مکس کر کے اپنا تجزیہ بنا تا ہوں۔ دنیا بھر میں پچھلی صدی کے آخری پچاس برسوں کی سیاست اشتراکیت اور جمہوریت میں کشمکش کی تھی، ایشیا میں سرخ اور سبز کے نعرے تھے مگر موجودہ صدی کے آغاز سے ہی سیاست نے پرو اسٹیشبلشمنٹ اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ رُو پ دھا لئے ہیں اور پاکستان میں جہاں عمران خان نے پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کا تاج اپنے سر پر سجا لیا ہے وہاں مریم نواز اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ کی اتنی بڑی لیڈر بن کے سامنے آئی ہے کہ اس نے سیاسی شہیدوں کے نواسے اوربیٹے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا سوال درست مگر یہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب انہیں توڑنے کے لئے تابڑتوڑحملے بند ہوجائیں۔ جب گھر کے سربراہ کو پکڑنے اورمارنے کے لئے دشمن سنگ باری کر رہا ہو تو اس وقت گھر میں سجاوٹ اورآرائش کے سوالات نہیں اٹھائے جا سکتے۔ ایسی صورتحال میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ آنے والے پتھروں کے سامنے مقابلہ کون کر رہا ہے، ڈٹ کر کون کھڑاہے اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ باپوں کے لئے سب سے بہتر ان کی بیٹیاں ہی لڑتی ہیں۔ بس میرا ایک پیغام مریم نواز تک پہنچا دوکہ اسے اپنی سیکورٹی کے حوالے سے غیر معمولی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔