اس وقت چند واٹس ایپ گروپوں کے علاوہ ہر جگہ اس پر اتفاق رائے ہے کہ اگلے وزیراعظم میاں نواز شریف ہوں گے یعنی چوتھی مرتبہ وزیراعظم۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے اور جو پاکستان کے سیاسی حالات میں ہیں مجھے اس میں کوئی شخص ان کا یہ ریکارڈ توڑتا ہوا نظر نہیں آتا، چلیں، چوتھی مرتبہ تو ابھی وزیراعظم بننا ہے، مجھے اپنی زندگی میں کوئی تیسری مرتبہ بھی وزیراعظم بنتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
میاں نواز شریف نے مانسہرہ میں تقریر کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا کہ وہ وزیراعظم بننے کے لئے نہیں بلکہ الیکشن لڑنے کے لئے آئے ہیں۔ اس فقرے نے بہت ساروں کو چونکا دیا۔ سازشی تھیوریاں یہی چل رہی ہیں کہ نواز شریف وزیراعظم نہیں بن رہے۔ میں نہیں جانتا کہ تمام مقدمات سے بری ہونے اور تاحیات نااہلی والے فیصلے سے نجات ملنے کے بعد ان کے راہ کی رکاوٹ کیا ہوگی، چلیں، اگر یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف وزیراعظم نہیں بن رہے تب بھی یہ امر طے شدہ ہے کہ سوشل میڈیا کا وزیراعظم گراونڈ پر وزیراعظم نہیں بن رہا۔
میرا مشاہد ہ ہے کہ نواز شریف جب کسی آزمائش سے سرخرو ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت کی ذات انہیں مزید نواز دیتی ہے جیسے اب کہا جا رہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہوں گے اور ان کی صاحبزادی وزیراعلیٰ پنجاب۔ اُمیدوار تو ایک بار پھر حمزہ شہباز بھی ہیں مگر حتمی فیصلہ خود میاں نواز شریف کا ہوگا۔ نواز شریف اپنی بیٹی کو جتنی اہمیت دے رہے ہیں اس میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بننا بھی ایک الگ ہی اعزاز ہوگا۔
یہ ربع صدی سے زائد کی کوشش ہے کہ نواز شریف کے خلاف بات کرنے کوفیشن بنا دیا گیا ہے کہ اگر آپ خود کو جدت پسند اور ایماندار ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو موجود قیادت سے بے زاری ظاہر کیجئے۔ یہ کام نوے کی دہائی میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ وہ تیسری قوت کے طور پر خود منوا سکتی ہے اوراس کے لئے قاضی حسین احمد نے بہت محنت بھی کی مگرظالمو قاضی آ رہا ہے، کا کرشماتی نعرہ نہ چل سکا۔ مجھے یاد ہے کہ پرانی، چھوٹی سی رائے ونڈ روڈ پر اڈہ پلاٹ کے بس سٹاپ پر ایک جلسہ بھی کیا گیا تھا۔ جماعت نے نواز شریف کو گالی دے کر مقبول ہونے کی کوشش کی مگر نہ ہوسکی مگر عمران خان ہو گئے۔
عمران خان نے بھی تمام وہی چینلز استعمال کئے وہ جماعت کے پاس تھے۔ نوجوان نسل اور اینٹی نواز۔ آج میں بلاول کو دیکھتا ہوں تو وہ بھی مجھے وہی روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نجانے کس نے انہیں کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کو بُرا بھلا کہنے سے مقبولیت اور کامیابی ملتی ہے۔ نوے کی دہائی سے ایک ہی فارمولہ آزمایا جا رہا ہے حالانکہ کامیابی محنت سے ملتی ہے، عوام کی خدمت سے ملتی ہے، قومی تعمیر و ترقی سے ملتی ہے۔ میر امشورہ تھا، تم نواز شریف سے زیادہ بڑے اورمقبول لیڈر بننا چاہتے ہو تواسے برا بھلا کہے بغیر بنو۔ جواب میں سوال ہوا وہ کیسے۔
جواب تھا کہ جب تم ایک لائن کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا بنانا چاہتے ہو تواس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ تم اس سے لمبی لائن لگا دو۔ پہلی والی لمبی لائن خود بخود چھوٹی ہوجائے گی۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ کوئی نواز شریف سے زیادہ ریلیف دے دیتا، ترقیاتی کام کروا دیتا، موٹرویز اور میٹروز بنادیتا مگر وہ تو کٹے وچھوں میں پھنسا رہا، مخالفین کے جیلوں سے اے سی اتارنے کو ہی اپنی فکر اور کوشش کی انتہا سمجھتا رہاحالانکہ یہ پستی کی انتہا تھی۔
عمران خان کے پا س بھی یہی راستہ اور یہی فارمولہ تھا مگر وہ سامنے والی لائن کو پاؤں سے مسل کر اپنی لائن کو بڑا ثابت کرنا چاہتا تھا اور اسی میں پاوں تڑوا بیٹھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان جو انڈرسٹیندنگ تھی وہ میرے اندازے اور مطالعے کے مطابق تاریخ میں کسی بھی سیاستدان کو میسر نہیں آئی۔
میں نے وہ تصویریں دیکھی ہیں جن میں فوج کا سربراہ قربان ہوجانے والی نظروں سے اس کی طر ف دیکھ رہا تھا۔ ابھی چند روز قبل سینئر صحافیوں کو دئیے گئے ظہرانے میں عبدالعلیم خان اس امر کی نشاندہی کر رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ اس وقت کا آرمی چیف ہو یا آئی ایس آئی کا سربراہ، وہ باقاعدہ وزیراعظم سے ملاقات کے لئے انتظار کیا کرتے تھے اور اس کا برا بھی نہیں مناتے تھے جبکہ اس سے پہلے تو یہ صورتحال تھی کہ بڑی میز کے دوسری طرف بٹھانے پر بھی ناراض ہوجاتے تھے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ انیس سو ترانوے سے لے کر ابھی ایک برس پہلے تک جو اسٹیبلشمنٹ کی جو نفرت نواز شریف سے تھی جو پرویز مشرف اوراس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں اپنی انتہا کو پہنچی۔
میں بارہا کہہ چکا کہ کوئی دو بار کی جلاوطنی کو اچھا کہے یا بُرا، نواز شریف نے مشکل وقت کو صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔ میں نواز شریف کو دیکھتا ہوں تو قرآن پاک کی اس آیت کی عملی تفسیر مل جاتی ہے کہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ورنہ یہ کب ہوا ایک شخص سے حکومت چھین کے مارشل لا لگ گیا اور پھر وہی شخص مارشل لا کو شکست دے کر دوبارہ وزیراعظم بن گیا۔ پھر اسے جیل میں ڈالا گیا اور پھر طاقت مل گئی۔ یہ پچھلے چالیس برسوں سے عروج و زوال کی سب سے انوکھی اور سب سے شاندارداستان ہے۔
اب کوئی مانے یا نہ مانے، قوم کو اس پر منایا جا چکا ہے کہ ملک کو معاشی گرداب اور اقتصادی گرداب سے نواز شریف ہی نکال سکتے ہیں۔ نواز شریف کتنے مطمئن اور کتنے پرسکون ہیں اس کا اندازہ ان کی انتخابی مہم سے ہی لگا لیجئے کہ راوی چین ہی چین لکھتاہے۔ بلاول بھٹو کہہ رہے ہیں کہ نواز لیگ نے تو اب تک منشور بھی نہیں دیا اورمیرا کہنا ہے کہ نواز شریف کی سابق کارکردگی ہی ووٹر کے اس اعتماد کے لئے کافی ہے کہ وہ ملک کوجدت، قوم کو طاقت اور عوام کو خوشحالی دے سکتے ہیں۔
نواز شریف اب شریف خاندان اور مسلم لیگ نون کی ضد بن چکے ہیں لہذا یہ ضد تو پوری ہوگی، اس کے بعد کیا ہوگا اور کون ہوگا وہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس صدی کی دوسری دہائی کو جس تجربے میں ضائع کیا ہے اس کا نتیجہ بہت خوفناک نکلا ہے۔ بالکل اتنا ہی خطرناک جیسے کوئی اناڑی تجربہ کرتا ہے اور لیبارٹری ہی میں دھماکا کروا بیٹھتا ہے۔ اب نواز شریف ایک بار پھر واحد آپشن کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اگر ا س آپشن سے ہٹا گیا تو پھر رسک ہی رسک ہے۔
دعا ہے کہ نواز شریف اپنے دکھ کو قابو میں رکھ سکیں اور زیادہ سے زیادہ شکر ادا کر سکیں کہ رب نے انہیں عزت بھی دی، دولت بھی دی، حکومت بھی دی۔ جس کے بعد رب پر توکل بڑھ جائے، نعمت بڑھ جائے وہ آزمائش بھی ایک انعام ہوتی ہے۔