سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد ایک بار پھر اپنی ہی پارٹی اور سیاست میں پلس ہو گئے ہیں۔ ان کی پارٹی میں ان کے مقابلے میں کوئی نہیں آیا اور آ بھی نہیں سکتا تھا۔ انہیں ثاقب نثاری انصاف کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے بعد پارٹی قیادت سے الگ کیا گیا تھا۔ یہ بات تاریخ ثابت کر چکی ہے کہ آپ فوجی یا عدالتی مارشل لاؤں کے ذریعے سیاستدانوں کو مائنس نہیں کرسکتے۔
میں اس پر بھی قائل ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو والا فارمولہ ہو یا نواز شریف والا، اسے لگا کے عمران خان کو بھی مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف جب دوبارہ پارٹی صدارت سنبھال رہے ہیں تو ان کے سامنے کوئی فوجی مارشل لا نہیں ہے مگر میرا تجزیہ ہے کہ سیاستدانوں کے لئے فوجی آمریتوں کا سامنا کرنا مشکل او ر تکلیف دہ ضرور ہوتا ہے مگر اتنا تباہ کن نہیں ہوتا جب مقابلے پر دوسری سیاسی قوت انہیں ری پلیس کر رہی ہو۔
میں نواز شریف اور شہباز شریف کو ہرگز کرپٹ نہیں سمجھتا۔ میں ملکی ترقی اور جدت میں ان کا شئیر سب سے زیادہ مانتا ہوں مگر ان کو بھی ماننا ہوگا کہ ان کے خلاف پروپیگنڈے کا جو طوفان اب ہے وہ ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ وہ اور ان کی پارٹی ایک نظریاتی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ نواز شریف بطور سیاسی رہنما اور ان کی مسلم لیگ بطور سیاسی پارٹی کبھی مزاحمتی پارٹی نہیں رہے۔ وہ ڈویلپمنٹ کی پارٹی ہیں۔
ایوب خان کے مارشل لا کے بعد وطن عزیز میں ہمیشہ دو ہی نظرئیے رہے ہیں جن میں سے ایک وہ ہیں جو فوج کے ساتھ مفاہمت کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو فوج کو گالی دے کر، اس سے سینگ پھنسا کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور جمہوریت کے نام پر اپنی آمریت قائم کرتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال ہو یا سیاسی اور تاریخی سیاق و سباق، آپ اس میں سے فوج کے کردار کو نہیں نکال سکتے۔
پاکستان دنیا کی نظر میں صرف اور صرف اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اہم ہے اور یہی اہمیت اس میں فوج کے کردار کو دو چند کر دیتی ہے۔ بھائی کی وزارت عظمیٰ اور بیٹی کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ جب نواز شریف پارٹی صدارت پر پلس ہو رہے ہیں تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ اختیار نہیں کرسکتے، تکلف برطرف، وہ نو مئی کے بعد اس میں عمران خان سے آگے بھی نہیں نکل سکتے۔ وہ عادل راجاوں اور حیدرمہدیوں کی سنگت میں تمام حدود عبور کر چکا ہے۔ نواز شریف کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے وہ مفاہمت کے ساتھ ترقی کی سیاست کا نعرہ لگائیں جس سے ان کی بیٹی کے سیاسی راستے کی آسانیوں میں اضافہ ہو۔
ایک اور اہم بات یاد رکھیں۔ فوج دو، اڑھائی برس پہلے سیاست اور عدالت میں مداخلت نہ کرنے والے فیصلے کے بعد مشکل کا شکار ہے۔ نو مئی کے مجرموں کو تحفظ دے کر عدلیہ نے خود کو فوج کے مقابلے میں نئی اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر قائم کر لیا ہے۔ فوج اس وقت نہ مارشل لا لگا سکتی ہے اور نہ ہی عدلیہ پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ اسے تنہا کرکے دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے صبر کی حد کیا ہوگی اگر مسلم لیگ نون نے بھی دل سے اس کا ساتھ نہ دیا کیونکہ اس وقت جماعت اسلامی سے عوامی نیشنل پارٹی تک، سب فوج پر حملہ آور ہیں۔
نواز شریف نے سو فیصد درست کیا کہ وہ دوبارہ دیوار کو ٹکر مارنے کی طرف نہیں جا رہے، ان کے سامنے امن، ترقی اور خوشحالی کے نعرے والا راستہ دوبارہ کھلا پڑا ہے۔ مریم نواز کبھی پولیس اور کبھی ایلیٹ کی وردی پہن کر مثبت پیغامات دے رہی ہیں۔ اٹھائیس مئی والوں کی نو مئی والوں کے ساتھ تقسیم اور فرق واضح ہو رہے ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کے لئے بڑا چیلنج صرف اور صرف بیانیے کا ہے جس پر ان کے مخالف کا اس وقت تک قبضہ ہے۔
میں جانتا ہوں کہ نواز شریف مشورے پسند نہیں کرتے اور ہمیشہ اپنی مرضی کرتے ہیں مگر میرا تو شوق اور دھندا دونوں ہی یہی ہیں سو میں کیسے اس سے رک سکتا ہوں۔ میں جانتاہوں کہ آج سے تین برس پہلے کے میرے کالموں پر ہی حکمت عملی بدلی گئی تھی جس کے بعد وہ پولیس جو ہر روز شریفوں کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے ہوتی تھی وہی پولیس کے اکھڑ افسر صبح و شام انہیں سلیوٹ جھاڑنے کے لئے آگے پیچھے ہوتے تھے، بہرحال وہ وقت گزر گیا اور اب وقت ہے کہ پروپیگنڈے کے محاذ پر کام کیا جائے۔ میاں صاحب برا نہ منائیں، یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب سیاست یہ نہیں رہی کہ آپ دو، دو ہفتے غائب رہیں۔
آپ کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ کئی کئی دن خاموش رہے۔ جیسے ٹی وی چینلز چوبیس گھنٹے چلتے ہیں اسی طرح سیاست بھی چوبیس گھنٹے کا کام ہوگئی ہے۔ آپ کے فالوورز آپ سے بیانیہ چاہتے ہیں جو آپ ان سے مخاطب ہو کے ہی دے سکتے ہیں۔ کیا وہ نواز شریف واپس نہیں آ سکتا جو ہر ہفتے اپنے کارکنوں سے ملاقات کیا کرتا تھا اور زبردست تقریر۔ مجھے تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پارٹی کی سیکنڈ لیڈر شپ بھی میاں نواز شریف سے براہ راست رابطے میں نہیں رہی۔
مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ آپ کو اب تھوڑی سی ایکسر سائز کرنی چاہئے اور بڑھا ہوا وزن کم کرنا چاہیے۔ یہ آپ کی پرسنالیٹی کو ڈاون کر رہا ہے۔ اچھا کیا جنرل کونسل کے اجلاس میں آپ نے ٹھوڑی پر ماسک نہیں لٹکایا، اس سے جان چھڑوائیں، یہ بہت ہی ناگوار تاثر دیتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ مسلم لیگ نون کی سیاست کا مستقبل مریم نواز ہیں اور وہ کرشماتی لیڈر شپ کے تمام تقاضے پورے کر رہی ہیں لیکن اگر آپ دوبارہ کریز پر کھیلنے کے لئے آ رہے ہیں تو آپ کوفٹ ہونا چاہئے۔ باولرز اس وقت باونسرز پھینکنے والے ہیں۔ تھوڑے کہے کو بہت جانیں، عمران خان اور آپ کی عمر میں کیا فرق ہوگا مگر آپ نے اسے نیلی ٹی شرٹ میں ضرور دیکھا ہوگا۔
ملکی معیشت شہباز شریف سنبھال لیں گے اور پنجاب کی گورننس مریم نواز، اصل معاملہ سیاسی جنگ اور بیانئیے کا ہے جس کی براہ راست ذمہ داری نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ حکومتی سطح پر عطاء اللہ تارڑ اور عظمیٰ زاہد بخاری کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ ان دونوں کی وفاداری پر بھی کسی کو شک نہیں اور یہ پی ٹی آئی کی طرح جارحانہ کھیلنے کی ہمت اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر جو اہم ترین عنصر غائب ہے وہ ٹیکنیکل کمانڈ اورمہارت کا ہے۔ بیانئے کی جنگ اب محض جذبات کی لڑائی نہیں رہی۔
الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا پروفیشنل اور ٹیکنیکل استعمال اہم ہے۔ اس جنگ میں کارکنوں کو گولا بارود قیادت ہی فراہم کرتی ہے اور انہیں منظم بھی مگر معاملہ یہ ہے کہ نون لیگ کے نوے فیصد لیڈروں کی گردن میں سریا ہے جو دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے، کم از کم میڈیا سے متعلقہ لوگوں کواس سے پاک ہونا چاہئے تاکہ آپ بیانئییکے مشکل ترین محاذ پر مقابلہ کر سکیں۔