میا ں نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے زیادہ تجربہ کار رہنما ہیں۔ وہ تین بار وزیراعظم رہ چکے اور دو مرتبہ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ۔ یہ اعزاز بھی انہیں ہی حاصل ہے کہ انہوں نے مشرف کے ننگے مارشل لاء کو شکست دی اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک کے آئینی اور جمہوری چیف ایگزیکٹو بنے۔ ان کی قیادت میں ان کی پارٹی نے پرویز مشرف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کے برقعہ پوش مارشل لا کو بھی دھول چٹا دی۔
اگر شہباز شریف اس دوران پارٹی کے صدر رہے اور بعد ازاں وزیراعظم تو اس کا کریڈٹ بھی نواز شریف کو ہی جاتا ہے۔ یہ ان ہی کی حکمت عملی تھی بلکہ اب لیگی عقاب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کو عام انتخابات کے بعد وزیراعظم بنانا ان کا ماسٹر کارڈ تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر بہترین سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔
سیاست میں صرف آگے بڑھنانہیں ہوتا بلکہ کئی مرتبہ پیچھے ہٹنا بھی ہوتا ہے۔ لمبی جدوجہد میں ہجرتیں کی جاتی ہیں ا ور حدیبیہ جیسے معاہدے بھی، جنگیں خندقیں کھود کے بھی لڑی جاتی ہیں اور مکہ جیسی شاندار فتح پرسب کے لئے عام معافی کا اعلان بھی کیا جاتا ہے اگر مخالف شرپسندی اور تخریب کاری سے باز آجائیں۔
میں جب یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اس وقت مسلم لیگ نون ضمنی انتخابات میں پنجاب میں کلین سویپ کرچکی ہے۔ وہ آئی ایم ایف جو بات تک کرنے کے لئے تیار نہیں تھا وہ اس حد تک رام ہوچکا کہ پاکستان جب کہے گا اسے فنڈز دے دیں گے، جیسے بیانات دے رہا ہے، امریکا سے خیر سگالی کے خطوط آ رہے ہیں، سعودی پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر چکر لگا رہے ہیں اور سٹاک مارکیٹ عمران خان کے منحوس معاشی دور میں 28ہزار پوائنٹس تک گرنے کے بعد اب الحمد للہ 72 ہزار پوائنٹس کو عبور کر رہی ہے اور اگر میاں شہباز شریف اورجنرل عاصم منیر کی محنت اور ورکنگ ریلیشن کو تسلسل رہا تو یہ ایک لاکھ پوائنٹس کو بھی اسی دور میں عبور کر سکتی ہے۔
نواز شریف کا چین کا دورہ پرسنل سہی مگر اہم پیش رفت ہے، وہ میڈیکل چیک آپ کے علاوہ سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کررہے ہیں۔ یہ وہ کردار ہے جو وہ سعودی عرب سے ترکی تک ہر جگہ ادا کر سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اتحاد کا سخت مخالف ہوں مگر صرف اس اتحاد کا جس کا مقصدآر ٹی ایس بٹھا کے ناجائز اقتدار کا حصول ہو، جس کے ذریعے عثمان بُزدار جیسے نااہلوں کو ملک کا سب سے بڑا صوبہ چلانے کے لئے دے دیا جائے مگر کسی بھی سیاسی جماعت اور فوج کا وہ اتحاد انتہائی مفید اور بابرکت ہے جس میں گورننس اور معیشت بہتر ہوں، جس سے پاکستان مضبوط ہو اور عوام کو ریلیف ملے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ میاں نواز شریف کی طرف سے وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہونے کے بعد ملک میں ایک ایسا سسٹم بن گیا ہے جس کے تمام پلئیرز ایک دوسرے کے ساتھ کمفرٹ ایبل پوزیشن میں بھی ہیں اور ڈیلیور بھی کر رہے ہیں۔ لوگ جو مرضی کہتے رہیں مگر میرا پورا یقین ہے کہ میاں نواز شریف اپنے انتہائی وفادار اور ٹیلنٹڈ بھائی کی صورت میں وزیراعظم بھی ہیں اور اپنی بہت ہی محبت کرنے والی اور اپنی کارکردگی سے دو ماہ میں ہی حیران کر دینے والی بیٹی مریم نواز کی صورت میں وزیراعلیٰ بھی ہیں، میں یہ بھی ثابت کر سکتا ہوں کہ نواز شریف پارٹی کے کاغذوں میں صدر نہ ہونے کے باوجود آل ان آل، ہیں اور کسی میں جرأت نہیں ہے کہ وہ ان کے لکھے اور کہے ہوئے میں زیر اور زبر بھی تبدیل کر دے۔
یہ درست ہے کہ بہت سارے چاہتے تھے کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن کے ایک نیا ریکارڈ قائم کریں مگر حقیقت یہ بھی ہے وہ تین مرتبہ وزیراعظم بن کے پہلے ہی ایک ایسا ریکارڈ قائم کر چکے ہیں جسے توڑنا ان کے کسی مخالف کے بس کی بات نظر نہیں آ تی۔
میں اس پورے منظر نامے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ نوا ز شریف اپنی ذاتی حیثیت میں وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم کے عہدوں سے بہت اوپر ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد منفی لوگوں سے جان چھڑوائیں اورملک کے سپریم لیڈر کے طور پر ایک نئے کردار کے لئے خود کو تیار کریں۔ جو لوگ انہیں عمران خان بننے کے مشورے دے رہے ہیں وہ ان کے ہمدرد نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کوئی ضرورت نہیں کہ وہ چھوٹی موٹی ایڈمنسٹریٹو میٹنگوں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کرتے رہیں۔ وہ اپنے بھائی اور بیٹی کے ذریعے ملک و قوم کو گائیڈ لائنز دیں۔
مجھے یقین ہے کہ وہ پاکستان کو بہت کم عرصے میں ایک جدید اور طاقتور ملک بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ایران کے آیت اللہ خامنہ ای، شمالی کوریاکے کم جونگ اُن یا طالبان کے ملا ہیبت اللہ اخونزادہ جیسے کوئی سپریم لیڈر ہوں کیونکہ ان تینوں کی سپریم لیڈر شپ کے اپنے اپنے اجزائے ترکیبی ہیں جو پوری طرح پاکستان کے سیاسی حالات اور نظام پر منطبق نہیں ہوسکتے مگر پاکستان اپنے طور پر ایک نئے سیاسی استحکام اور ترقی کے سفر کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نواز شریف وہ سیمنٹ ہوں جو پاکستان کی دیوار کو مضبوطی سے باندھے رکھے۔
یہ ان کی زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے جہاں ان پر لگے ہوئے تمام الزامات عدالتوں سے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ وہ تمام مقدمات میں باعزت بری ہوچکے ہیں۔ اس وقت تاریخ کے کٹہرے میں ثاقب نثا ر اور عمر عطا بندیال کھڑے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نواز شریف اپنی اس طاقت کو محسوس کریں جو سیاست اور حکومت کی صورت میں کے ہاتھوں بلکہ قدموں میں ہے۔ موجودہ سسٹم کو ناکام کرنے کی صلاحیت عمران خان کے پاس نہیں، یہ صرف نواز شریف کے پاس ہے مگر، تکلف برطرف، وہ محض خود کش حملہ ہوگا۔
میں رجائیت پسند ہوں اور مکمل یقین رکھتا ہوں کہ میرے وطن نے ترقی اور میرے ہم وطنوں نے خوشحالی کے سفر میں بہت آگے جانا ہے۔ مسلم لیگ نون کا خمیر مزاحمت اورلڑائی سے نہیں نکلا، اس کا بیانیہ مفاہمت اور ڈیویلپمنٹ کا ہے۔ یہ بات تو پہلے ہی کہی جا چکی کہ اگر نواز اور شہباز ادوار کی ڈویلپمنٹ ملک سے نکال دی جائے تو باقی مغلیہ دور کے قلعے ہی بچتے ہیں یا بزدار دور کے کچرے کے ڈھیر۔
شہباز شریف پچھلی حکومت میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کا کارنامہ کرکے دکھا چکے ہیں۔ اب یہاں نواز شریف خود کو انڈر مائن نہ کریں، وہ ملکی تاریخ کے طاقتورترین کردار بن کر سامنے آئے ہیں بس کرنا یہ ہے کہ ہمارا دماغ اپنے ہی ہاتھوں سے لڑائی شروع نہ کردے۔ اگر دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی رہیں گی تو وہ دیوار مضبوط رہے گی۔ اگر اس جسم کے ایک حصے نے درد محسوس شروع کردیا تو باقی جسم بھی نڈھال ہوجائے گا۔