کیا اس امر پر تحقیق نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کون لوگ ہیں جوملکی تاریخ کے میگاکرپشن سکینڈلز، سب سے زیادہ مہنگائی اور ناقص ترین گورننس کے باوجود حکومت کے حامی ہیں۔ ان ووٹروں اورسپورٹروں کی نفسیات کیا ہیں جو حکومت سے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی نہیں صرف اور صرف انتقام چاہتے ہیں۔ کیا ملک کی جی ڈی پی سے بھی اوپر چلے جانے والے قرضوں اور منفی میں چلے جانے والے گروتھ ریٹ کی قیمت پر بھی کچھ لوگوں کو اپنے بغض، نفرت، غصے اور انتقام کانشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کیسے سوچتے ہیں کہ جو ملک اڑھائی برس میں پہاڑ کی چوٹی سے لڑھکتا ہوا نیچے آ رہا ہے وہ اگلے اڑھائی برس میں دوبارہ بلندی پر پہنچ جائے گا۔ ان کے دلوں میں ایک شخص نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اتنا زہر کیوں بھر دیا ہے اور انہوں نے سوچتے سمجھتے ہوئے بھی زہر کے یہ پیالے کیوں پی لئے ہیں؟
آج سے دو اڑھائی برس پہلے یہ بات صرف علم، عقل اورتجربہ رکھنے والے ہی بیان کر سکتے تھے اور بیان کر رہے تھے کہ نفرت کی بنیاد پرکبھی ترقی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، وہ جانتے اورسمجھتے تھے کہ کنٹینر سے تعمیر کی نہیں تخریب کی بات کی جار ہی ہے۔ میں آپ کو عام سی انسانی نفسیات بتا رہا ہوں کہ اگر آپ ہر وقت اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے سرگرداں رہیں گے تو آپ کے پاس اپنی عزت اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے وقت اور دماغ ہی نہیں رہے گا۔ جس طرح خوشبو اوربدبو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اسی طرح تخریب اور تعمیر ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حکومت اپنی آدھی مدت پوری کرنے جا رہی ہے اوراس کے کریڈٹ پر عوام کے لئے لنگر خانوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ اس کا موازنہ سابق دور سے اس طرح کر سکتے ہیں جب طالب علموں کو لیپ ٹاپ مل رہے تھے، انڈوومنٹ فنڈ کے تحت تعلیم کا خرچ حکومت اٹھا رہی تھی، بیرون ملک تعلیم کے لئے سکالر شپس مل رہے تھے اور اس دورمیں ملک کا چیف ایگزیکٹو ویہلے اورنکھٹو لوگوں کو جمع کر کے ان میں سالن کی پلیٹیں تقسیم کر رہا ہے اور اس کی تصویریں بنوا کے واہ واہ کروا رہا ہے اورمیں اتنا جانتا ہوں کہ قومیں اور افراد کبھی بھیک سے ترقی نہیں پاتے، ترقی صرف محنت سے ہوتی ہے۔
میں بازار میں جاتا ہوں تومجھے اپنی صحافتی زندگی میں پہلی مرتبہ آٹا سرکاری ریٹ پر نہیں ملتا، میں نے ابھی گذشتہ شام ہی آٹے کا پندرہ کلو کا تھیلا ساڑھے نو سو روپوں میں خریدا ہے یعنی فی کلو تریسٹھ روپوں سے بھی زیادہ، چکی کا آٹا اسی روپے کلو ہے جبکہ آٹے کے بیس کلو کے تھیلے کا سرکاری ریٹ آٹھ سو ساٹھ روپے ہے یعنی تینتالیس روپے کلو، یہ آٹے کے ہر کلو پربیس سے بھی زائد روپے کسی نہ کسی کی جیب میں تو ضرور جا رہے ہیں اور یہی حال چینی کا ہے جو ایک سو دس روپے کلو پر پہنچ چکی ہے جبکہ اس کا عدالت سے تمام اخراجات کے ساتھ طے شدہ ریٹ ستر روپے فی کلو ہے اور یہ چالیس روپے بھی کوئی نہ کوئی مافیا وصول کررہا ہے۔ پٹرول کے اوپر خود حکومت ناجائز منافع خوری کر رہی ہے اور عالمی منڈی کا سستا ترین پٹرول ہمیں بین الاقوامی سطح پرفی لیٹر قیمت سے بھی زیادہ کے ٹیکسوں کے ساتھ بیچا جا رہا ہے اور اس بجلی کی قیمت مزید بڑھ گئی ہے جس کے بارے خود بتایا تھا کہ بجلی سازکارخانوں کے ساتھ بات چیت کے نتیجے میں ریٹ کم کر لیا گیا ہے۔ مجھے سرکاری بھونپو بتاتے ہیں کہ ماضی میں کرپشن ہوتی تھی اور اب ایک کرپشن فری حکومت ہے۔ ہمارے پاس ایک ایسا وزیراعظم ہے جو ا ن کے مطابق کسی سے پانی کے ایک گلاس کا بھی روادار نہیں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کا گذشتہ بیس بائیس برسوں سے سیاست کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں ہے مگر وہ اسی دوران کروڑ سے ارب پتی ہوچکا ہے۔ وہ خود وزیرصحت ہیں اور انہوں نے اب تک تین مشیر صحت، عامر کیانی، ظفر مرزا اور فیصل سلطان مقرر کئے ہیں جنہوں نے سوا دوبرس کی قلیل مدت میں چھ مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے، ان میں سے پہلے دومشیر کرپشن کی شدید ترین شکایات کے بعد، مگربغیر کسی کارروائی اور احتساب کے، رخصت کئے گئے ہیں۔ میں اسی شہر اورملک کا رہنے والا ہوں اوراپنی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مارکیٹنگ سٹریٹیجی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ ایک ڈاکٹر کو محض اپنی دوانسخے میں لکھنے کے عوض کانفرنسوں میں شرکت کے نام پر یورپ کی بمعہ خاندان سیریں کروا دیتی ہیں، نئی ٹویوٹا کورولا گفٹ کر دیتی ہیں، پورے کے پورے کلینک بنوا دیتی ہیں تو پھر یہی دوا ساز کمپنیاں اپنی انہی ادویات کی قیمتوں میں پانچ، پانچ سو فیصد تک اضافے کے لئے کیا نہیں کرتی ہوں گی۔ نور مہر، ڈرگ لائزر فورم کے صدر ہیں، بتاتے ہیں کہ ایک دوا کی قیمت میں اس کی تیاری کے اخراجات صرف دس سے پندرہ فیصد ہوتے ہیں، پچاس پچاس فیصد سے زائد مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ یہاں میں صرف کامن سینس رکھنے والوں کو سوچنے کی دعوت دوں گاکہ اگر ایک کمپنی قیمتوں میں اضافے سے دس ارب روپے بناتی ہے تواس کے لئے کیا گھاٹا ہے کہ وہ اس کا دس یا بیس فیصد بطور رشوت پیش کر دے؟
حکومت نے اس برس جو بجٹ دیا ہے اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ا یک فیصد بھی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ ٹیکس ری بیٹ اور دیگر مدات میں بہت سارے سرکاری ملازمین نے بجٹ سے پہلے کے مقابلے میں کم تنخواہ وصول کی ہے جبکہ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ میں یہ ساری صورتحال اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ میرے ملک کے چیف ایگزیکٹوکی اس تمام صورتحال کے باوجود تمام ترتوجہ صرف سیاسی مخالفین کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے پر ہے۔ وفاقی حکومت کے زیر اثر ادارے سیاسی مخالفین پر مقدمہ درج کروانے کے لئے کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں آئی جی کو اغواکرنے تک سے گریز نہیں کرتے اور اس کے بعد بیان یہ دیا جاتا ہے کہ انہیں اپنے سیاسی مخالف کو لندن سے واپس لانے کے لئے اگر خود بھی جانا پڑے تو وہ جائیں گے، وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کے کہتے ہیں کہ وہ ان سے خود نمٹیں گے۔ نفرت کا یہ عالم ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے سیاسی مخالفین دوبارہ اقتدارمیں آگئے تو وہ ان کے خلاف عوام کو لے کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اورمیں سوچ رہا ہوں کہ وہ کون لوگ ہوں گے جو اس کارکردگی کی حامل سیاسی جماعت کے لئے سڑکوں پر نکلیں گے اور مقصد ملک کی تعمیر و ترقی نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف نفرت ہو گا۔ گذشتہ دور میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی، دہشت گردی پر قابو پایا گیا، موٹرویز سمیت ملکی انفراسٹرکچرمیں بیش قیمت اضافے ہوئے، جی ڈی پی اور گروتھ ریٹ سمیت اقتصادی اشاریوں میں عروج آیا اور اب ہم اڑھائی برس بعد کہاں کھڑے ہیں، ہم موجودہ دور میں اس نفرت بھری سیاست کی بہت بڑی قیمت چکا چکے اور اس سے پہلے اپنا آدھا ملک اسی نفرت کی وجہ سے گنوا چکے۔ میں تاریخ کے طالب علم کے طور پرجانتا ہوں کہ آگ میں پھول کبھی نہیں کھلتے، شعلوں میں گھر کبھی نہیں بنتے، میں اس سیاسی گروہ کی نفرت اورغصے کی آگ دیکھتا ہوں تو مجھے ڈرلگتا ہے کہ یہ باقی ماندہ گھر کو بھی جلا کے راکھ کر دے گی اور یہ گھر صرف میرا نہیں ہے بلکہ نفرت کی آگ میں جلتے ہوئے پاگل ہوجانے والوں کا بھی ہے۔