مولانا: آئیے، آئیے میاں صاحب، آگئے آپ اکیلے ہی جیت کے، آپ کو بھائی کا خیال آیا نہ ان قسموں اور وعدوں کا، وفاق اور صوبے میں اپنی حکومتیں بنوا لیں، ہمارے بارے سوچا تک نہیں، آہ، غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔
نواز شریف: نہیں نہیں مولانا، آپ تو ایسے مت کہیں، ہمارے ساتھ تو خود ہاتھ ہوگیا۔ مجھے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے بلوایا اور سادہ اکثریت تک نہیں دی۔ مجھے مانسہرے سے، پارٹی کو فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا تک میں ہروا دیا۔ الٹا ہم پر ہی دھاندلی کے الزامات لگوا دئیے۔ حد تو یہ ہے آپ پی ٹی آئی سے ہارے اورہم پر ہی چڑھائی کردی۔
مولانا: آپ پر چڑھائی نہ کرتا تو پھر کس پر کرتا۔ دھرنوں سے آٹھ فروری والے الیکشن تک، آپ کا میں نے ہر موقعے پر ساتھ دیا مگراصل شکوہ تو مجھے شہباز شریف کے دوستوں، سے ہے۔ کب سے ان سے دوستی نبھا رہے ہیں مگر جب ان کا دوستی نبھانے کا وقت آیا تو ہمیں جھنڈی کروا دی۔
نواز شریف: جی، جی، مجھے علم ہے کہ آپ دوستوں سے تب سے دوستی نبھا رہے ہیں جب آپ نے اور زرداری صاحب نے بلوچستان میں ہماری حکومت ختم کروائی تھی۔ وہ پراجیکٹ عمران کا آغاز تھا اور اب وہی پراجیکٹ آپ کے گلے پڑ گیا ہے۔ ویسے مولانا کیا آپ کا ہم سے شکوہ بنتا ہے۔ پھر کہوں، ہارے آپ پی ٹی آئی سے ہیں اور گاجر کے حلوے بھی انہیں ہی کھلا رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
مولانا: ہاں، میں انہیں یہودی ایجنٹ کہتا رہا مگر اب کیا کروں۔ میرا خیال تھا کہ پرویز خٹک، امیر مقام، اسفندیار کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا کی حکومت بناوں گا، بلوچستان میں اقتدار میں آوں گا اورسب سے ضروری کہ میں صدر مملکت بنوں گا۔ میرے تو سب خواب ہی ٹوٹ گئے۔ اب پانچ برس بعد کی کیا امیدیں رکھوں۔ اب تو جو ہوگا وہ اب ہی ہوگا۔ دما دم مست قلندر کردوں گا۔ اب میں آپ کی نہیں بلکہ آپ کے بھائی کے دوستوں کی اپوزیشن میں ہوں۔ انہوں نے میرا پیار دیکھا ہے میرا غصہ نہیں دیکھا۔
نواز شریف: پتا نہیں آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے شہباز نے بتایا ہے کہ اس کے دوست بھی سخت پریشان ہیں۔ انہیں بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہوگیا ہے۔ وہ اسے میچور رسپانس کہہ کے خود کو تسلی دے رہے ہیں جس میں نو مئی کے واقعات کے ملزمان کو سزاوں کی بجائے دھڑا دھڑ ضمانتیں ہو رہی ہیں، وہ مفرور اور اشتہاری ہونے کے باوجود الیکشن لڑ رہے اور جیت رہے ہیں، وزیراعلیٰ بن رہے ہیں۔ شہباز کے دوست پریشان ہیں کہ نو مئی کے واقعے کی سب سے پہلی سزا تو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کو مل گئی جنہوں نے دوستوں کی سفارش پر ہی شہر یار آفریدی اور شاندانہ گلزار کو گرفتار کیا تھا۔ سچ تویہ ہے کہ کسی کوبھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے۔
مولانا: سمجھ تو مجھے بھی نہیں آ رہی۔ کس سے مشورہ کریں کہ ہم کیا کریں۔ کوئی سیانا بندہ نظر میں ہو تو بتائیں۔
نواز شریف: میں خود بہت سیانا ہوں۔ آپ دیکھ لیں کہ میں نے پرویز مشرف کے مارشل لا کو شکست دی اور وزیراعظم بنا۔ اب بھی میرا بہت ہی وفادار بھائی وزیراعظم اور بیٹی وزیراعلیٰ بن گئی ہے۔ اب آپ یہی سمجھیں کہ میں خود ہی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہوں۔ بس آپ بھی غصہ تھوکیں اور حکومت میں آ جائیں۔ مل کر ہم حکومت کرتے ہیں۔ پانچ برس بعد دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
مولانا: نہیں، نہیں، میں حکومت میں نہیں آسکتا۔ میرے تو اپنے رشتے دار تک ہار گئے۔ میں گھر کیسے جواب دوں گا۔ ویسے بھی پی ٹی آئی نے جس طرح چڑھائی کی ہوئی ہے مجھے تو آپ کی بھی یہ آخری حکومت ہی لگتی ہے۔ ہمیں اپنا مستقبل بھی دیکھنا ہے۔ آپ کا سوشل میڈیا تو ہم سے بھی ٹھنڈا ہے حالانکہ ہم آپ سے چھوٹی جماعت ہیں۔ آپ تو اپنی ایم پی اے کو ملنے والی گندی گندی گالیوں تک کا جواب نہیں دے سکے تو آپ ہماری لڑائی کیا لڑیں گے، چلیں چھوڑیں، آپ بتائیں، آپ وزیراعظم کیوں نہیں بنے؟
نواز شریف: کیا یہ اچھا لگتا کہ میں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لونڈوں لپاڈوں کی ٹکے ٹکے کی باتیں سنتا پھروں۔ اجلاس کا پہلا دن تھا اور اگر میرے ایم این اے میرے گرد حصار نہ بنا لیتے تو وہ حملہ ہی کر دیتے۔ اب بھی عمران خان والا ماسک مجھ پر پھینکا گیا شکر ہے کہ وہ شہباز شریف نے کیچ کر لیا۔ مجھے اپنے بھائی پر فخر ہے وہ ہمیشہ مجھ پر آنے والی مصیبت کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ خدا ایسا بھائی سب کو دے۔ ویسے اس سے ہٹ کر بھی میرا خیال ہے کہ مجھے بھی دوستوں کو پیغام دینا چاہئے کہ میں ناراض ہوں۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ آپ نے اپنی مشکل دور کرنے کے لئے مجھے باہر سے بلایا۔ میرے سزائیں اور نااہلیاں بھی ختم کروائیں اور لنگڑی لُولی حکومت پکڑا دی، میں نہیں لیتا ایسی حکومت۔
مولانا: ہاہاہا، اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی مانتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے؟
نواز شریف: میں تو یہ مانتا ہوں کہ میرے خلاف دھاندلی ہوئی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ این اے پندرہ میں میرے جیتے ہوئے سوا سو پولنگ اسٹیشنوں کا رزلٹ ہی نہیں دیا گیا اور مجھے ہرا دیا گیا۔ مجھے پہلے ہی پتا چل گیا تھا اسی لئے میں کہا بھی تھا کہ ہمیں سادہ اکثریت نہ ملی تو میں وزیراعظم نہیں بنوں گا۔ جب میں وزیراعظم ہوتا ہوں تب ہی موٹرویز بنتی ہیں، آپریشن ضرب عضب ہوتے ہیں، لوڈ شیڈنگ ختم ہوتی ہے۔ اب مجھے نہیں لائیں گے تو ان کا اپنا ہی نقصان ہے۔ ویسے جہاں تک دھاندلی کی بات ہے تو کیا خیبرپختونخوا میں الیکشن امام کعبہ نے کروائے ہیں اور پنجاب میں راجا سلطان سکندر نے۔ خواہ مخواہ کی بونگیاں ماری جار ہی ہیں۔
مولانا: اس کا مطلب کہ ہمارا اور آپ کا دکھ ایک جیسا ہے۔ آپ کو بھی چاہئے تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے، سب کو لگ پتا جاتا۔۔
نواز شریف: اپوزیشن میں بیٹھ جاتے توشہباز وزیراعظم اور مریم وزیراعلیٰ نہ بنتی، ہمارے ساتھ پھر وہی ہوتاجو ساڑھے تین، چار برس ہوتا رہا۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہم دوبارہ جیلوں میں چلے جائیں۔ ہم پر جھوٹے مقدمات ہوں۔ جو پولیس اب ہمیں پروٹوکول دیتی ہے وہی پولیس ہمیں پکڑ پکڑ کے جیلوں میں ڈالتی رہے۔
مولانا: مگر آپ اس طرح عمران خان کاسیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔
نواز شریف: اس فتنے کو جنہوں نے بنایا ہے وہی جانیں کہ اس کا خاتمہ کس طرح کرنا ہے۔ میرا ذمہ اوش پوش ہے۔ بہرحال ہمارا اتفاق یہ ہوا کہ ہم دونوں ہی دُکھی ہیں، آئیں گلے ملیں۔
مولانا: میں نہیں ملتا۔ میں آپ سے زیادہ ناراض ہوں۔ آپ جائیں۔ میں آپ سے نہیں بولتا۔
نواز شریف: میں بھی آپ سے نہیں بولتا۔ میں گھر جا رہا ہوں۔ خدا حافظ
(فرضی مکالمہ)