میں نے سوموار کی سہ پہر اورنج لائن کے نکلسن روڈ پر لاہور ریلوے اسٹیشن سے منسوب اسٹیشن میں قدم رکھا تو ہر طرف مٹی، گرد اورکوڑاکرکٹ تھا اور یہ صرف ایک اسٹیشن کامعاملہ نہیں تھا بلکہ اسی روز چلنے والی میٹرو ٹرین کے تقریبا تمام ہی اسٹیشن صفائی کی سہولت سے محروم تھے۔ اورنج لائن کے سٹیشنوں کو چلنے سے پہلے ایک خصوصی صفائی اور دھلائی بھی درکار تھی جس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی لہٰذا اسٹیشن اس گھر جیسا منظر ہی پیش کر رہا تھا جہاں راج مستری کام کر کے گئے ہوں اوراس کے بعد ابھی گھر والوں نے آکرصفائی کرنی ہو۔ میرے ساتھ کیمرے کی آنکھ میں سب کچھ محفوظ ہو رہا تھا کہ مجھے اورنج لائن کی وردی میں ملبوس ایک شخص نے دھمکی دی اور سوال پوچھا، آپ یہاں کس کی اجازت سے ریکارڈنگ کر رہے ہیں، مجھے لیٹر دکھائیں۔ مجھے ہنسی آ گئی کہ ابھی دو روز پہلے جناب وزیر ٹرانسپورٹ جہائزیب خان کھچی نے انارکلی کے اسٹیشن کے اندر پریس کانفرنس ہی نہیں کی تھی بلکہ وہ میڈیا کو اورنج ٹرین کے اندر بھی لے کر گئے تھے اور لگاتار، پے در پے، بہت سارے انٹرویوز دئیے تھے، مطلب یہ کہ اگرمیڈیا آپ کی شکل مبارک دکھانے کے لئے آئے تو ویلکم، آپ سرکاری پیسوں سے اسے پرتکلف کھانا بھی کھلاتے ہیں اور اگرسچ دکھانے آئے تو اس پر انتظامیہ چھوڑ دیتے ہیں۔
میں نے دیکھا اور دکھایا بھی کہ پہلے روز ہی ٹوائلٹ گندگی او ربدبو سے بھرے ہوئے تھے، واش رومز کے شاورز ٹوٹے ہوئے تھے، ان کی ٹونٹی کو کھولا جاتا تھا تووہ پائپ ناگن ڈانس کر کے دکھاتے تھے، میں نے باہر واش بیسن دیکھے تو ان کی سینسرز کی حامل مبینہ جدید ترین مگر گھٹیا معیار کی ٹونٹیوں کا یہ حال تھا کہ وہ تھپڑ مارنے پر بھی پانی نہیں دیتی تھیں اور کبھی بغیر مانگے ہی پانی چھوڑ رہی تھیں، واش بیسنوں کے سیوریج بند تھے اور وہ گندے پانی سے بھرے ہوئے تھے۔ میں نے انتظامیہ سے کہا کہ آپ میں سے کون اس صورتحال کا جواب دے گا مگر وہ اپنے چہرے ماسک میں چھپا کے فرار ہو چکے تھے۔ میں چوبرجی کے اسٹیشن پر گیا تووہاں بھی گندگی کا یہی حال تھا اور ایک طرف بہت سارے بنڈل پڑے ہوئے تھے۔ میں نے جی ٹی روڈ پر انجینئرنگ یونیورسٹی کے ساتھ سلطان پورہ کے اسٹیشن کا جب وزٹ کیا تو مجھے ایک بزرگ نے نشاندہی کی کہ یہاں اوپرجانے کے لئے لگایا گیا برقی زینہ خراب ہے۔
وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ خصوصی طور پر یہاں آئے ہیں تاکہ پاکستان کی پہلی الیکٹرک میٹرو ٹرین کے سفر سے لطف اندوز ہوسکیں مگر ان کے لئے کئی درجن سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اسٹیشن پرجانا ناممکن لگ رہا ہے۔ وہاں پر بھی ہمیں صورتحال دکھانے سے روکا گیا اور ایک باوردی صاحب نے بتایا کہ وہ وہاں مینٹیننس کے انچارج ہیں، جب ان سے برقی زینے کے بارے پوچھا گیا تو فرمانے لگے کہ یہ ابھی چل جاتا ہے، کسی نے بند کر دیا ہے، میں نے درخواست کی کہ چلا کے دکھائیں تو انہوں نے پینترا بدل لیا اور قرار دیا کہ وہ صرف پٹڑی کی مینٹیننس کے ہی انچارج ہیں۔ میں اوپر اسٹیشن میں گیا تو وہاں ایک اور رولاپڑا ہوا تھا کہ ایک صاحب نے ایک سو تیس کے دو کارڈ خریدے تھے اور ان میں پانچ، پانچ سو روپوں کابیلنس بھی کروایا تھا مگر وہاں لگی ہوئی ای مشین نے ان کو اور ان کے بیٹے کو سفرکرنے کے بعد باہر جانے سے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا اور انہیں لال بتی جلا کے بتا رہی تھی کہ ان کے کارڈوں میں رقم ہی نہیں ہے۔ اس موقعے پر مینجمنٹ کے لئے بڑے سے بنائے گئے کمرے میں بیٹھے ہوئے متعلقہ لوگ بھی باہر آ گئے۔
انہوں نے سب کوحکم دیا گہ وہ ایگزٹ پولز سے دور، دورکھڑے ہوجائیں مگر اس کے باوجود وہ کارڈ زنہیں چلے۔ انہوں نے ٹیلی فون پر کسی سے رابطہ بھی کیا مگر اس کابھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مجھے وہاں صفائی کرنے والے چندملازمین بھی نظر آئے، میں نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ یہاں صفائی کیوں نہیں کر رہے تو ان غریب محنت کشوں نے بتایا کہ یہاں کی صفائی کا کنٹریکٹ کسی دوسری کمپنی کو دیا گیا ہے، وہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ملازمین ہیں اور رات تین بجے اپنے علاقے میں صفائی کے لئے ڈیوٹی پر آئے تھے مگر جب انہوں نے اپنی ڈیوٹی پوری کر لی تو انہیں دوپہر بارہ بجے یہاں بھیج دیا گیا۔ انہوں نے مقدور بھر صفائی کی ہے مگر پورے اسٹیشن کی مکمل صفائی ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے اور یوں بھی انہیں ایک ہی تنخواہ ہی ملنی ہے تو وہ دو دو جگہ کام کیسے کریں اورکیوں کریں۔ نظر بھی یہی آ رہا تھا کہ ان ملازمین کو یہاں بھیج کر گونگلووں سے مٹی جھاڑی گئی ہے، پیسے کوئی لے جائے گا اور کام کسی کے ذمے ڈال دیا جائے گا۔
ایک حکومتی سیانے نے کہا کہ اگر الیکٹرک ٹرین کے بجائے یہاں اربوں روپوں سے درخت لگائے جاتے تو فضا بہتر ہوجاتی، میں نے کہا ویسے ہی درخت جیسے خیبرپختونخوامیں لگے تو وہ ایسے ہیں کہ ان پر لٹک کر ہم کسی سکول، کارخانے، دفتر یا ہسپتال نہیں جاسکتے تھے۔ انسانوں کو سفر کرنے کے لئے بسیں اور ٹرینیں ہی درکار ہوتی ہیں، یہ بندر ہی ہوتے ہیں جو درختوں پرچھلانگیں لگاتے اورلٹکتے ہوئے ایک سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ میں نے چھبیس میں سے چا، پانچ اسٹیشن ہی وزٹ کئے اور ہر اسٹیشن پر کمی، کوتاہی اورنااہلی کی ایک نئی داستان تھی۔ مجھے خطرہ محسوس ہواکہ اگر انتظامی صورتحال یہی رہی تو اربوں روپوں کی سب سڈی کے باوجود اورنج لائن ٹرین ناکام ہو جائے گی اورحالات تو یہ ہیں کہ سات، آٹھ برس کامیابی سے چلنے کے بعد میٹرو بس بھی اپنا معیار کھو رہی ہے۔ اس کے اسٹیشن بھی کھنڈر ہوتے چلے جا رہے ہیں اوربسیں تباہ۔ خطرہ یہ بھی ہے کہ پنجاب کے پبلک ٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس بھی اسی طرح کرپشن اور ناکامی کی نذر نہ ہوجائیں جس طرح خیبرپختونخوا کی بی آر ٹی اس حوالے سے ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔
مجھے حکمرانوں سے کہنا ہے کہ وہ جس سب سڈی کی بار بار بات کرتے ہیں وہ انہوں نے اپنی جیب سے نہیں دینی بلکہ پنجاب کے خزانے سے دینی ہے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین نے پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے لاہور کودنیا کے جدید ترین شہروں کے برابر لاکھڑا کیا ہے اور وہ سالانہ ساڑھے پانچ ارب روپے کی سب سڈی کی بات کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سرکار اور عوام کو وقت، پٹرول اورماحولیاتی آلودگی کے کھاتوں میں بچت کتنی زیادہ ہو گی۔ اگر الیکٹرک ٹرینیں اورمیٹرو بسیں اتنی ہی مہنگے اور فضول کام ہوتے تو یورپ اور امریکا میں یہ سوا سو برس پہلے نہ آ چکے ہوتے، ہمارا ہمسایہ انڈیا تقریبا نصف صدی سے اپنے شہریوں کو یہ سہولت فراہم کرنے کا آغاز نہ کر چکا ہوتا۔
حکمرانوں کا وژن اگر لیپ ٹاپس، سکالرشپس کے بجائے کٹوں وچھوں اور الیکٹرک میٹرو ٹرینوں کے بجائے لنگر خانے اورٹوائلٹس بنانے کا ہے تو اس میں پنجاب کے عوام کا کیا قصور ہے جن پر انہیں مسلط کر دیا گیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا صحت اورتعلیم کی سہولتوں کے ساتھ موازنہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ تم کھانا کھانا چاہتے ہو یا کپڑے پہننا چاہتے ہو تو اس احمقانہ سوال کا یہی جواب ہو گا کہ ہم کھانا بھی کھانا چاہتے ہیں اور کپڑے بھی پہننا چاہتے ہیں، تم کون ہوتے ہو کہ ہمیں کھانا کھلانے کے نام پر ننگا کر دو یاکپڑے پہنانے کے نام پر بھوکا رکھو اور آخرمیں ہم بھوکے ننگے ہی رہ جائیں۔