جی ہاں ! مجھے ابھی تک کورونا نہیں ہوا تو آپ کو اس پر حیرت کیوں ہے کہ اس وقت تک پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 19ہزار 536ہے جبکہ ورلڈ میٹر کے مطابق آبادی 22کروڑ 6 لاکھ 15 ہزار تیس افراد پر مشتمل ہے یعنی میں باقی رہ جانے والے22کروڑ77 لاکھ 28ہزار چار شہریوں میں سے ایک ہوں۔ مریضوں کی تعداد پاکستان کی کل آبادی کے ایک فیصد کا بھی کوئی بیسواں یا اکیسواں حصہ بنتی ہے۔ ایک گلاس میں ایک قطرے سے بھی کم اور اس کے بعد آپ کی مرضی ہے کہ آپ گلاس کو بھرا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں یا خالی۔
ایک منٹ رکئے، میں آپ کو ہرگز نہیں کہہ رہا کہ آپ کورونا بارے میں احتیاط نہ کریں کیونکہ میں خود ہر ممکن احتیاط برت رہا ہوں مگر یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ آپ خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ اگر آپ کو کورونا ہونا ہے تو پھر ہونا ہے کیونکہ آپ جناب شہباز شریف سے زیادہ احتیاط نہیں کر سکتے۔ میں نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں کہ وہ اکیلے لیپ ٹاپ پر بیٹھے ہوئے بھی ماسک اور گلووز پہنے ہوئے تھے اور رہ گئی میری بات تو میں اپنے اینکر ووست جناب عمران خان سے زیادہ محتاظ نہیں رہ سکتا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب سے کورونا آیا ہے ان کے گھر میں حکومت بلکہ ڈبلیو ایچ او کی لگائی ہوئی پابندیوں سے بھی زیادہ حفاظتی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ ان کے گھر سے کوئی اشد ضرورت کے علاوہ تین ساڑھے تین ماہ کسی جنرل سٹور تک نہیں گیا، گھر کا جو سودا سلف آتا تھا وہ ڈرائیور اسی طرح گاڑی کی ڈگی میں تین، تین دن تک کے لئے چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بعد اسے باقاعدہ جراثیم سے پاک کر کے اندر لے جایا جاتا تھا۔ وہ جب خود پروگرام کر کے واپس آتے تھے تو گھر کی پچھلی سیڑھیوں کے اوپر ایک واش روم میں نہانے اور کپڑے بدلنے کے بعد گھر میں داخل ہوتے تھے اور ان کے مطابق گھر میں کپڑے دھونے تک کے ایس او پیز بدل چکے تھے مگر انہیں اور ان کی والدہ محترمہ سمیت گھر والوں کو کورونا ہو گیا۔
میں تو ایک عام سا صحافتی کارکن ہوں اور جب حکومت ابھی لاک ڈاون، لاک ڈاون کا شور مچا رہی تھی تو میں اپنے شہر کے مزدروں کے ساتھ اچھرہ، چونگی امرسدھواور سیون اپ پھاٹک وغیرہ پر ان کے تحفظات حکومت تک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے یہ بتانے میں عارنہیں کہ موجودہ حکومت کے وزیر، مشیر مجھے، میرے اٹھائے ہوئے معاملات اور ان پر پوچھے گئے سوالات کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف میری حکمرانوں کی طرف سے عوام کے لئے پیدا کی گئی مشکلات پر بھی کچھ ایسی ہی رائے ہے لہذا مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں ٹھنڈے کمرے میں کسی وزیر، مشیر کی پبلک ریلیشننگ کرنے کی بجائے سڑکوں پر کینسر کے مریضوں کی آواز بن جاوں یا ان اساتذہ کی جو رمضان المبارک میں بھی چار، چار ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہوں۔ جب حکومت نے عیدا لفطر کے موقعے پر لاک ڈاون میں نرمی کی تو میں نے انارکلی کے ساتھ ساتھ اندرون شہر کی معروف اور مصروف ترین ہول سیل مارکیٹوں میں بھی پروگرام کئے اور دکھایا کہ ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، اتنا رش تھا کہ ٹکریں ہوتی رہیں۔
مجھے سڑکوں، بازاروں اور دفتروں میں کورونا نہیں ہوا اور مسجدوں میں بھی نہیں ہوا۔ خدا گواہ ہے میرا مسجدوں کی ویرانی دیکھ کر دل بھر آتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس پورے عرصے میں زیادہ سے زیادہ کوشش کی کہ حاضری رہے۔ میرا خیال تھا اور ہے کہ ہمیں کورونا سے زیادہ اپنے رب سے ڈرنا چاہئے۔ الحمدللہ باجماعت نمازیں بھی ادا کیں اور تراویح بھی ہر سال کی طرح مکمل ہوئی تاہم یہ ضرور رہا کہ مسجد میں ایس او پیز پر عملدرآمد ہوا۔ قالین اٹھا دئیے گئے اورہر نمازی کے درمیان کچھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا۔ یہ بھی رہا کہ میں نے اس دوران کسی سے خود گلے ملنے یا ہاتھ ملانے کی کوشش نہیں کی مگر جب کسی دوسرے نے ایسی کوشش کی تو میرے سے انکار نہیں ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میں نے گیٹڈ کمیونٹی کی مسجد میں نماز عید ادا کی اوراس کے بعد شاہ کمال قبرستان میں والدین کو سلام کرنے پہنچ گیا تو وہاں رش تھا اور بھرپور طریقے سے ٹھکا ٹھک عید ملی جا رہی تھی اور پھر ظاہر ہے کہ مجھ سے انکار نہیں ہو سکتا تھا۔
میں خود سے سوال پوچھتا ہوں کہ میں کرونا سے کیوں بچا ہوں تو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ موت، بیماری اور ذلت سب اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ میں ابھی تک ایک لاکھ بیس ہزار نہیں بلکہ بائیس کروڑ میں سے ایک ہوں تو حیرت کیسی ہے کہ میرے علاوہ بھی22 کروڑ 77لاکھ 28ہزار تین شہری بچے ہوئے ہیں مگر اگلا سوال یہ ہے کہ میں اس شہر میں رہتا ہوں جو اس وقت کرونا کا گڑھ ہے اور یہاں پی ایم اے کے مطابق کرونا کے مریضوں کی تعداد35 لاکھ تک ہو سکتی ہے یعنی ہر تیسرا لاہوری کرونے کا مریض ہے تو میں دنیاوی وجوہات تلاش کرتا ہوں جیسے کہ وسیم اکرم کے مشہور ترین اشتہار کے الفاظ کی طرح، میں سگریٹ نہیں پیتا اور دوسرے میں نے آج تک کبھی شراپ کا ایک گھونٹ تک نہیں چکھا۔ میں دن میں دو سے تین بار ضرور وضو کرتا ہوں جس میں چہرہ، بازو، ہاتھ، پاوں سب صاف ہوجاتے ہیں اور یہ کہ کرونا آنے کے بہت پہلے سے میں نے واک لازم کر رکھی ہے۔ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے محنت مزدوری کی ہے اور ایک وقت کی اس روٹی کے قریب بھی نہیں گیا جس کے بارے مجھے شک ہو کہ یہ میرے لئے حرام ہے، جائز نہیں ہے۔ میں کافی جذباتی ہوں، غصہ بھی کرتا ہوں مگر اس کے باوجود کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس کو نقصان پہنچایا ہو بلکہ ہمیشہ نقصان برداشت کیا ہے مگر کیا یہ سب کورونا کی یقینی حفاظتی تدابیر میں ہیں، ہرگز نہیں، حفاظتی تدبیر صرف اپنے رب پر ایمان ہے، بار بار کی گئی دُعا ہے اور اس کے قبولیت کایقین ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم صاحب میرے پروگرام میں تشریف لائے تو میاں نوید سے کہنے لگے کہ اسے کل یو ایچ ایس لے آو، اس کا کرونا ٹیسٹ کرنا ہے مگر میرا موقف یہ ہے کہ اگر مجھے بخار سمیت کوئی بھی علامت نہیں۔ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو دروازے کے ساتھ لگے پودوں کی بھینی بھینی مہک مجھے شاد کر دیتی ہے تو میں کیوں ٹیسٹ کرواوں، ہاں، اگر ایک بھی علامت ہوئی تو ضرورکرواوں گا تاکہ اپنے پیاروں کو اس وائرس سے محفوظ رکھ سکوں۔
چارماہ سے مسلسل عوامی سطح پر اپنی صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دینے کے باوجود اگر میں اب تک کورونا کا شکار نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے کوئی گارنٹی لے رکھی ہے کہ مجھے کورونا نہیں ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ اگر میں گھر کے اندر چھپ کے بیٹھ جاوں تو کیا ضمانت ہے کہ محفوظ رہوں گا اور رہ گئی موت وہ تو بڑی بڑی فصیلوں اور قلعوں میں بھی آجاتی ہے۔ وہ امریکااور انگلینڈ میں بھی آجاتی ہے۔ میں آپ کو یہ یقین ضرور دلا سکتا ہوں کہ اگر آپ معمول کی حفاظتی تدابیر کے ساتھ اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں، مایوسی اور ناامیدی پھیلانے والے بزدل اورمنحوس قسم کے لوگوں سے دور رہتے ہیں، کورونا کے پھیلاو اور اموات کو اپنے ذہن پر سوار نہیں کرتے تو آپ کا بدن اس وائرس کی مزاحمت کرنے کے لئے ان تمام جسموں سے کہیں زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے جو سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تھر تھر کانپتے نظر آتے ہیں۔ وہ نفسیاتی طور پر حملے سے پہلے ہی شکست کھا چکے ہوتے ہیں۔ یہ سوچ اور خوف وہ میر جعفر اور میر صادق ثابت ہوتے ہیں جو جسم اور روح کے فصیلوں کے پھاٹک اندر سے کھول دیتے ہیں اور پھر وائرس وہاں بغیر کسی مزاحمت کے دندناتا پھرتا ہے۔
جی ہاں ! مجھے ابھی تک کورونا نہیں ہوا، اگر مجھے نہ ہوا تو میرا اپنے رب کی قدرت اور رحمت پر ایمان مزید بڑھ جائے گا مگر میں اپنے رب کے بنائے ہوئے قوانین کا پابنداورپوری طرح قائل ہوں کہ اگرمجھے کورونا ہوا تو یہ بھی مجھے فائدہ دے گا۔ مجھے تنہائی میں اپنی خود احتسابی کا موقع ملے گا۔ میں اپنے بدن اور روح کی کثافتیں دور کر سکوں گا۔ اگر زندگی رہی تو کورونا کے بعد آپ کو پہلے سے بھی بہترنجم ولی خان ملے گا اور اگر زندگی نہ رہی تو یہاں کون ہمیشہ رہ سکا ہے۔