آپریشن رجیم چینج، کی اصطلاح پروپیگنڈہ کرنے والے گروہ کی طرف سے عمران خان کو عین آئینی اور پارلیمانی تقاضوں کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے الگ کرنے کی کارروائی کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو ہماری موجودہ سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا فکری مغالطہ اور دانشورانہ گمراہی ہے۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جسے عمران خان کی بہت زیادہ حمایت کرنے والی اس وقت کی سپریم کورٹ کی مقتدرہ بھی اپنے فیصلے میں نہ صرف درست قرار دے چکی ہے بلکہ اس پر آئین سے بغاوت کی کارروائی کی سفارش بھی کرچکی ہے۔
آپریشن رجیم چینج دراصل وہ تھا جس کی نشاندہی مسلم لیگ نون کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے قائداور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے کی۔ انہوں نے ا س آپریشن رجیم چینج میں ہونے والے لندن پلان اوراس کے تمام تر کرداروں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا۔ نواز شریف اسے دوسری دہائی کی تمام تر پراسرار سرگرمیوں تک محدود رکھ رہے ہیں جس میں پی ٹی آئی کے لاہور میں ہونے والے جلسے کی مشکوک کامیابی، اس کے بعد ہونے والے دھرنے، خود نوازشریف کو نااہل کیا جانا اور اس کے بعد آر ٹی ایس بٹھا کے عمران خان کو اقتدار میں لایا جانا شامل ہے۔
اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو آپریشن رجیم چینج اس صدی کی دوسری دہائی نہیں بلکہ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں شروع ہوا تھا جب پرویز مشرف نے آئینی اور جمہوری حکومت سے بغاوت کی راہ اختیار کی تھی۔ پرویز مشرف نے صرف مارشل لا ہی نہیں لگایا تھا بلکہ اس سے پہلے حکومت کی بہترین ڈپلومیسی کے ذریعے بس پر بیٹھ کے آنے والے بھارت کے دانشور وزیراعظم کا استقبال کرنے سے ہی انکار کردیا تھااور پھر کارگل کا خونی تحفہ بھی پیش کیا تھا۔ کارگل ہماری تاریخ کی بدترین حکمت عملی سے لڑی جانے والی اور اس کے نتیجے میں اپنے قیمتی فوجی جوانوں کی زندگیوں کے اتنے ہی بدترین نقصان والی جنگ تھی۔
اس جنگ سے پاکستان کوئی جنگی یا سیاسی فائدہ نہیں حاصل کر سکا تھا۔ پرویز مشرف کا پورا دور آپریشن رجیم چینج کا ہی دور تھا، وہ دونوں پرانی سیاسی جماعتوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پیپلزپارٹی کی جگہ پیپلزپارٹی پٹریاٹ بنائی گئی تھی اور مسلم لیگ کی جگہ مسلم لیگ قاف مگر پرویز مشرف کے پاس دس سال تک کوئی متبادل نہیں تھا۔ آپریشن رجیم چینج میں بعد ازاں عمران خان کو مرکزی کردار دیا گیا تھا۔ اس کے لانگ مارچ اور دھرنوں سے پہلے ماڈل ٹاون میں ہونے والا قتل عام بھی ایک مشکوک ترین معاملہ تھا جس میں نواز لیگ کی پوری قیادت کو پھنسانے کی سازش کی گئی۔
یہ آپریشن رجیم چینج لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کی کوشش اور سازش بھی تھاجس کا پہلا ٹارگٹ نواز شریف اور دوسرا بے نظیر بھٹو تھیں۔ بے نظیر اپنے وطن سے محبت میں شہید ہوگئیں مگر نواز شریف کی کردار کشی کا دوسرا دور پرویز مشرف کے بعد عمران خان کے عہد میں شروع ہوا۔ اس میں سب سے مضحکہ خیز مقدمہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا ہے۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اسی اور نوے کی دہائی کی وہ خریداری ہے جب بین الاقوامی سطح پر سرمائے کی منتقلی کے وہ تمام قوانین موجود ہی نہیں تھے جو نائن الیون کے بعد دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے لئے لائے گئے۔ ایک ایسا کاروباری شخص جو عمران خان جیسے شخص کو شوکت خانم کی تعمیر کے لئے پچاس کروڑ روپے دے سکتا ہے تو کیا وہ نو، دس کروڑ روپوں کی لاگت سے لندن میں فلیٹس نہیں خرید سکتا۔
مسلم لیگ نون کے خلاف تمام مقدمات دو نمبر تھے جیسے مریم نواز شریف کی چوہدری شوگر ملز کے اس مقدمے میں گرفتاری جو کبھی درج ہی نہیں ہوا اور انکوائری کے لیول پر ہی دم توڑ گیا۔ خواجہ سعد رفیق کے خلاف مقدمہ دراصل ریلوے کی بحالی کے خلاف مقدمہ تھا کیونکہ وہ اس کی سالانہ آمدن اٹھارہ ارب سے پچاس ارب پر لے گئے تھے اور اگر آپریشن رجیم چینج کامیاب نہ ہوتا، سعدرفیق کی پالیسیوں کا تسلسل رہتا تو آج دس برس بعد ریلوے خسارے سے آزاد ہوچکی ہوتی۔
یہ وہ دور تھا جب موٹر ویز بن رہی تھیں اوردہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب ہو رہے تھے۔ حکومت کی واضح ٹائم لائن تھی کہ پہلے مرحلے میں لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے گی اور دوسرے مرحلے میں بجلی سستی کی جائے گی۔ یہ ملک اور عوام کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوا، شجاع پاشا، ظہیرالاسلام اور فیض حمید اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے مگر یہ ملک و قوم کی ناکامی تھی۔
نواز شریف، پاکستان میں تعمیر، ترقی اور جدت کا استعارہ ہے جبکہ عمران خان جھوٹ، سازش، انتقام اور ایسے معاملات کا جن کا ذکر بھی صحیفے کے صفحات کو ناپاک کرنے کے مترادف ہے۔ نواز شریف نے وہ سازش ایک مرتبہ پھر بے نقاب کرکے رکھ دی ہے جو اہل علم اور اہل نظر کے سامنے پہلے ہی کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔ کون نہیں جانتاکہ ثاقب نثار کا کردار کیا تھا اوراس کے بعد آنے والے دو، تین سربراہوں کا بھی۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ مظاہر نقوی کے خلاف نیب کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور یہ سوال کہ اعجاز الاحسن تو چیف جسٹس بننے والے تھے وہ استعفی دے کر نیویں نیویں ہو کے کیوں نکل گئے۔ اس سوال کا جواب سب کومعلوم ہے اگر وہ شاہ دولہ کا چوہا نہیں ہے اور اس کے سر پر کوئی خول نہیں چڑھا ہوا۔
میں بطور صحافی اور تجزیہ کار حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان اپنی تاریخ کے بہترین کمبی نیشن پر موجودہے۔ ملک کا وزیراعظم میاں نوازشریف کا قابل فخر اور وفادار بھائی ہے۔ ملک کا آرمی چیف وہ انتہائی پیشہ ور سپاہی ہے جو آئین، قانون اور اپنے حلف کے خلاف کسی سیاستدان اور کسی یوٹیوبر سے ملنے تک کیلئے تیار نہیں۔ ملک کا چیف جسٹس وہ ہے جس نے جرات اور ایمانداری کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔
نواز شریف نے ملک کی مقتدرہ کے سامنے اس کا سب سے بڑا مسئلہ پیش کر دیا ہے۔ میری رائے ہے کہ اس پر کمیشن بننا چاہئے اور عمران خان سے ثاقب نثار تک سب کے کردار کا تعین ہونا چاہئے۔ اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہمارے سامنے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ جیسا ایک اور آئینہ موجود ہوگا۔ اس آپریشن رجیم چینج کے اصل کرداروں کو کٹہرے میں بھی ہونا چاہئے اور انہیں سخت سزا بھی ملنی چا ہئے۔