پاکستان، ایک ایسا ملک جو بیرونی طاقتوں کے مسلسل تسلط سے ہمیشہ نبرد آزما رہاہے، ایک بار پھر جغرافیائی سیاسی شورشوں میں الجھا ہوا دیکھ رہاہے۔ اس سیاسی اْلجھاؤ میں اْن بیانیوں اور کوششوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جن کا محور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سیاسی بحالی ہے۔ یہ بیانیے اور کاوشیں پاکستان کے اندر سے نہیں بلکہ ایک مربوط بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت عمل میں لائے جا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار اس بین الاقوامی "تحریک بحالی عمران" کو "آپریشن گولڈ اسمتھ" کا نام دیتے ہیں اور اس آپریشن کے ڈانڈے گولڈ اسمتھ خاندان سے ملتے ہیں جو اپنے حلقہ احباب میں شامل سفارتی پنڈتوں اور چند مغربی میڈیا ہاؤسز کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو مسیحا ثابت کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ حلقے شاید یہ بھی سمجھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اْسوقت تک مشکل سے نہیں نکل سکتے جب تک پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کو تنقید کی زد میں نہ لایا جائے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غیر ملکی طاقتیں جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں ایک سینئر مغربی سفارت کار کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں دلچسپی تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ یمن، افغانستان اور کینیا جیسے تنازعات والے علاقوں میں وسیع تجربہ رکھنے والی یہ سفارت کار اس پاکستان کے سیاسی معاملات میں غیر معمولی طور پر فعال نظر آتی ہیں۔ سفارت کار کی صحافیوں، انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ ملاقاتوں کا حالیہ سلسلہ معمول کی سفارتی مصروفیات سے بڑھ کے ہے جو نہ صرف غیر متوقع بلکہ سفارتی آداب کے منافی بھی ہے۔
یہ ملاقاتیں عمران خان کے لیے حمایت حاصل کرنے کی ایک کوشش کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ کسی بھی غیر ملکی سفیر کاایک سیاسی شخصیت جو سنجیدہ نوعیت کے مقدمات کی پاداش میں زیر حراست ہے کیلئے اتنی تگ و دونہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ سنگین خدشات بھی پیدا کرتی ہے۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں بلکہ ایک واضح اور سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جو اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ ان مغربی طاقتوں کو پاکستان میں کیا کھونے کا خطرہ ہے جس کیلئے وہ ایسی صریح مداخلت کر رہے ہیں؟
مغربی ذرائع ابلاغ عمران خان کو ایک مظلومیت کا استعارہ بنا کے پیش کر رہے ہیں اور دنیا کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ عمران خان آمریت کے زیر عتاب ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ عمران پاکستان کے قانون کے مطابق مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور کئی مقدمات میں ان کو عدالتی ریلیف بھی مل چکا ہے یہ بیرونی قوتیں اپنے مخصوص سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے بین الاقوامی میڈیا میں کم از کم 129 مضامین شائع کروا چکے ہیں جن میں پاکستان کے ریاستی اداروں، خاص طور پر فوج پر تنقید کی گئی ہے، جبکہ خان کو ایک مظلوم ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
میڈیا پر چلائی جانے والی یہ مہم کسی سیاسی حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فطرتی رد عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے جو مخصوص سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ہے۔ عمران خان کا سابقہ سسرال گولڈ اسمتھ خاندان صیہونی اور سرمایہ دار طبقات میں ایک اثرورسوخ کا حامل ہے۔ عمران کی حمایت میں چلی جانے والی اس مہم کی پشت پناہی بھی یہی خاندان کر رہا ہے۔ مجھے حال ہی میں نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کی بھی بات کرنی ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے انتہائی منفی تصویر پیش کی گئی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ معاشی چیلنجز موجود ہیں لیکن کیا ہم زرمبادلہ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے ذخائر، کم ہوتے ہوئے افراط زر، شرح سود اور نئے ریکارڈ قائم کرتی سٹاک مارکیٹ سے ایک اچھے اور شاندار مستقبل کی خوشخبری کشید نہیں کرسکتے، ہر وہ شخص جو محب وطن ہے، وہ اپنی نسلوں کے لئے اس دھرتی کو امن، ترقی اور خوشحالی کاگہوارہ بنانا چاہتے ہے، وہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کی اس یکطرفہ مہم کی حقیقت بھی سمجھتا ہے اور مذمت بھی کرتا ہے۔
وہ ان لوگوں کے ساتھ ہرگز نہیں جو پاکستان کی اکنامک لائف لائن روکنے اور خدانخواستہ معاشی موت کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کوخط لکھتے ہیں، ریاست دشمن شرمناک مظاہرے ہی نہیں کرواتے بلکہ غزہ میں معلوم انسانی تاریخ کی بدترین دہشت گردی پر خاموش ایوانوں سے پاکستان کے خلاف متفقہ قراردادیں منظور کرواتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
تجزیہ نگار گولڈ سمتھ خاندان کی عمران نواز اور پاکستان مخالف مہم کا ایک خاص زاویے سے تجزیہ کرتے ہیں اور اسے ایک وسیع تر جغرافیائی سیاسی مقاصد کے حصول کی ایک کڑی قرار دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا عمران خان کی ایک معروف بین الاقوامی درسگاہ کی چانسلر شپ کیلئے نامزدگی بھی اِسی سلسلے کی کڑی تو نہیں؟ مغربی طاقتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے پاکستان کے معمول کے سیاسی حالات پر پائی جانی والی بے چینی اور غزہ جیسے کہیں زیادہ بڑے سانحات سے صرف نظر کرنا نہ صرف سمجھ سے بالاتر ہے بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار مغربی میڈیا کی اخلاقی پستی اور انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔
عمران خان کے لیے یہ مغربی حمایت ایک دو دھاری تلوار بھی ہے کیونکہ پاکستان میں عوامی جذبات تاریخی طور پر ایسے رہنماؤں کے مخالف رہے ہیں جو مغربی مفادات کے ساتھ بہت قریب سے جڑے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ شکوک بے بنیاد نہیں ہیں۔ اس کی جڑیں غیر ملکی مداخلت کی ایک طویل تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں جس کے اکثر ملک کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ ایسے عناصر کو رد کیا ہے جو مغرب کے کندھوں پہ سوار ہو کر مسند اقتدار تک پہنچے۔
بین الاقوامی میڈیا میں خان نواز مضامین کی بڑھتی ہوئی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے اور جیسے جیسے اس بیرونی مہم کے خدو خال مزید واضع ہونگے یہ مہم پاکستانی عوام کیلئے تشویش کا سبب بنے گی اور بہت جلد اپنی افادیت کھوتی چلی جائیگی۔
آپریشن گولڈ اسمتھ محض ایک سیاسی چال سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ پاکستان کی خودمختاری کے لیے جاری جدوجہد کے نہ صرف منافی بلکہ بیرون ملک سے پاکستان کے اندرونی حالات پر اثر انداز ہونے کی وہ سازش ہے جس کا پاکستان کو مقابلہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے عنان اقتدار حلقوں اور عوام یہ لازم ہے کہ وہ اس بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کا مستقبل اس کے عوام کی مرضی سے تشکیل پائے، نہ کہ بیرونی طاقتوں کے عزائم سے۔
میڈیا کے ذریعے آپس میں جْڑا یہ کرہ ارض ملکی سلامتی اور خود مختاری کے درپے ان بیانیوں کی آماجگاہ ہے جس کیلئے پاکستان کو چوکنا رہنا چاہیے۔ ملک کی خودمختاری ایک بنیادی حق ہے جس کا بھرپور دفاع کیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے اس سے پہلے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور عوام کی تائید سے سرخرو ہوا ہے لیکن اس کامیابی کے حصول کیلئے ایک قومی سوچ اور متفقہ حکمت عملی وقت کا اہم تقاضا ہے۔