مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ حافظ قرآن اورشیخ الحدیث پاکستان کی انٹیلی جنشیا، کی پسند کی شے نہیں تھے کہ اگر ایسا ہوتا تو ملک بھر کی پانچویں اور پنجاب کی تیسری سیاسی قوت پارلیمنٹ سے مکمل طور پر باہر نہ ہوتی۔ میں نے مولانا خادم حسین رضوی کے سیاسی سفر پر نظر کی تومجھے حیرت ہوئی کہ ان کے پولیٹیکل پوٹیشنل کا اندازہ لگایا ہی نہیں گیا جو ہماری عشروں سے قائم سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ رہا۔ تحریک لبیک یارسول اللہ ( ﷺ) مولانا کی پہلی جماعت یا تنظیم نہیں تھی بلکہ پیر اجمل کے مطابق انہوں نے اس سے پہلے انجمن فدایان ختم نبوت بھی قائم کی تھی۔ میں بطور سیاسی تجزیہ کار محسوس کرتا ہوں کہ جب ممتاز قادری کو گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی اور اگلے روز لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک تاریخی جنازہ ہوا تومولانا خادم حسین رضوی نے سیاست کے اس خلاکو محسوس کر لیا جو متحدہ مجلس عمل جیسا سیاسی اتحاد بھی پورا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پاکستان کے معروضی حالات میں جب ہم دین کی اثرپذیری کو دیکھتے ہیں تواس میں ہمیں بریلوی مکتبہ فکر حاوی نظر آتا ہے مگر دوسری طرف جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت سیاست میں نمایاں مقام رکھنے والی جماعتیں دیوبندی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مجھے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما میاں مقصود احمد بتا رہے تھے کہ انہوں نے منصورہ کے پیران کرام اور مشائخ عظام سے فاصلے کو بہت حد تک کم کر دیا ہے جسے میں اس لئے سراہتا ہوں مگر بہرحا ل جماعت اسلامی کی ایک فکری اورمسلکی بنیاد ہے جو بریلویت سے مختلف ہے۔
بات دوسری طرف نکل گئی، مولانا خادم رضوی نے پیر اشرف جلالی اور دیگر کے ساتھ مل کر بریلوی مکتبہ فکر کی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ میں تاریخ کے اوراق پلٹوں تو مجھے اس سے پہلے جمعیت العلمائے پاکستان یہ ضرورت پوری کرتی نظر آتی ہے مگر اب یہ پچاس برس پرانی بات ہو گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کامیدان بھی یہی تھا مگر وہ خود کسی اور طرف نکل گئے۔ تحریک لبیک پاکستان سب سے پہلے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف میدان میں آئی جب انتخابی فارم میں ختم نبوت کے ڈیکلریشن میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ یہ مسلم لیگ نون کی غلطی تھی کہ اس نے انتخابی اصلاحات کے لئے انوشہ رحمان کا نام تجویز کر رکھا تھا جس نے شیری رحمان وغیرہ کے ساتھ مل کر حماقت کی اور نان ایشو کو ایشو بنایا۔ تحریک لبیک نے اس وقت چونکا دیا جب نواز شریف نااہل ہوئے تو لاہور کے حلقہ این اے 120 سے یہ تیسرے نمبر پر تھے یعنی ایم ایم اے اور پیپلزپارٹی کو پچھاڑ چکے تھے اوراسی طرح قائم ہونے والی حافظ محمد سعید کی جماعت ملی مسلم لیگ بھی رسپانس نہ لے سکی تھی۔ میں اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات کو دیکھتا ہوں تو ان میں ٹی ایل پی ملکی سطح پر پانچویں ( پیر اعجاز اشرفی کے دعوے کے مطابق چوتھی) اور پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کے سامنے آتی ہے۔ ٹی ایل پی نے ملکی سطح پر بائیس لاکھ جبکہ صرف پنجاب میں انیس لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کئے۔ انتخابی قوانین کے ماہر بتاتے ہیں کہ اگر حقیقی جمہوریت اور متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو ان ووٹوں کی بنیاد پر تحریک لبیک کے پاس قومی اسمبلی کی نو جبکہ پنجاب اسمبلی کی اکیس نشستیں ہوتیں اور یہ حکومت سازی میں اہم ترین ہوتی مگر قومی اورپنجاب اسمبلی میں اسے اس کے باوجودکوئی سیٹ نہیں ملی کہ ایک سے زائد حلقوں میں مولانا کے امیدوار رنراپ رہے، اٹھاسی حلقوں میں تیسرے اور بیاسی حلقوں میں چوتھے نمبر پر رہے۔ لاہور، اٹک گجرات اورشیخوپورہ جیسے شہروں میں ان کے ووٹ ایک، ایک لاکھ سے زائد اور آٹھ حلقوں میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ رہے۔ تحریک لبیک پاکستان ایک روایتی بنیاد پرست مولوی کی جماعت سمجھی جاتی ہے مگر اس جماعت نے آٹھ خواتین کو بھی عام انتخابات میں ٹکٹ جاری کئے۔ مولانا خادم رضوی کا انتخابی پھیلاو، دیکھئے کہ انہوں نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے 121 پرامیدوار کھڑے کئے اورپنجاب اسمبلی کے کل 297 حلقوں میں سے 262 پر الیکشن لڑا، ان کا انتخابی نشان کرین تھا۔
مولانا خادم رضوی کوئی کرشماتی شخصیت کے مالک نہیں تھے، وہ نہ صرف بیماری کی وجہ سے نچلا دھڑ استعمال نہیں کرسکتے تھے بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سخت کلامی بھی عام ملتی تھی مگر اس کے باوجود آج کے نظریاتی اورمسلکی مخالفین بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ حقیقت میں عاشق رسول تھے اورانہوں نے جس طرح ختم نبوت اور حرمت رسول ﷺ پر پہرا دیا اس طرح آج کے دور میں کوئی دوسرا نہیں دے سکا اور اس سے بڑی گواہی اور اس سے بڑا اعزاز کو ئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ میں اپنی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر سے مکمل اتفاق نہیں کرتاکہ ہمارے جنازے ہی ہمارے کردار کی گواہی ہیں مگر میرے پاس اس سے ہٹ کر کوئی دوسری گواہی اور کوئی دوسرا پیمانہ بھی نہیں ہے۔ رب پر ایمان، نبی سے محبت اور تقوے کا عروج ہم اسکے سوا کیسے جانچ سکتے ہیں کہ خلق خداکیاکہتی ہے۔ مولانا خادم حسین رضوی کاجنازہ لاہورکی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا، سب سے بڑا اجتماع تھا جہاں لوگوں کو لانے کے لئے کسی ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا، یہ جنازہ تھا جہاں سیاسی دھرنوں کی طرح لڑکیاں اورہلہ گلہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی ان کیلئے بریانی کی دیگیں پکی ہوئی تھیں مگرلوگ اس رشتے کے ساتھ آئے تھے جس رشتے کی بنیاد محض اورمحض دین تھا، رسول اللہ کی محبت تھی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ مولانا نے سابق دور میں اسٹیبلشمنٹ کے مقاصد کی تکمیل کی، جہاں ختم نبوت کے ایشو کو کھڑا کیا وہاں عام انتخابات میں نواز لیگ کوقومی اسمبلی کی کم از کم تیرہ نشستوں سے محروم کردیاکیونکہ سیاسی اور غیر سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کے ساتھ آنے والا ووٹر نواز لیگ کا ہی تھا۔ حوالے کے لئے راولپنڈی میں شاہد خاقان عباسی کا احوال پڑھ لیجئے مگر دوسری طرف جب میں نے ان کا حالیہ دھرنا دیکھا جس میں ان پر ہونے والی شیلنگ اتنی تباہ کن تھی کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی تومیرا دل چاہا کہ میں گواہی دوں کہ وہ اپنے نظرئیے اور مقصد کے ساتھ کمٹڈ تھے ورنہ مقتدر حلقے کب چاہتے تھے کہ وہ دھرنے دیں مگرمولانا اپنے مقصد کی خاطر ڈٹ گئے۔ ان کے موقف میں اتنی کلئیریٹی تھی، اتنا دوٹوک تھا جس سے حکمرانوں کی خوشامد اور طاقت وروں کی اطاعت کی راہ پر چلنے والے بہت سارے دوسرے دینی سیاسی رہنما محروم ہیں۔
اگر آپ نے مولانا خادم رضوی مرحوم کے جنازے میں ان کے صاحبزادے اور نئے مقرر ہونے والے امیر سعد رضوی کو دیکھا اور سنا ہے توانہوں نے لاکھوں لوگوں سے حلف لیا ہے کہ وہ ان کے والد کے نظرئیے کی پاسبانی کریں گے۔ میں مولانا خادم رضوی کے جنازے کو دیکھ رہا ہوں اور اپنے کالم کا عنوان الوداع مولانا خادم حسین رضوی، سے تبدیل کر کے مولانا خادم حسین رضوی آ گئے، کر رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ مذہب کو پاکستان کی سیاست سے باہر نہیں کر سکتے بلکہ پنجاب کا حال یہ ہے کہ اس کی نمائندہ تین بڑی جماعتوں میں سے دو سنٹر رائیٹ کی ہیں تو تیسرا بڑا ووٹ بنک انتہائی دائیں بازو کا نکل آیا ہے۔ عام انتخابات کے نتائج اور یہ جنازہ بتا رہا ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی گئے نہیں ہیں بلکہ ابھی تو وہ آئے ہیں، دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے کس حد تک اپنے والد کے جھنڈے کو بلند رکھ سکتے ہیں اور مولانا کا یہ لہراتا ہوا جھنڈا بہت سارے سیکولر اور دین دشمن طبقوں کے لئے ایک ڈراونا خواب ہوسکتا ہے۔