سوشل میڈیا پر سفید بالوں والے ایک شخص کی تصویر دیکھی تو علم ہوا کہ یہ تو ہمارے میاں محمد اظہر ہیں، ہمارے شہرکے سابق مئیر، صوبے کے سابق گورنر اور ایک وقت کے بڑے مجاہد جنہوں نے میاں نواز شریف کو بادشاہ، اور شہنشاہ، کے القابات دیتے ہوئے مہنگائی اور لیگی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کے خلاف زبردست آواز بلند کی تھی، اور ہاں شائد، وہ گفتگو میں تو بہت رواں نہیں تھے مگر ان کی پریس ریلیزوں میں کشمیر کا بھی ذکر ہوا کرتا تھا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ کبھی میاں نواز شریف اور میاں محمد اظہر میں بہت دوستی بلکہ فرینک نیس ہوا کرتی تھی مگر پھر میاں نواز شریف بڑے آدمی بن گئے اور میاں اظہر اتنے بڑے نہ بن سکے۔ انہیں بتایا جا تا رہا کہ وہ بھی کچھ لوگوں کی مدد سے میاں نواز شریف کی طرح ہی بڑے آدمی بن سکتے ہیں۔ میاں اظہر نے پریس کانفرنسیں بھی کیں اور ورکرز کنونشن بھی اور پھر وہ وقت آیا کہ نواز شریف کے خلاف قائد اعظم کے نام کے ساتھ مسلم لیگ بن رہی تھی تو میاں اظہر کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ مجھے آج مال روڈ پر چڑیا گھر کے سامنے پانچ ستارہ ہوٹل کا وہ پرتکلف لنچ یاد ہے جس میں انہوں نے میرے اس سوال پر، کہ آپ جنرل پرویز مشرف کے لئے کیا کر سکتے ہیں، انہیں کیا پیش کش کر سکتے ہیں، کہا تھا کہ وہ ہی ہیں جو پرویز مشرف کے اقتدار کو جائزیت عطا کر سکتے ہیں اور پھر یوں ہوا کہ اس سے پہلے اجلاسوں میں اسی قسم کی کہی گئی باتیں اس وقت کی سیاست کے فیصلہ سازوں کو توہین آمیز لگیں۔ نتیجہ یہ نکلا تھا کہ میاں اظہر شاہدرے اور شیخوپورے والے سائیڈ سے قومی اسمبلی کا الیکشن ڈرامائی انداز میں ہار گئے۔ مزے کی بات بتاو¿ں کہ ہم صحافیوں کو ان کے ہارنے کی خبریں مخصوص ذرائع سے دن کے وقت ہی ملنا شروع ہو گئی تھیں اور ہماری دن کی حیرانی شام کو یقین میں بدل گئی تھی۔
میں ذاتی طور پر کہوں تو مجھے میاں اظہر برے نہیں لگتے حالانکہ وہ میرے ساتھ اپنے آپ کو اتنا ہی غیر آرام دہ محسوس کرتے تھے جتنے میاں نواز شریف آخر تک کرتے رہے۔ ان دونوں کا شکوہ ایک ہی تھا کہ مجھے سوال کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ میں یہ کہوں کہ مجھے میاں اظہر اس لئے اچھے لگتے تھے کہ وہ عوامی انداز میں بات کرتے تھے۔ وہ جب لاہور کے مئیر تھے تو انہوں نے تجاوزا ت کے خلاف تاریخی مہم چلائی تھی۔ میں گواہی دے سکتا ہوں کہ انہوں نے نواز شریف اور شہباز شریف کیا خو د اپنی سفارش بھی نہیں سنی تھی۔ وہ سرکلر روڈ جہاں کی ایک ڈیڑھ لین میں گاڑی پر گاڑی چڑھی ہوتی ہے وہ اتنی کھلی ہو گئی تھی کہ وہاں سے ٹرک بھی گزر سکتے تھے، مسجد شہدا کے سامنے آئس کریم کی مشہور دکانوں کا صفایا، جہاں عمارتوں میں سے گلی نکل آئی تھی اور پھر حکمرانوں کے ماما جی کی دکان والا معاملہ۔ میں عشروں سے شہر میں تجاوزات کے خلاف ایسی ہی مہم دیکھنا چاہتا ہوں مگر اس کے بعد ہر دور میں صرف مال بناو¿ مہم ہوتی ہے، ضلعی اور ٹاو¿ن انتظامیہ والے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کما کر گھر چلے جاتے ہیں جیسے ابھی حال ہی میں ایک خاتون افسر نے شاہ عالمی میں بالخصوص اور پورے شہر میں بالعموم اندھیر مچا دیا تھا۔ میاں اظہر نے بطور گورنر بھی کمال کیا تھا کہ لاہور نارووال سائیڈ پر جرائم پیشہ افراد کے ڈیروں کے خلاف زبردست کارروائی کروائی کہ ہمارے کامونکی کے سیاستدان دوست چیختے چنگاڑتے اس وقت کے درویش وزیراعلیٰ کے پاس پہنچ گئے۔ درویش وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے شکایت کی کہ گورنر، وزیراعلیٰ کے اختیارات میں مداخلت کر رہا ہے اور وزیراعظم نے سختی سے مداخلت نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک بات جو میاں نواز شریف کو بہت بری لگی تھی وہ یہ تھی کہ جب انہیں برطرف کیا گیا تو میاں اظہر نے بطور گورنر پنجاب اپنا بکسہ اٹھایا اور گورنر ہاو¿س چھوڑ کر اپنے گھر آ گئے کہ ان کے خیال میں وفاداری یہی تھی مگر میاں نواز شریف کو یہ بات بہت بری لگی کہ بچپن کے دوست اجو نے لڑنے کے بجائے مورچہ خالی چھوڑ دیا۔ یاد آیا کہ ہر مشکل دور میں نواز لیگ چھوڑ جانے والے کامونکی کے اسی سیاستدان نے میاں اظہر کو بھی پارٹی سے نکالنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
میاں اظہر کے تین بڑے نعرے میں نے آپ کو بتا دئیے، پہلا نعرہ مہنگائی تھا اور کیا ستم ہے کہ آج ان کا بیرسٹر بیٹا پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کرتا ہے اور اس کے دور میں مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ حماد اظہر کے پاس مکمل اختیارات نہیں ہیں بلکہ ایک موقعے پر ( شائد عمران خان کی خواہش پر بھی) انہیں مکمل وزیر بنانے کی تدبیر کی گئی مگر وہ چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی ناکام ہوگئی۔ دوسرا نعرہ کارکنوں کو اکاموڈیٹ کروانے کا تھا جس پر بہت سارے لیگی کارکنوں نے میاں اظہر کے گھر کا لان آباد کر دیا تھا مگر جب وہ خود پارٹی کے سربراہ بنے( اور چاہے وہ مختصر عرصے کے لئے ہی تھا) تو وہ اپنا ساتھ دینے والے کارکنوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیاں تو دور کی بات پارٹی اور بلدیاتی اداروں تک میں اکاموڈیٹ نہ کرواسکے۔ میں آج ان کے حلقے کے شیر شاہدرہ، کو دیکھتا ہوں تو وہ دوبارہ حمزہ شہباز شریف کی پیشیوں پر نواز شریف اور شہباز شریف کے نعرے لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔ پھریوں ہوا کہ چودھری برادران نے ان سے زیادہ بہتر سیاست کی اور میاں اظہر قاف لیگ سے بھی آوٹ ہو گئے۔ آج حماد اظہر پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی جس یوتھ اور کلچر کی بات کرتی تھی حماد اس کی حقیقی تصویر ہے مگر کچھ عرصے سے لاہور کے تاجر عجیب وغریب باتیں بتاتے ہیں کہ یہ نوجوان ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے صرف لارے لگاتا ہے، ڈنگ ٹپاو قسم کی باتیں کرتا ہے۔ میاں اظہر کی پریس ریلیزوں میں تیسرا نعرہ کشمیر کا ہوا کرتا تھا۔ وہ نواز شریف کے اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ تعلقات پر برہم نظر آتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نواز شریف کشمیر کا سودا کرنے جا رہے ہیں مگر پھر وہ وقت آیا ہے کہ میاں اظہر حکمران جماعت کا حصہ ہیں اور مقبوضہ کشمیر کا سقوط ہوچکا ہے۔ ہم کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اپنے آئین کی زنجیریں توڑتے ہوئے، متنازعہ علاقے کا سٹیٹس ختم کرتے ہوئے، اپنا اٹوٹ انگ بنا لیا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ میاں اظہر، شیخ رشید اور چودھری برادران کی نواز لیگ سے رخصتی میں جہاں بیرونی عناصر کارفرما تھے وہاں خود میاں نواز شریف کا رویہ بھی ایک وجہ تھا۔ میں، سیاست کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر، یہ توقع ہرگز نہیں رکھتا کہ میاں اظہر ایک مرتبہ پھر مہنگائی، کارکنوں اور کشمیر کے نعرے پر متحرک ہوں کہ اب ان کی کون بات سنے گا۔ ہمارے پنجاب کے دو سیاسی طبقات میں سے ایک طبقہ انہیں جمہوریت اور پارٹی کا غدار سمجھتا ہے اور دوسرا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ان کے بیٹے کو اہم وفاقی وزیر بنا کے حق سے بھی کچھ زیادہ حق ادا کر دیا گیا۔ میں نے میاں ا ظہر کو بہت عرصے سے نہیں دیکھا مگر تصویر ضرور دیکھی ہے جس میں ان کے بال بہت زیادہ سفید نظر آ رہے ہیں۔ میں چاہوں تو ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ان سے ملاقات کر سکتا ہوں مگر مجھے علم ہے کہ وہ میرے ساتھ کچھ ڈسکس نہیں کریں گے، یہی کہیں گے، اوئے تُوں ہُن وی نئیں بدلیا، تینوں ہُن وی عقل نئیں آئی۔