پاک فوج کے خلاف مہم اس وقت عروج پر ہے جس وقت غزہ میں اسرائیل صرف اس وجہ سے بچوں کے بہیمانہ قتل کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہا ہے کیونکہ فلسطینیوں کے پاس نہ اپنا دفاع ہے اور نہ ہی فوج۔ پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اس کی فوج سے محروم کر دیا جائے اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم فوج اور عوام کے درمیان ایسے فکری مغالطے اور قلبی فاصلے پید اکر دئیے جائیں وہ انیس صد اکہتر میں مجیب الرحمان نامی لیڈر نے بھارت کے ساتھ مل کر پیدا کئے تھے۔
پاکستان کی فوج ایک مرتبہ کمزور ہوگئی تواس کے بعد نریندر مودی کے لئے لاہور، کراچی اور پشاور جیسے شہروں کو غزہ بنانا اتنا ہی آسان ہوجائے گا جتنا نتن یاہو کے لئے ظلم اور بربادی کی نئی تاریخ لکھنا ہوا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، دنیا کی نظر میں پاکستان کی اہمیت ایک سیکورٹی سٹیٹ کی ہی ہے جس کی اہمیت نہ اس کی آئینی اور جمہوری روایات ہیں نہ ہی سماجی اور ثقافتی اقدار، حتیٰ کہ کوئی معاشی اہمیت بھی نہیں ہے۔
دنیا ہمیں چین، افغانستان، بھارت اور ایران کے ہمسائے کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی فارن ڈیلیگیٹ آتا ہے تو وہ وزیراعظم کے بعد جس شخصیت سے سب سے زیادہ ملنے کا خواہاں ہوتا ہے وہ چیف آف آرمی سٹاف ہیں۔ ایسے میں اگر پاک فوج کے بارے کوئی سیاسی جماعت باقاعدہ طور پر مغالطے پیدا کرے تواس کی سرگرمیوں پر تحقیق، پس پشت عناصر، رابطے اور تعلقات کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
عوام اور فوج کے درمیان مغالطے کس طرح پیدا کئے جاتے ہیں۔ اس کا سادہ سا طریقہ فکری ابہام پیدا کرنا ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ غربت اور مہنگائی جیسے مسائل سے پریشان عوام کے ذہنوں میں ڈال دو کہ تمہارا بجٹ فوج کھا جاتی ہے اور یہ موازنہ نظرانداز کر دو کہ دنیا بھر میں تعداد کے حوالے سے چھٹے اور پروفیشنل انڈیکٹرز پر اس سے کہیں اوپر کے درجے پر موجود فوج اپنے سپاہی پر دنیا کے باقی تمام ممالک کے مقابلے میں کتنا کم خرچ کررہی ہے۔
ہر وفاقی بجٹ پر ایک اور طرح گمراہ کیا جاتا ہے کہ دفاع کے بجٹ کا تقابل وفاق (یعنی اسلام آباد) کے تعلیم اور صحت کے بجٹ کے ساتھ کرکے کہہ دیا جاتا ہے کہ موخرالذکر مونگ پھلی کا دانے ہیں مگر یہ ہرگز نہیں بتایا جاتاکہ پاکستان کے آئین کے مطابق دفاع اکلوتے وفاق کی ذمے داری ہے جس میں صوبوں کا شیئر نہیں ہوتا مگر تعلیم اور صحت مکمل طور پر صوبوں کے اخراجات ہیں یعنی اگر آپ پاکستان کے دفاع کا بجٹ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو صرف وفاقی بجٹ میں ہی اس کے اعدا د و شمار ملیں گے لیکن اگر آپ تعلیم اور صحت کے بجٹ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اسلام آباد کے ساتھ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے بجٹوں کو بھی جمع کرنا پڑے گا، پھر آپ حقیقی اعداد و شمار حاصل کر سکیں گے۔ وفاقی بجٹ صرف ان ہسپتالوں یا تعلیمی اداروں کے ساتھ ڈیل کرتاہے جو اسلام آباد ہیں یا صوبوں میں وفاق کے تحت چلتے ہیں، صوبوں میں یہ تعداد ان کے اپنے صحت اور تعلیم کے اداروں کے مقابلے میں واقعی نہ ہونے کے برابر ہے۔
حال ہی میں پاک فوج کے خلاف شروع ہونے والی مہم بھی بنیادی طور پر فکری مغالطوں سے سجی ہوئی ہے۔ پاکستان کی فوج تین برس پہلے یہ فیصلہ کر چکی کہ وہ سیاسی اور عدالتی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ فارمیشن کمانڈرز کی سطح پر کیا گیا تھا اور اس وقت نافذ العمل ہے مگر دشمن کی سازش یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں موجود کسی ایک یا زائد گروہوں کے ذریعے اس بارے ابہام پید ا کرے اور بدقسمتی سے اس کے لئے قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ تک کا پلیٹ فارم استعمال ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کہہ چکے ہیں کہ ان کے دور میں کسی قسم کی کوئی مداخلت رپورٹ نہیں ہوئی مگر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ دلچسپ حقیقت نہیں ہے کہ پروپیگنڈہ کرنے والے ا س گروہ کے قائد ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہیں ان کے مخالفین نے باقاعدہ آئینی اور پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق عہدے سے الگ کیا اوراس کے لئے نہ کوئی اٹھاون ٹو بی استعمال کی گئی اور نہ ہی کسی عدالت کا فیصلہ۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ قومی اسمبلی کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے عدالت سے رجوع کرنا پڑا اور عدالت نے اس مزاحمت کو صریح آئین شکنی قرار دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئینی اور قانونی پلیٹ فارمز پر موجود ہے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک سیاسی رہنما کے گرفتار ہونے پر اس کے حامیوں نے پاک فوج کے ہیڈکوارٹرز اور شہداء کی یادگاروں پرحملے کر دئیے جس کا بھارت میں باقاعدہ جشن منایا گیا۔
پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مضبو ط سیاسی نظام اور سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں اتنا میرٹ اور جمہوریت بھی نہیں جتنا اس فوج میں ہے جس پر وہ مداخلت کے الزامات لگاتی ہیں۔ یہ بارہا تحریر کردہ چیلنج ہے کہ فوج کی کورکمانڈرز کی میٹنگ اس سے کہیں زیادہ تواتر سے بھی ہوتی ہے اور جمہوری بھی ہوتی ہے جتنی کسی بھی سیاسی جماعت میں اس کے اداروں کے ذریعے مشاورت اور فیصلہ سازی۔ کمزور سیاسی رہنما اپنی کمی اور کوتاہی ماننے کی بجائے یہ آسان سمجھتے ہیں کہ وہ مسائل کی ذمے داری کسی اور پر ڈال دیں جیسے کے پی اور بلوچستان سے فوج پریا پنجاب پر۔ ان کی رہنماؤں کی دولتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور عوام کے مسائل میں بھی کیونکہ ان کا ٹارگٹ صرف اور صرف اپنی رائلٹیاں اور کمیشنیں ہوتی ہیں صوبوں اور عوا م کے حقوق نہیں۔
فوج کے خلاف سرگرم گروہ نے ساڑھے تین برس سے زائد عرصے میں پنجاب جیسا صوبہ بزدار جیسے نااہل شخص کے حوالے کئے رکھا اور خود ان کے کرشمہ ساز لیڈر نے کوئی میگا پراجیکٹ تک نہ دیا۔ ستر برس سے کے قرضوں میں ساڑھے تین برس میں ستر فیصد سے زائد اضافہ کر دیا لہٰذا یہاں اپنی نااہلی اور کرپشن بچانے کے لئے ایک سافٹ ٹارگٹ درکار تھا۔
مجھے معذرت کے ساتھ کہنا ہے کہ واقعی کسی دور میں بہت ہارڈ ٹارگٹ اب بہت سافٹ ہو کے رہ گیا ہے اور بات صرف عزم استحکام کی مخالفت کی نہیں رہ گئی ہے بلکہ ہر قسم کے استحکام کی مخالفت ہور ہی ہے۔ جیسے مذاکرات سے انکار کرکے سیاسی استحکام کی اورآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو پاکستان کو قرض نہ دینے کا کہہ کے، پاک چین تعلقات پر پروپیگنڈہ کرکے معاشی استحکام کی۔
سب سے خوفناک سازش یہ ہے کہ فوج پر حملہ آور ہو کے قومی، نظریاتی اور جغرافیائی استحکام پر کلہاڑے چلائے جا رہے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اگر فوج کمزور ہوگئی تو پھر نریندر مودی کو نتن یاہو بننے سے کون روکے گا، ہمارے بچے کون بچائے گا؟