یہ سوال وزیراعظم جناب عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ جناب عبدالحفیظ شیخ سے ہے اور بہت ہی سادہ جمع تفریق سے تعلق رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک کامجموعی قرض دو برسوں میں تیس ارب ڈالر سے تینتالیس ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے یہ درست ہے کہ اس میں روپے کی گرتی ہوئی قیمت کا بھی کردار ہے مگر انہوں نے اپنی کوششوں سے حکومت قائم ہونے کے بعد آئی ایم ایف سے ایک بیل آوٹ پیکج لیا، سعودی عرب سے تین ارب ڈالرز کے ساتھ ساتھ تین برس کے لئے ادھار پر تیل لیا جس کی فراہمی ابھی گزشتہ مہینے ہی معطل ہوئی، یہ پٹرول اپنے شہریوں کو پچاس سے سو فیصد منافع تک پر بیچا گیا اور نقد وصولی کی گئی۔ کورونا کے دوران مختلف ممالک سے امداد الگ لی، ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے علاوہ چین نے تیس جون کو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر دئیے اور آئی ایم ایف اس سے پہلے نہ صرف ڈیڑھ ارب ڈالر دئیے بلکہ بارہ ارب ڈالرکی قسط کی بھی چھوٹ دی۔
معاملہ صرف تیرہ ارب ڈالرکے قرضوں کا نہیں بلکہ حکومتی دعویٰ ہے کہ جناب عمرا ن خان نے اپنی کوششوں سے 2344 ارب روپے بچائے ہیں اور یہ رقم پاکستان کے حالیہ بجٹوں میں تین ترقیاتی بجٹوں سے بھی زیادہ قرار دی جا رہی ہے، تفصیل کچھ یوں ہے ریکوڈک میں گیارہ سو ارب بچائے گئے، کارکے کے جرمانے کے دوسو چالیس ارب روپے بچے، جی آئی ڈی سی سیس کے چار سو ارب اور آئی پی پیز سے نئے معاہدے کے ذریعے چھ سو چار ارب روپے بچائے گئے۔ اب آگے جانے سے پہلے تھوڑی سی بات اس بچت پر کر لیتے ہیں۔ کار کے کے جرمانے کو ترکی کی حکومت نے کمال مہربانی کرتے ہوئے معاف کیا، جی آئی ڈی سی سیس کے چار سو ارب روپے ایک حکم نامے کے ذریعے موجودہ حکومت نے معاف کر دئیے تھے جو عدالت میں معاملہ جانے پر وصول کرنے کا حکم جاری ہوا او ر آئی پی پیز سے 604 ارب۔ جناب فرخ سلیم کے مطابق اس ایم او یو کے ایک ہزار الفاظ ہیں اوراس میں چھ مرتبہ لفظ فیوچر استعمال ہوا ہے، جسے معاہدے کا نام دیا جا رہا ہے وہ معاہدہ نہیں بلکہ ایک ہزار الفاظ پر مشتمل ایم او یو ( میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ ) ہے جس کی پاسداری مشروط ہے اور کسی پر لازم نہیں۔ اس پرعمل کرنے کے لئے حکومت کو پہلے چھ سو ارب روپے ادا کرنے ہیں اور اس سلسلے میں کے الیکٹرک نے واجبات کی وصولی کے لئے ایک اشتہار بھی اسی ہفتے اخبارات میں شائع کروا دیا ہے۔ جناب عثمان ڈار کی ٹوئیٹ کے مطابق یہاں چھ ہزار کروڑ روپوں کی بچت ہوئی ہے اور مزید یہ کہ پہلی حکومتیں ( پروڈکشن کاسٹ نہیں بلکہ کرپشن کی بنیاد پر) 21روپے کا یونٹ خرید رہی تھیں اور اب چھ روپے کا یونٹ مل رہا ہے ( جی ہاں انہوں نے حال کا صیغہ استعمال کیا ہے) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس کا بل دس ہزا ر روپے آ رہا تھا اس کو اتنے ہی یونٹوں پر اب عمران خان کی کروائی گئی بچت کے بعد ساڑھے تین ہزارروپے بل آنا چاہئے جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے بلکہ حال ہی میں فی یونٹ قیمت میں دو روپے سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
میں حکومتی دعووں اور دستیاب اعداد و شمار کو غلط نہیں کہتا مگراس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت نے معمول سے کہیں زیادہ وسائل یعنی رقوم حاصل کی ہیں اور یہ دعویٰ بھی ہے کہ موجودہ دور میں تجارتی خسارہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کلیکشن میں بھی اضافہ ہوا ہے ( اگرچہ اس کی بنیاد بھی معاشی سرگرمی نہیں بلکہ پٹرول پراضافی ٹیکسز ہیں )۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے کھربوں روپے اضافی حاصل کئے ہیں وہ کہاں جا رہے ہیں کیونکہ اس وقت معیشت کی حالت بہت بری ہے۔ پاکستان کی گراس نیشنل انکم جو 2018 میں 331.946 بلین ڈالر تھی وہ کورونا کے آنے سے بھی پہلے کم ہو کر2019 میں 297.79 ارب ڈالر اور پھر282.806 ارب ڈالر رہ گئی۔ رئیل جی ڈی پی گروتھ ریٹ جو تین برس پہلے 5.53 فیصد تھا وہ حکومت کے پہلے برس بغیر کسی کورونا آوٹ بریک کے 1.91 اور 2020 میں مائنس فور تک ( حقیقی فگر مائنس 3.8) تک گر گیا۔ یہ کھربوں روپے بچنے کے باوجود ہمارا اس برس نیٹ فیڈرل ریونیو 3942 ارب جبکہ اخراجات 7136 ارب رہے، یہ 3194 ارب کا خسارہ ہے جو جی ڈی کاسات فیصد تک بنتا ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ حکومت نے بہت تیر چلائے مگر ایک روز قبل گوجرانوالہ میں گندم 2400 روپے من فروخت ہوئی اور یہ نرخ تین برس پہلے سے تقریبا دوگنا کہے جا سکتے ہیں یعنی آٹے کی مہنگائی کا ایک نیا طوفان اور اسی طرح تین برس پہلے اڑتالیس روپے کلو ملنے والی چینی اس وقت پشاور میں ایک سو دس روپے کلو ہوچکی ہے یعنی عمران خان صاحب اگر کھربوں لائے بھی ہیں اورکھربوں بچائے بھی ہیں تو اس میں سے پاکستان کے عوام کو کچھ نہیں ملاحتیٰ کہ سرکاری ملازمین کو بھی تنخواہوں میں معمول کا دس سے پندرہ فیصد اضافہ نہیں دیا گیا مگر ٹال پلازوں سے بجلی بلوں تک میں ضرور پچاس سے سو فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر آپ احساس پروگرام کا نام لیتے ہیں تو وہ بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی کی توسیع ہے جسے سابقہ حکومتیں چلاتی رہی ہیں۔ ان اربوں کھربوں کی بچت کے بعد پاکستانی عوام ساوتھ ایشیا میں کہاں کھڑے ہیں، ایشین ڈویلپمنٹ بینک آوٹ لک کے مطابق ساوتھ ایشیا میں مالدیب میں انفلیشن مطلب افراط زریعنی مہنگائی ایک فیصد، بھوٹان میں 2.8 فیصد، ہمارے دشمن انڈیا میں تین فیصد، ہمارے جنگ سے تباہ حال ہمسائے میں پانچ فیصد۔ ہم سے جان چھڑوا لینے والے بنگالیوں کے بنگلہ دیش میں 5.6 فیصد اور نیپال میں 6.6 فیصد ہے اور ہمارے ہاں کتنی ہے، پوری 11.3 فیصد جو ابھی بارہ، تیرہ فیصدسے واپس آئی ہے۔
چلیں، عوام کو کچھ نہیں ملا اور کہا گیا تھا کہ مشکل وقت ہے تو ان اربوں کھربوں روپوں سے کوئی میگا پراجیکٹ شروع ہوا کہ ہم تو ڈیم تک کے لئے چندے مانگتے رہے اور پھر وہ چندے سنا ہے کہ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو گئے۔ آپ پاکستان کو ملنے والی رقوم چاہے وہ قرضوں کی شکل میں ہوں یا امداد کی شکل میں، ان کی جمع تفریق کر لیجئے، حکومت کی طرف سے بچت کے دعووں کو دیکھ لیجےے یہ کئی ہزار ارب روپوں کی باتیں مگر یہ کئی ہزار ارب روپے کہاں گئے اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے جن میں ادھار پٹرول سے کمائے روپے بھی ہیں جو اب اسی طرح واپس کرنے ہیں جیسے سعودی عرب نے اچانک اپنے ایک ارب ڈالر واپس مانگ لئے اور پاکستان کے پاس اس شرط پر لئے گئے ایک ارب ڈالر بھی موجود نہیں تھے کہ وہ صرف خزانے میں رکھے جائیں گے اور خرچ نہیں کئے جائیں گے۔ پاکستان نے اب تک کی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ڈالر بھی چین سے لے کر واپس کئے۔
تاثر یہ بنتا ہے کہ پہلے لاکھوں اورکروڑوں کی کرپشن ہوتی تھی اور اب اربوں اور کھربوں کے ڈاکے ہیں جیسے چینی مافیا نے اربوں کا ڈاکا مارا اور حکومت نے نہ ان سے کچھ وصولی کی اور نہ ہی چینی کا ریٹ کنٹرول کیا اور اسی طرح خزانے میں آ نے والے کھربوں روپوں اور بچت کئے جانے والے ہزاروں اربوں روپوں سے نہ عوام کو کچھ ریلیف ملا اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام ہوا۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پاکستان کے خزانے کا ایک بڑا تھرڈ پارٹی آڈٹ کیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ آنے والے کھربوں ڈالر اور بچائے جانے والے اربوں روپے کس کی جیب میں جا رہے ہیں۔ بظاہر یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکا لگتا ہے جس میں قومی خزانے کو براہ راست خالی کر دیا گیا ہے۔