نصیراحمد مجھے لاہور ریور راوی فرنٹ منصوبے کے خلاف محمود بوٹی انٹرچینج پر مظاہرہ کرنے والوں میں ملا تھا جب میں اس علاقے کے لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ یہ حکومت کی طرف سے شروع کیا جانے والا یہ پراجیکٹ علاقے کی شکل اورقسمت بدل دے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس منصوبے کوزندہ کر دیا ہے جسے پرویز الٰہی اورشہبازشریف کی حکومتیں عوامی مفاد کے خلاف پا کر ترک کر چکی تھیں۔ اب حکومت نے جہاں اس پراجیکٹ کے ایریا کو بڑھا کر ایک لاکھ ایکڑ سے بھی زیادہ کر دیا ہے وہاں دعویٰ کیا جا رہاہے کہ تیس برسوں میں پانچ کھرب روپوں کی سرمایہ کاری ہو گی۔ حکومت یہاں پرگندے نالے کی صورت بہنے والے دریائے راوی پر ایک جھیل بھی بنانا چاہتی ہے جس کا منصوبہ قیام پاکستان کے دو برس بعد ہی اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے تیار کر لیا تھا اور اس جھیل کے ساتھ وہی لوگ بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائیٹیاں بھی بنانا چاہتے ہیں جو اس وقت لاہور کے ارد گرد ان کا ایک جنگل آباد کر چکے ہیں۔
آپ کہیں گے کہ لاہور میں دریائے راوی کے ساتھ کھربوں روپوں کے چھیالیس کلومیٹر پر مشتمل منصوبے میں یہ نصیر احمد کہاں سے آ گیا تو مجھے اس کا تعارف یہ کہتے ہوئے کروانا ہے کہ لاہور ریور راوی فرنٹ پراجیکٹ کتنا عوام دشمن ہے اس کی وضاحت نصیر احمد سے بڑھ کر کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا جو وہاں کی ایک مقامی آبادی میں دو مرلے کے گھر میں رہتا ہے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں دو مرلے میں رہنے والے نصیر احمد کا پیغام چھ ہزارمرلوں ( تین سو کنال) کے رہائشی جناب عمران خان تک پہنچا سکوں جنہوں نے پندرہ ستمبر کو اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ منصوبے کے باقاعدہ آغاز کے بعدنومبر کے شروع میں اس پورے علاقے میں گھروں، دکانوں، کارخانوں سمیت تمام عمارتوں پر سرخ نشانات لگنے شروع ہو گئے ہیں۔
یہاں بارہ سے پندرہ لاکھ آبادی، ڈیڑھ ہزارچھوٹے بڑے کارخانے اورتین سو گاوں آباد ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے ملک کے دوسرے بڑے شہر کے لئے سبزیوں اوردودھ کی سپلائی ہوتی ہے۔ اسی علاقے میں نصیر احمد کا دومرلے کا وہ گھر ہے جو اس نے چار لاکھ روپے مرلہ زمین لیتے ہوئے بنایا تھا اور وہاں وہ اپنے والدین اوربیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے اور یہاں دو، دو اورتین، تین مرلوں میں ر ہنے والے بے شمار نصیر احمد ہیں، بہرحال، اس نصیر احمد نے یہ زمین آٹھ لاکھ روپے میں لی تھی اور گھر بنانے پر اس کی زندگی بھر کے جمع کئے ہوئے باقی پانچ لاکھ روپے بھی خرچ ہو گئے تھے۔ یہ گھر مجموعی طور پر اس کو تیرہ، چودہ لاکھ روپوں میں پڑا تھا جس کی مارکیٹ ویلیو اب سولہ، سترہ لاکھ روپے بیان کی جا رہی ہے۔ عمران خان بڑی بڑی ہاوسنگ سوسائیٹیوں والوں کے لئے جس کنکریٹ کے جنگل کی بنیاد رکھ رہے ہیں وہاں ان نصیر احمدوں کے گھر گرانے کے لئے انہیں معاوضہ دیا جا رہا ہے مگر یہ معاوضہ سرکاری ریٹ کے مطابق ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے مرلہ ہے یعنی دو مرلوں کے گھر کے تین لاکھ بیس ہزار روپے۔
میں جب نصیر احمدسے ملا تھا تو اس نے گہرے نیلے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے مگراس گہرے نیلے رنگ میں وہ کالک جگہہ جگہہ نمایاں تھی جو ہمارے انڈسٹریل ورکرز کے ہاتھوں اور پاوں کا جزو لاینفک ہوتی ہے۔ یہ بات نہیں کہ اس مظاہرے میں کروڑاورارب پتی نہیں تھے، وہ بھی بڑی تعداد میں تھے جن کی فیکٹریاں ہی پچاس، پچاس کروڑ کی ہیں اور جن میں قیمتی امپورٹڈ مشینریاں لگی ہیں اور ان پر بھی سرخ نشان لگ چکے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے برس ہا برس کی محنت کے بعد اپنے کارخانے کھڑے کئے ہیں۔ وہ کاشتکاربھی تھے جنہوں نے جناب حامد میر کے پروگرام میں بھی شرکت کی تھی اور بتا رہے تھے کہ لاہور اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا گندا ترین شہر بن چکا ہے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ گرین ایریا رکھا جائے مگر یہاں وہ گرین ایریا ختم کیا جا رہا ہے جو لاہور والوں کی غذائی ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور اگر یہ علاقہ بھی شہر بن گیا تو پھر لاہور میں آلو، پیاز وغیرہ وغیرہ سب مزید مہنگے ہوجائیں گے اور خالص دودھ ایک خواب بن جائے گا۔ یہ فیکٹریاں ختم ہوئیں تو ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مزدوربے روزگار ہوجائیں گے اور علم نہیں کہ جب ایک فیکٹری ختم ہو گی تو وہ دوبارہ ایک برس میں کھڑی ہو گی یا پانچ برسوں میں یعنی اسکے نتیجے میں اس علاقے میں فوری طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک طوفان آجائے گا، یہی مکالمہ نوجوان مزدور خلیل کاتھا، وہ مجھے بتا رہا تھا کہ اس نے لاک ڈاون کا عرصہ بہت مشکل کے ساتھ گزارا ہے۔ اس کی تین بہنیں ہیں جن کی اس نے شادیاں کرنی ہیں لیکن اگر اس کا روزگار اور گھر ہی نہ رہا تو وہ کہاں جائے گا۔ مجھے اس کا سوال یاد ہے، وہ پوچھ رہا تھا، سرجی! غریب کے پاس پیسے تو نہیں ہوتے مگرکیا اس کی عزت بھی نہیں ہوتی؟
ہوسکتا ہے کہ آپ کو اربوں کھربوں روپوں کے خواب اتنے ہی اچھے لگتے ہوں جتنی آپ کوکنٹینر پر کی گئی تقریریں اچھی لگتی تھیں اور اس کے نتیجے میں اس وقت مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، اقتصادی تباہی ہے۔ میں نے ایک حکومتی بندے سے پوچھا کہ یہ پانچ کھرب روپے کہاں سے آئیں گے تو جواب ملا کہ بیرون ملک پاکستانی دیں گے، وہ یہاں پر پلاٹ خریدیں گے۔ میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ وہ علاقے کبھی آباد نہیں ہوتے جو نصیر احمدوں کے دو، دو مرلے کے گھر گرا کر بنائے جائیں۔ جن کی بنیادوں میں بے روزگار ہوجانے والوں کے آنسو ہوں، آہیں ہوں۔ نصیر احمد جمع تفریق کر رہا تھا کہ اس کے سولہ، سترہ لاکھ مالیت کے گھر میں اس کا نقصان تیرہ، چودہ لاکھ کا ہوجائے گا۔ وہ کم و بیش اپنی آدھی زندگی گزار چکا ہے اور اپنی باقی آدھی زندگی بھی گدھے کی طرح کام کرتا رہے تو دوبارہ اتنی رقم نہیں بچا سکتا کہ ایک اور گھر بنالے۔ میاں مدثر اورمیاں مصطفی رشید کہہ رہے تھے کہ حکومت جمع تفریق کرے تو وہ تیس برسوں میں یہاں سے جتنی کمائی کرنا چاہتی ہے اس سے زیادہ تو یہاں کی فیکٹریوں سے پروڈکشن کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں سے کرسکتی ہے مگرمیرا خیال بھی یہی ہے کہ معاملہ تیس برس کی کمائی کا نہیں ہے۔
نصیر احمد کے سوالوں کے جواب دینے کے لئے پی ٹی آئی کا کوئی رہنما دستیاب نہیں کیونکہ ان کے پاس اس کا جواب ہی نہیں کہ وہ اپنا تیرہ، چودہ لاکھ کاگھاٹا کس سے پورا کرے، ہاں، لفاظی بہت ہے، سبز باغ بہت ہیں۔ اب میرے خیال میں اس سوال کا جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں جو لاہور کی زراعت، صنعت اور دیہات تباہ کر کے ایک ایسا منصوبہ بنانا چاہتے ہیں جواس سے پہلے دو حکومتیں اپنے عوام کی وجہ سے ختم کرچکی ہیں۔ نصیر احمد سمیت دیگر کہتے ہیں کہ حکومت راوی کی جگہ پر جھیل ضرور بنائے مگر کنکریٹ کا ایک نیا شہر بنانے کا منصوبہ ترک کر دے اور اسے کسی غیر آباد جگہ پر لے جائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کئی کلومیٹر لمبی جھیل کے کنارے ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنانے کے خواہش مندبڑے بڑے پیٹوں والے سیٹھ ہیں۔ جن کے مونہوں سے ابھی پانی بہنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک سیٹھ نے تو نقشے دکھا کے بکنگ بھی شروع کر دی ہے۔ کہتے ہیں کہ دو مرلے کے گھر میں رہنے والے نصیر احمد کا پیغام عمران خان تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اس پراجیکٹ میں حکمرانوں کی رشوت ہی اتنی بنتی ہے کہ دو، دو مرلے کے کئی گھر لینڈ مافیا کے دئیے ہوئے نوٹوں سے بھر سکتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ عمران خان اپنے گھر کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ اپنے گھر کی اہمیت اوراس سے محبت کو نہ سمجھتے تو کیا بنی گالہ کی غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کروانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دیتے۔ کیا وہ نصیر احمدکا دومرلے کا بنی گالہ بچانے کا حکم دیں گے؟