میاں محمد نوازشریف، تین مرتبہ کے وزیراعظم، ملک کے سب سے تجربہ کار سیاستدان، سب کو علم ہے کہ ناخوش ہیں اور وہ اپنی اس ناخوشی کو اپنے بھائی کے وزیراعظم اور بیٹی کے وزیراعلیٰ بننے کے باوجود چھپا نہیں پا رہے۔ ان کی یہ ناخوشی مختلف راوی، روایت کرتے رہے لیکن پھر انہوں نے ملک کے سینئر ترین صحافیوں جناب مجیب الرحمان شامی اور جناب سلمان غنی کو مدعو کیا۔
جناب سلمان غنی نے گفتگو براہ راست تو رپورٹ نہیں کی مگر ایک تجزئیے کی صورت لے آئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے اخبار میں میاں نواز شریف سے منسوب فقروں میں کہا گیا کہ یہ ایک بندھی ہوئی حکومت ہے اور ہم نوزل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں سب پتا چل گیا تھا وہ وزیراعظم نہیں بن رہے۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ عوام کے سامنے کیوں نہیں آ رہے تو اس پر ان کا جواب تھا کہ وہ کیا کارکردگی لے کر عوام کے سامنے نکلتے، کیا کچھ باقی رہ گیا ہے۔ میاں نواز شریف رمضان المبارک کا آخری عشرہ مکہ، مدینہ میں گزارتے ہیں سو ان سے اس برس نہ جانے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کیا وہ شہباز شریف کے ساتھ جاتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف نے بہت اصرار کیا مگر انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔
میں کچھ روز تک انتظار میں رہا کہ مسلم لیگ نون کی قیادت یا کسی میڈیا سیل کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے آئے کہ ایک موقر اخبار کی سیکنڈ لیڈ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کافی روز گزرنے کے بعد میں نے اس خبر کو مکمل طور پر درست تسلیم کرتے ہوئے اس پر لکھنے کا فیصلہ کیا جبکہ میں ذاتی طور پر جناب سلمان غنی کی صحافتی اور شخصی دیانت کا گواہ بھی ہوں اور معتقد بھی۔
میں پہلے دن سے جانتا ہوں کہ ان کے اخبار میں ان کے حوالے سے شائع ہونے والا ایک ایک فقرہ سچ ہے۔ اس کے بعد جناب عارف سندھیلہ جو کہ مسلم لیگ نون کی سوشل میڈیا پر زبان ہیں، انہوں نے بھی ایک ویلاگ میں کہا کہ میاں نواز شریف کوئی بڑا دھماکہ کر سکتے ہیں۔ یہی بات شہریار آفریدی نے جناب حامد میر کے پروگرام میں کہی۔ میاں نوا ز شریف کے بارے اطلاعات ہیں کہ وہ چھ ججوں کے خط کے کیس میں بھی فریق بننا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں عدلیہ پر جو دبائو، تھا اس کو سامنے لایا جائے۔
مجھے لگتا ہے کہ میاں نواز شریف پرویز مشرف کے دور میں ہونے والا سلوک بھول گئے تھے اوراس کے بعد ملک کے لئے نیک نیتی کے ساتھ بہت کچھ کرنے کا سوچا بھی اور کیا بھی مگر قمر جاوید باجوہ، فیض حمید اور عمران خان کے گٹھ جوڑ سے ہونے والے سلوک کو چاہنے کے باوجود بھی نہیں بھلا پا رہے جس دور میں وہ اپنی عزیز ترین اہلیہ سے اس وقت ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے جب وہ اپنی پیاری بیٹی کے ساتھ جیل میں قید تھے مگر سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کیا کر سکتے ہیں؟
کیا میاں نواز شریف اس وقت اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ کوئی دھماکہ کردیں جب ان کا بھائی وزیراعظم اور ان کی بیٹی وزیراعلیٰ ہے۔ وہ اپنا سیاسی اثاثہ اپنی بیٹی کو منتقل کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے اس حد تک کمٹڈ ہیں کہ وہ تین مرتبہ کے وزیراعظم ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کے صوبائی اجلاسوں کی ڈی فیکٹو صدارت کرتے ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ ایسے اجلاسوں میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ نظر نہیں آتے حالانکہ ان کا وفاق میں تجربہ کہیں زیادہ قابل قدر ہے۔ تکلف برطرف، وہ اسٹیبلشمنٹ سے ناخوش نظر آتے ہیں اور ان کی ترجمانی جاوید لطیف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں او ر کسی حد تک رانا ثناء اللہ خان بھی۔ یہ حلقے بتا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکا گیا مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی نے نواز شریف کو براہ راست یہ کہا کہ وہ وزیراعظم نہ بنیں یا سادہ اکثریت نہ ملنے کے بعد ان کا اپنا ذاتی فیصلہ تھا جس کا اعلان مریم اورنگزیب کے ذریعے کیا گیا۔
میں گمان کر سکتا ہوں کہ کوئی شخص میاں نواز شریف کو یہ بات براہ راست نہیں کہہ سکتا تھا اور یہاں میاں نواز شریف کی قیادت کا امتحان تھا، وہ اگر سمجھتے تھے کہ وہ اپنے بھائی کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اسٹیبلشمنٹ اور اتحادیوں کو ڈیل کر سکتے اور پارٹی اور عوام کی خدمت کر سکتے ہیں تو انہیں سرنڈر نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کیا یہ بات درست نہیں میاں نواز شریف اگر وزیراعظم ہوتے تو اب بہت سارے امیدیں لگا ئے بیٹھے ہوتے کہ یہ سسٹم آج ڈی ریل ہوتا ہے یا کل۔ فر ض کریں وہ پی ٹی آئی والوں کی توقعات پوری کر دیتے ہیں تو سو فیصد نقصان ان کا اپنا اور ان کی پارٹی کا ہوگا، ان کے بھائی اور انکی بیٹی کا ہوگا۔ انہیں تسلیم کرلینا چاہئے کہ وہ عمران خان جیسی سیاست نہیں کر سکتے۔
برا مت منائیے گا مگر ان کی پارٹی میں بھی وہ دم خم نہیں ہے بلکہ میں نے تو ابھی سے (سوشل میڈیائی تیس مار خانوں نہیں بلکہ) زمین پر کام کرنے اور سختیاں برداشت کرنے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو کہتے سنا ہے کہ بہت ہوگیا، اب ہم مزید ماریں نہیں کھائیں گے۔ ویسے ان ماریں کھانے والوں میں گنتی کے چند ایک تو وزیر بن گئے ہیں مگر باقیوں کو کیا ملا ہے۔ اس وقت بھی ایوان وزیراعظم اور ایوان وزیراعلیٰ میں کارکنوں کے لئے کوئی دروازہ تو کیا کھڑکی تک نہیں کھلی۔ میاں نواز شریف کو فی الحال کارکنوں ا و ر ووٹروں پر کوئی جوا نہیں کھیلنا چاہئے۔
یہ ایک تلخ سچ ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست نہ مسلم لیگ نون کا مزاج ہے اور نہ ہی مفاد۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ آج عمران خان کی فوج سے صلح ہو جائے تو وہ ڈٹ کر کہے گا کہ وہ فوج کے ساتھ دینے پر فخر کرتا ہے۔ اس کے کارکن دوبارہ اسی بیانیے پر آجائیں گے کہ فوج کا ساتھ دینے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے تو میرا سوال ہے کہ مسلم لیگ نون اس بیانیے پر کیوں نہیں کھیلتی کہ اپنی فوج کے ساتھ ہونا دشمن کی فوج کے ساتھ ہونے سے کہیں بہتر ہے۔ مان لیا، میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں مگر ان کے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے علاوہ بہت ساری زیادتیوں کا ازالہ ہوگیا ہے۔
میاں نواز شریف آگے بڑھیں، ان کا بیانیہ صرف ڈویلپمنٹ ہے، وہ مان لیں کہ دوسرے بیانئے کے کھلاڑی ہی نہیں ہیں۔ شہباز شریف ملکی معیشت کو سنبھالنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی ہی پارٹی کی حکومت کی ایسی تیسی نہ کریں، نہ وہ دو کشتیوں میں سفر کی مزید خواہش بلکہ غصہ تھوکیں اور انہیں باپ کی طرح سمجھنے والے بھائی کی سرپرستی کریں۔ ملک، پارٹی اور عوام کو اس وقت ان کے کسی ڈپریشن یا غصے نہیں تجربے، دانش، فہم، فراست اور قیادت کی ضرورت ہے۔ باقی وہ مرضی کے مالک ہیں۔