کل کی بات لگتی ہے کہ میں نے سٹی نیوز نیٹ ورک، چھوڑا اور نئی بات میڈیا نیٹ ورک، جوائن کیا تھا مگر اسے نو سال سے بھی زیادہ ہو گئے، کم و بیش دس سال۔ میری پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان صاحب سے پہلی ملاقات نیوز نائیٹ، کے سیٹ پر ہی ہوئی تھی جہاں وہ چیئرمین سپرئیر گروپ کے طور پر تشریف لائے تھے۔
میرا پروگرام اعلیٰ تعلیم بالخصوص جامعات کے مسائل پر تھا اور میں نے جانا کہ وہ اپنے شعبے میں کے ایک ویژنری لیڈر تھے۔ وہ تعلیم کے نظام میں ہی نہیں بلکہ پورے حکومتی، سیاسی اور سماجی نظام کی اصلاح کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ا نہوں نے کہا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے اندر تعلیم دے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی چینل کے ذریعے پورے معاشرے کو باشعور کریں۔ وہ اس سے پہلے ایک بڑی انویسٹمنٹ کرکے روزنامہ نئی بات کا آغا زکر چکے تھے جس کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بہت ہی دیانتدار، شریف النفس اور پروفیشنل جناب عطاء الرحمان کے پاس تھیں۔
یہ ایسی ٹیم کاچناؤ تھا جس پر یہ شعر پورا اتر سکتا ہے کہ میرے قافلے میں شامل کوئی تنگ نظرنہیں ہے، جو نہ مرمٹے وطن پہ میرا ہم سفر نہیں ہے۔ ٹی وی چینل میں پہلا پڑاؤ اے لائیٹ نیوز، تھا جسے الحمد للہ بغیر کسی سرمایہ کاری کے محض پروفیشنل ازم سے ٹاپ ٹین چینلز میں لا کے کھڑا کر دیا تھا اوراس کے بعد نیو نیوز، کاسفر شروع ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ میں بطور پراجیکٹ ہیڈیا پراجیکٹ منیجر اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکا تھا، ایک وقفے کے بعد میں نے لاہور رنگ، کے پرائم ٹائم شو کو نیوز نائیٹ، ہی کے نام سے دوبارہ شروع کیا۔
اس وقت نئی بات میڈیا نیٹ ورک، کے گلدستے میں تین پھول ہیں۔ آغاز سے بالترتیب پہلا روزنامہ نئی بات، ہے، دوسرا نیو نیوز، ہے اور تیسرا لاہور رنگ، ہے۔ کوئی میری نظر سے پوچھے تو صحافت صرف اور صرف عوام کی خدمت کا نام ہے۔ صحافی غریب، مظلوم عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ صحافت، سوسائٹی کے آئینے کا کام کرتی ہے اور اگر یہ آئینہ ہی دھندلا ہو تو عکس درست نظر نہیں آتا۔
مجھے یہ چیلنج دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آج کوئی بھی اٹھے اور ہمارا احتساب کرے، ہم سنسنی خیزی نہیں کرتے، ہم جھوٹ نہیں بولتے، ہم کسی پر الزام نہیں لگاتے، ہم کسی کو گالی نہیں دیتے، ہمیں جودرست لگتا ہے اسے ببانگ دہل درست کہتے ہیں اور جو غلط لگتا ہے اسے ڈنکے کی چوٹ پر غلط، اسے ہم سے بہتر پاکستانیوں کی حقیقی آواز کوئی سنائی نہیں دے گی جو ملک میں آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ جو عوام کے وسائل کو عوام پر خرچ ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو ملک بھر میں ڈویلپمنٹ کے پراجیکٹس چاہتے ہیں اور ان کی تیزی سے، شفافیت کے ساتھ تکمیل۔
ان سب کے اوپر چیئرمین نئی بات میڈیا نیٹ ورک چوہدری عبدالرحمان کی ایک ہی گائیڈ لائن ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہیر و کو ہمیشہ ہیرو کہنا ہے اور ولن کو ہمیشہ ولن۔ یہ درست ہے کہ ہم نے غیر جانبدار رہنا ہے، ہر کسی کے مؤقف کو جائز اور مناسب کوریج دینی ہے مگر اس غیر جانبداری کامطلب یہ نہیں کہ ہم مہنگائی کے خلاف آواز بلند نہ کریں، کرپشن کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ خبریں نہ دیں، بدنیتی اور بدعملی کو ایکسپوز نہ کریں۔
جب نیونیوز، اپنے دسویں برس میں جا رہا ہے اور نئی بات، دس برس کا سنگ میل پہلے سے عبور کر چکا تو مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آج پاکستان میں صحافت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ کارکن صحافیوں کے لئے بھی مشکل ہے اور اس سے زیادہ مالکان کے لئے بھی۔ شائع ہونے والے اخبارات ڈائنگ انڈسٹری، میں بدل رہے اور اپنی بقا کے لئے ڈیجیٹل شکل میں ٹرانسفارم ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو 2017-18 سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات میں سب سے بڑی سیاست کے میدان میں ملٹری اور جوڈیشری کی اسٹیبلشمنٹ کے تجربات ہیں۔
اس وقت آزاد میڈیا کو اپنی بقا کے لئے اشتہارات کی صورت میں جس لائف لائن کی ضرورت ہے اس پر گرتی ہوئی جی ڈی پی اپنا بھاری پاوں رکھ کے کھڑی ہے۔ یقین مانیں کورونا والے دو برس تو بہت مشکل، بہت منحوس گزرے، بے روزگاری کے خطرات سے بھرپور۔ کئی بزرجمہر شکوہ کرتے ہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سیٹھ آ گیا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر کارپوریٹ کلچر والے بہت سارے اداروں کے مالکان میڈیا انڈسٹری میں سرمایہ کاری نہ کرتے تو صحافت بہت پہلے دم توڑ چکی ہوتی۔
آج اگر صحافیوں کو اچھی تنخواہیں مل رہی ہیں، وہ کرپشن سے پاک اور غلامی سے آزاد ہو کے آزادی صحافت کے نعرے بلند کر رہے ہیں تو اس میں ان مسیحاوں کا بہت بڑا کردار ہے جو کماتے اپنے دوسرے کاروباروں سے ہیں اور صحافت کے شوق میں کروڑوں روپوں کے خسارے پورے کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس سے انہیں بھی اہمیت اور فائدے ملتے ہیں مگر اس کے باوجود ہرماہ اتنے بڑے خسارے کا سامنا بڑے دل جگرے کا کام ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر رہنی چاہئے کہ نئی بات میڈیا نیٹ ورک نے بھی بہت ساری مشکلات دیکھی ہیں۔ اس کے سرکاری اشتہارات حق گوئی کے جرم میں بہت بار بند ہوئے ہیں۔ کسی حکمران کو کوئی خبر پسند نہیں آتی تھی تو کسی کو کوئی کالم یا پروگرام۔ جب وہ اپنا مقدمہ نہیں لڑ سکتے تھے تو کلہاڑا اٹھا لیتے تھے۔ ایڈورٹائزمنٹ کا دوسرا سورس ریٹنگز ہیں اور مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ ریٹنگز اہم ہیں مگر حق، سچ، توازن، متانت اور وقار سے زیادہ نہیں۔
صحافت کو دو طرح کے دباو اور مداخلت کا سامنا ہے۔ ایک بیرونی مداخلت ہے جو سرکاری اور سرکاری اداروں کی بھی ہوسکتی ہے اور غیر سرکاری بدمعاشوں کی بھی مگر دوسرا دباو اور مداخلت اندرونی ہے جس میں مالکان کے ساتھ ساتھ فیصلہ ساز صحافیوں کے بھی مفادات ہوتے ہیں مگر نئی بات میڈیا نیٹ ورک میں صحافیوں کو پیشہ ورانہ انداز میں اور غیر جانبداری کے ساتھ جس طرح کام کرنے کی آزادی ہے اس کی مثال شائد ہی کسی دوسرے صحافتی ادارے میں ہو۔
میں نام نہیں لیتا مگر مختلف قسم کے طاقتور حلقوں کے بہت سارے ناپسندیدہ نام ہمیشہ نیو نیوز کی سکرین پر ہی نظر آئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ ادارے کے مالکان کو ہی جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ دبائو برداشت کرتے ہیں، مداخلت کے سامنے مزاحمت کرتے ہیں۔ مجھے یہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے الفاظ یاد آ رہے ہیں، انہوں نے کہا، جو جج مداخلت کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا اور دباو برداشت نہیں کرسکتا وہ جج نہ رہے، اپنے گھر چلا جائے۔
مجھے یہی بات صحافت کے حوالے سے کہنی ہے۔ یہ شعبہ بہت ہی بڑے دل گردے اور بڑے ظرف والوں کا ہے۔ وہ تمام میڈیا گروپ جو کسی کی پگڑی نہیں اچھالتے، زرد صحافت نہیں کرتے آج کے دور میں ایک نعمت ہیں۔ میری دعاہے کہ نئی بات میڈیا نیٹ ورک، سمیت ایسے تمام ادارے قائم و دائم رہیں، قلمی اور فکری جہاد کرتے رہیں۔