آپشنز دو ہی ہیں، پہلایہ کہ پولیس والوں نے معصوم وزیراعلیٰ کو موٹروے واقعہ کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری کے حوالے سے ماموں، بنا دیا، انہیں یقین دلادیا کہ عابد ملہی تک وہ بہت ہی سائنسی اور تکنیکی بنیادوں پر تحقیق اور تفتیش کرتے ہوئے پہنچے اوروزیراعلیٰ نے کمال معصومیت کامظاہرہ کرتے ہوئے پولیس والوں کو پچاس لاکھ روپے بطور انعام دینے کا اعلان کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہوں نے دیگر ایجنسیوں سے بھی رپورٹ طلب کی اور ان دعووں کوکاؤنٹر چیک کیا جوپولیس کی طرف سے کئے گئے کیونکہ لاہور کے سینئر کرائم رپورٹروں کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پولیس کے دعووں کی نفی کی ہے اور اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ ملزم عابد ملہی نے اپنے والد کے کہنے پر گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں مقامی بااثر سخص خالدبٹ کی بھی مدد لی گئی۔ خالد بٹ کے ذریعے پولیس کے مقامی حکام سے اس امر کی گارنٹی لی گئی کہ عابد کو جعلی پولیس مقابلے میں نہیں مارا جائے گا اوراس کے بعد اسی خالد بٹ کی گاڑی میں ہی عابد ملہی کو گرفتاری کے لئے لے جایا گیا۔ عابد کے والد اکبر کے مطابق جب واردات کے ایک ماہ بعد پہلی مرتبہ عابد نے گھر رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ گرفتاری دے دے کیونکہ پولیس پیچھے پڑی ہوئی ہے، پورے گھر کو پولیس والوں نے اٹھایا ہوا تھا۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سب جانتے ہیں مگر اس کے باوجودانہوں نے دو وجوہات کی بنیاد پرانعام دینے کا اعلان کیا۔ پہلی وجہ یہ کہ وہ حکومت اوراپنے ماتحت کام کرنے والی پولیس کی کارکردگی کا کریڈٹ لینا چاہتے تھے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے چہیتے پولیس افسران کو ایک بڑی سرکاری رقم عطا کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان کے وفادار رہیں یعنی سرکاری خزانے سے اس خطیر رقم کے انعام کا اعلان سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے اعلیٰ افسران کوخطیر رقموں کے ذریعے خریدنے کا طریقہ نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے موجودہ حکومت اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بیٹھے ہوئے سینکڑوں افسروں کی تنخواہوں میں ایگزیکٹو الاؤنس کے نام پر ایسااضافہ کرچکی ہے جس سے دیگر ہزاروں بلکہ لاکھوں ملازمین کو محروم رکھا گیا ہے۔ ماضی میں یہ پالیسی چند آنکھ کے تاروں تک محدود تھی جنہیں مختلف اتھارٹیوں میں پوسٹیں دیتے ہوئے لاکھوں روپے ماہانہ کی اضافی تنخواہیں دی جاتی تھیں مگر موجودہ حکومت پریشان تھی کہ برس ہا برس تک نواز لیگ کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی اس کے جائز وناجائز کاموں میں تعاون نہیں کر رہی مگر اب یہ صورتحال نہیں رہی۔ اگرچہ اعلیٰ عہدوں پربیٹھے ہوئے افسران نیب اور دیگر اداروں کی وجہ سے پریشان اور خوفزدہ بھی ہیں مگر اس کے باوجود عثمان بُزدار ایس اینڈ جی اے ڈی اور پولیس کی ہائی کمان میں اپنا گروپ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ان کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے گروپ کے پاس صوبے کی چیف سیکرٹری شپ نہیں ہے کیونکہ پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری سابق دورمیں بھی اہم عہدوں اور وزیراعلیٰ کے بھرپور اعتماد کو انجوائے کرتے رہے ہیں لہذا وہ اپنا کوئی گروپ بنانے کے لئے متحرک نہیں ہیں۔ سیکرٹریٹ رپورٹروں کے مطابق حکومتی گروپ اس وقت ٹی کے، کی سربراہی میں چل رہا ہے۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت بیوروکریسی سے کہیں زیادہ پولیس میں اپنا گروپ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ پولیس افسران کا یہ وفادار گروپ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کی دفعات لگانے میں بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتا۔ مجھے لاہور پولیس کے سربراہ کا موقف بتایا گیا کہ ان کے مطابق ٹھوکر نیاز بیگ پر پولیس اور لیگی کارکنوں کے درمیان تصادم پر دہشت گردی کی دفعات پولیس نے نہیں بلکہ پراسیکیوشن ڈپیارٹمنٹ نے لگائی تھیں مگرجب میں نے متعلقہ وکلا سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ پراسیکیوشن ڈپیارٹمنٹ کسی بھی چالان میں اس وقت ترمیم کر سکتا ہے جب تفتیش مکمل ہونے کے بعد چالان جمع کروا دیا جائے مگر جب یہ دفعات لگائی گئیں تو اس وقت تک چالان ہی مکمل نہیں ہوا تھا۔
پولیس افسران کا یہ گروپ اپوزیشن کی پوری قیادت پر غداری اوربغاوت کا ایسی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے سے بھی نہیں جھجکتا جو کسی حکومت کی باقاعدہ مدعیت کے بغیر لگائی ہی نہیں جا سکتیں اور ایک تھرڈ ریٹ پولیس افسرکو بھی علم ہے کہ وہ کسی شہری کی شکایت پر غداری کا مقدمہ درج نہیں کر سکتا مگر وہ بھی آدھی رات کے وقت درج ہوجاتا ہے اور پھراس کے بعد حکومت کو اس سے لاتعلقی ظاہر کرنا پڑتی ہے۔ حکومت کا وفاداریہ گروپ آج ہونے والے اپوزیشن کے جلسے کے لئے جب سرگرم سیاسی کارکنوں کی فہرستیں تیار کرتا ہے تو ان میں منتخب ارکان اسمبلی، سابق وزرا، بلدیاتی عہدے داروں اور خواتین تک کے ناموں اور ٹیلی فونوں کے اوپر جو سرخی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام لوگ لاہور کے شرپسند افراد ہیں۔ پولیس اس وقت حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھوں کی چھڑی سے بھی کچھ آگے کی شے بنی ہوئی ہے اور اس کے بدلے میں اوپر والے گریڈوں کے لئے بھاری اضافی تنخواہیں اور آدھے آدھے کروڑ کے انعامات ان کے لےے محض مونگ پھلی ہیں۔
کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ پچاس لاکھ رروپے کی رقم اہم نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کے ذریعے یہ رقم جا رہی ہے ان کے لئے پچاس لاکھ روپے کمانا کوئی بڑی بات نہیں ہے لہذا اصل بات یہ ہے کہ کارکردگی ظاہر کی جائے مگر دوسری طرف یہ واضح ہو گیا ہے کہ اکبر ملہی نے اپنے بیٹے کی گرفتاری خود کروائی مگر یہاں بوجوہ یہ سفارش نہیں کی جاسکتی کہ یہ انعام اکبر ملہی کو دیا جائے۔ اکبر ملہی نے سینئر کرائم رپورٹر اور پروگرام تفتیشی کے اینکر سلمان قریشی سے انٹرویو میں تجویز دی کہ اگر یہ رقم کسی کو دی ہی جانی ہے تو کسی رفاعی اور فلاحی ادارے کو دے دی جائے مگر پولیس افسران اس کے ہرگز حقدار نہیں ہیں۔ یہ امر ویسے بھی تشویشناک ہے کہ ہماری سوا کھرب کا سالانہ کا بجٹ لینے والی پنجاب پولیس ایک ملزم کو بھی پکڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور جب وہ گرفتاری دیتا ہے تو اس کا کریڈٹ لے لیتی ہے۔ میں اس افسوسناک صورتحال کو لاہور ہائی کورٹ کے محترم چیف جسٹس کی آبزرویشن کے ساتھ مکمل کرنا چاہوں گا کہ پولیس کی ذمے داری ہی ملزمان پکڑنا ہے اور اگر آپ پولیس والوں کو ملزم پکڑنے پر ہی قومی خزانے سے لاکھوں کروڑوں روپوں کے انعامات دینے لگ جائیں گے تو یہ سوال بجا ہو گاکہ پھر وہ تنخواہیں کس بات کی لیتے ہیں، اس کے بعد ہر پولیس افسر انتظارکرے گا کہ مجرم کی گرفتاری پر لاکھوں روپے انعام ہو تو وہ گرفتار کرے ورنہ اسے کیا ضرورت ہے کہ ملزموں کے پیچھے خجل خوار ہوتا پھرے، اسے کیا ملے گا؟
کیا آپ نے کبھی کسی بھی کمپنی کی اشتہاری انعامی سکیمیں دیکھی ہیں تو ان کے اشتہارات میں واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس انعام کے حقدار کمپنی کے اپنے ملازمین نہیں ہوں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر کمپنی نے اپنے ہی بندوں کو انعام دینا ہے تو پروموشن کیسی اور عام آدمی کے لئے اٹریکشن کیسی، یہ پابندی نہ ہو تو کمپنی کے کرتے دھرتے اپنے ہی چاچوں، تائیوں، مامووں میں انعامات تقسیم کر لیں۔ اگر پنجاب حکومت نے یہی روایت جاری رکھی تو عین ممکن ہے کہ سرکاری خزانے سے اگلے انعام خود وزیراعلیٰ اور مختلف وزیر وصول کر رہے ہوں اور یوں بھی اگر عابد ملہی کی گرفتاری پر پولیس والوں کو ہی انعام دینا ہے تو اس کے اصل حقدار تو وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جو اس آپریشن کی خود مانیٹرنگ کرتے رہے اور بعض حکومتی ترجمانوں کے مطابق صبح چار، چار بجے تک اپنا دماغ کھپاتے رہے۔ جب بغیر کچھ کئے ہی انعام لینا ہے توجناب وزیراعلیٰ دوسروں کو موقع کیوں دیتے ہیں اور یہ دیہاڑی خود ہی کیوں نہیں لگا لیتے کہ پولیس والوں کے پاس اوربھی بہت سارے موقعے موجود ہیں۔