تحریک انصاف کے سابق چیئرمین نے کئی ماہ بعد میڈیا کا سامنا ہوتے ہی وہی غیر ذمہ دارانہ اور مہم جویانہ رویہ اختیار کیا جو اس کا خاصہ ہے۔ اس نے بیان دیا کہ شیخ مجیب الرحمان کے خلاف انہوں نے کیا کر لیا، آہ، یہ بیان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس نے ڈاکٹر اسرار احمد، حکیم محمد سعید اور عبدالستار ایدھی کی کہی ہوئی باتوں کو درست ثابت کرنا شروع کر دیا ہے۔ کون انکار کر سکتا ہے کہ انڈیا سے اسرائیل تک پاکستان کی فوج کو مسلمانوں کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا پاکستان پر اعتماد دیکھئے، وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان دھمکی دے تو اسرائیل غزہ جنگ بند کر سکتا ہے، بلاخوف تردید، ان کا یہ اعتماد پاک فوج ہی کی بنیاد پر ہے۔ پی ٹی آئی کا سابق چئیرمین اسی پاک فوج کو خاکم بدہن تباہ کرنا چاہتا ہے جو عالم اسلام کا مان ہے، وہ اس کا اپنی قوم سے رشتہ توڑنا چاہتا ہے۔ دشمنوں کو اس مکروہ کام کے لئے انہیں ایک اور شیخ مجیب الرحمان کی ضرورت ہے۔
میر جعفر، میر صادق، ڈرٹی ہیری جیسی ہرزہ سرائیاں کرنے والے، نو مئی برپا کرکے بھارت میں جشن کا سماں پیدا کرنے والے نے اپنا اگلا کارڈ باہر نکال لیا ہے لیکن کیا عمران خان میں شیخ مجیب الرحمان بننے کی صلاحیت اور اوقات موجود ہے، اس کا ہم عقلی، سیاسی، تاریخی اور منطقی بنیادوں پر جائزہ لے سکتے ہیں، شیخ مجیب الرحمان سے تقابل کرسکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کا بانی چیئرمین کہتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمان نے ایک سو باسٹھ سیٹیں جیتیں تو انہوں نے اس کے خلاف کیا کرلیا مگر وہ اس بات کاذکر نہیں کرتا کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی جیسی طاقتوں نے بھارت کے ساتھ مل کر قائد کے بنائے ہوئے پاکستان کے ساتھ کیا کیا۔ یہ شخص پاکستان توڑنے والے کردار کو فکری مغالطے پیدا کرکے ہیرو بنانا چاہتا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ اس کے پیروکاروں نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیاں بھی شروع کر دی ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وطن کے خلاف بولنے والے وہی ہیں جو اپنی ماں کو برا اور باپ کو گھٹیا سمجھتے ہیں، مان لو، والدین کی طرح وطن کا بھی کوئی متبادل نہیں ہے، اپنے وطن سے نکل کر دیکھ لو، تین تین نسلوں تک تمہیں دیار غیر کی مٹی قبول نہیں کرے گی، اپنا نہیں بنائے گی۔ شیخ مجیب الرحمان کی کامیابی کی تین بڑی وجوہات تھیں جن میں سے چئیرمین پی ٹی آئی کے پاس ایک بھی نہیں ہے۔
پہلی وجہ اس کا وہ پروپیگنڈہ تھا جو حقوق کے حوالے سے تھا، وہ مشرقی پاکستان والوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکاتا تھا اور اسی بنیاد پراس نے ایک سو باسٹھ سیٹیں جیتی تھیں مگر سابق چئیرمین پی ٹی آئی کی ملک دشمن حرکتوں کی وجہ سے خود اس کے پرانے ساتھی اسے چھوڑ رہے ہیں، اس کے پاس کسی حد تک خیبرپختونخوا میں حمایت موجود ہے مگر ملک کے دوسرے حصوں میں ٹائیں ٹائیں فش ہے، یہ حقیقت الیکشن میں کھل کے سامنے آ جائے گی۔
حقائق یہ ہیں کہ پی ٹی آئی گذشتہ انتخابات میں بھرپور حمائت اور بھرپور دھاندلی کے باوجود سادہ اکثریت تک نہیں لے سکی تھی۔ ماننا پڑے گا کہ بنگالیوں نے اپنی ایک سیاسی تحریک منظم کی لیکن کیا پی ٹی آئی ایک سیاسی تحریک ہے، کیا یہ کوئی نظریہ ہے۔ تاریخ کو ہمیشہ سیاسی تحریکیں بدلتی ہیں کسی کا فین کلب نہیں۔ یہ ایک کرکٹر اور پلے بوائے کا کلٹ ہے۔ اس کلٹ جیسے ہی یقین ہوگا کہ اس کا پسندیدہ شخص الیکشن کی دوڑ میں ہی نہیں، وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا تو یہ کلٹ کسی دوسرے کے لئے ووٹ تک ڈالنے نہیں آئے گا۔ مثال یوں سمجھئے کہ اس سے مایوس ہونے والوں کی اکثریت سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ یہ سیاسی گروہ ہی نہیں، ذہنی غلاموں کا ہجوم ہے۔
یہ سیاسی شعور سے عاری ہیں، یہ مکالمہ کرنا تک نہیں جانتے، صرف گالی دیناجانتے ہیں۔ یہ ایک سو باسٹھ نشستوں کی بات کرتے ہیں، یہ باسٹھ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دوسری وجہ زیادہ شرمناک ہے کہ شیخ مجیب نے بھارتی فوج کی مدد حاصل کی۔ اس نے بھی جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاوس اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کرکے اسی بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت اس کی مدد کو بھی ایسے ہی آئے گا جیسے شیخ مجیب کی مدد کو آیا تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ دنیا کے حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔
بھارت اپنے ایک غیر ذمے دار، بڑبولے ایجنٹ کے لئے حملے جیسی حماقت نہیں کرسکتا جب مقابلے میں ایک ایٹمی قوت ہو۔ شیخ مجیب الرحمان کے کامیاب ہونے کی تیسری وجہ مشرقی پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن تھی یعنی مشرقی اور مغربی حصوں کے درمیان ہزار کلو میٹر کا فاصلہ تھا اور بیچ میں دشمن تھا۔ کہنے دیجئے کہ اگر اس وقت پاک فوج کی قیادت شہاب نامے میں بیان کئے گئے جنرل یحییٰ خان کی بجائے کسی مستعد جرنیل کے پاس ہوتی، جنرل رانیاں معاملات نہ چلا رہی ہوتیں، ایک باکردار سپہ سالار ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔
میں پی ٹی آئی کے مغرور اور فسادی بانی چیئرمین سے کہنا چاہتا ہوں کہ شیخ مجیب الرحمان کا صرف یہکارنامہ، نہ بیان کرے کہ اس نے پاکستان دوٹکڑے کر دیا اور پاک فوج اس کا کچھ نہ کرسکی۔ پاکستان عطائے رب جلیل ہے۔ یہ مدینہ النبی ﷺ کے بعد چودہ سو برس میں کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی دوسری نظریاتی ریاست ہے۔ قائد کا فرمان ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ان ڈُو، نہیں کرسکتی۔
پی ٹی آئی کے چئیرمین کے وکلا، بہنیں اور اہلیہ اسے کتابیں پہنچائیں، بتائیں، شیخ مجیب اور اس کے خاندان کو15 اگست 1975 کو خود بنگالیوں نے کس انجام تک پہنچایا تھا، اس کی دو بیٹیاں حسینہ اور رخسانہ ہی بچی تھیں کیونکہ وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔ ادیب جاودانی مرحوم نے شیخ مجیب کے قاتل کرنل فاروق کا ایک تہلکہ خیز انٹرویو کیا تھا جو مون ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔ شیخ مجیب بھی عمران خان کی طرح تاحیات اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا جیسے باتیں ہو رہی تھیں کہ کسی کے فیض سے وہ دو تہائی اکثریت لے گا اور صدارتی نظام نافذ کر دے گا۔
جس طرح اس نے ٹائیگر فورس بنائی اسی طرح شیخ مجیب کے بیٹے جمال مجیب نے پاک فوج کے مقابلے کے لئے راکھی باہنی، بنا رکھی تھی جس نے بہت فساد برپا کیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سابق چئیرمین پی ٹی آئی نے یہ بیان اس مہینے میں دیا ہے جس میں سقوط ڈھاکہ کے زخم تکلیف دیتے ہیں۔ مجھے پھر نو مئی کے واقعات یاد آ گئے اور اس حیران کن مماثلت نے پریشان کرکے رکھ دیا۔
میں ایمان رکھتا ہوں کہ پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اسے نقصان پہنچانے کا عزم رکھنے والے خود عبرتناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر ہمارا کام سمجھا دینا ہے، کیا پی ٹی آئی کا بانی چئیرمین اپنی روش تبدیل کرے گایا؟