آپ دانشور ہیں، وہی والے، جو گرج گرج اور برس برس کر انقلاب لایا کرتے تھے، قائد کے پاکستان کو ڈھا کر نیا پاکستان بنایا کرتے تھے توبصد احترام آپ دانشوری چھوڑ کے کریانے کا سٹور کیوں نہیں کھول لیتے مگر وہاں بھی ایک مسئلہ ہو گا کہ آپ دال کی جگہ کنکر بیچیں گے اور چائے کی پتی کی جگہ چنوں کے چھلکے، اینٹوں کا بُرادہ آپ کو مرچیں لگے گا یعنی آپ فیس ویلیو پر جائیں گے، سیلز مین کی لفاظی پر جائیں گے، ان خوبیوں پر جائیں گے جو موجود ہی نہیں ہوں گی اور جو لوگ آپ کی دکانداری کی صلاحیت پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کی تجویز کردہ نئی پراڈکٹ خرید کر لے جائیں گے وہ بلک بلک کر روئیں گے کہ پراڈکٹ کی فوری واپسی پالیسی میں ہی نہیں ہے۔ پھر انہیں پتا چلے گا کہ وہ پراڈکٹ جو برسہا برس سے استعمال کر رہے تھے وہی بہترین تھی، وہی قابل اعتماد تھی۔
آج کل ہمارے ان دانشوروں میں خود کو گالیاں دینے کا ٹریند چل رہا ہے کوئی خود کو احمق اور جاہل کہہ رہا ہے اور کوئی الوکا پٹھا مگر کیا یہ اعتراف اُن مسائل کا حل ہے جو ان کی کج فہمی نے پیدا کر دئیے ہیں۔ ہماری جی ڈی پی سکڑ رہی ہے اوراس کی مثال پھر کریانے کی بھری پُری دکان کی ہے جو خالی ہونے لگی ہے۔ ہمارا گروتھ ریٹ منفی میں ہے یعنی وہ ہمارا پودا بڑا ہونے کی بجائے چھوٹا ہو رہا ہے، پھل سے محروم ہو رہا ہے۔ میرے بہت ہی محترم دوست اشرف ممتاز نے لاہور میں ایک پلاٹ خریدنا تھا۔ ایک شخص نے انہیں ایک قیمتی پلاٹ دکھایا اور مگراس کی ملکیت کا جھگڑا تھا۔ اس نے انہیں پورا یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس جھگڑے کے پلاٹ سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، ا س نے دلیل دی کہ کل کلاں اگر اس پلاٹ کی وجہ سے کوئی نقصان ہوا تو کہنالعنت ہو تم پر۔ اشرف ممتاز سیانے آدمی ہیں، بولے، میں زندگی کی جمع پونجی لگا کے ایک مکان بناؤں اور پھر اس کی رجسٹری جعلی نکل آئے، میری عمر بھر کی پونچی لٹ جائے اور میں یہ کہہ کر دیوالیہ ہوجاؤں کہ لعنت ہے تم پر۔ یہ کیسا سودا ہے؟
چلیں، حکومت اور کورونا کی وجہ سے ویہلے بیٹھے ہیں، ایک اورمثال لے لیتے ہیں، کوئی ایسا شخص جس پر آپ بہت اعتماد کرتے ہوں وہ آپ کے بیٹے یا بیٹی کے رشتے کے لئے کوئی تجویز دیتے ہوئے اس کی بہت خوبیاں بیان کرے مگربعد میں علم ہوکہ جسے داماد بنایا ہے وہ تو کماتا ہی نہیں ہے، لاکھوں کروڑوں کی باتیں کرنے والے کی تو دکان پکوڑوں کی بھی نہیں ہے اور وہ فخر سے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کاروبار نہیں ہے یا اس نے بہو تلاش کر کے دی، ساتوں گُن گنوا دئیے مگر اس نے برس دو برس میں گھر والوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے، ساس کی چٹیا ہاتھ میں پکڑوا دی۔ اب وہ شخص کہے کہ وہ بہت شرمندہ ہے تو اس شرمندگی کا کیا فائدہ ہے، کوئی نہیں، کہ زندگی میں جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ایسے میں آپ کے محلے کا وہ شخص جو کہے کہ اسے بندے پہچاننے کا بہت تجربہ ہے۔ وہ آپ کو روز بتائے کہ فلاں کا ڈرائیور پٹرول چوری کرتا ہے اور فلاں کا ڈرائیورڈیوٹی پر ہی نہیں آتا۔ آپ یہ سمجھیں کہ اسے ڈرائیوروں کا بہت علم ہے اور وہ آپ کی قیمتی گاڑی کے لئے ایک ڈرائیور یہ کہہ کر رکھوا دے کہ یہ پروفیشنل بھی بہت ہے اور ایماندار بھی مگر وہ ڈرائیور گاڑی کی بھری ٹینکی ہی خالی نہ کردے بلکہ ہر روز ٹکریں بھی مارتا پھرے تو کیا آپ اس پھپھے کٹن محلے دار سے یہ نہیں کہیں گے کہ چل نقصان بھر۔
اب لطیفہ اور سانحہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے جعلی رجسٹری والا مکان خرید دیا اور وہ رشتے دار جس نے گھٹیا قسم کا داماد یا بہو سر چڑھوادی یا وہ محلے دارجس نے اناڑی اور کرپٹ ڈرائیور متھے مار دیا اب یہ کہیں کہ ایک منٹ ٹھہریں، ہم سے غلطی ہو گئی، ہم ہیں تو الو کے پٹھے مگر آپ اب بھی ہم سے ہی مشورہ کریں کہ آپ نے کون سا مکان خریدنا ہے، دوسرے بچے کی شادی کہاں کرنی ہے اور اب کون سا ڈرائیور رکھا جائے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جب یہ لوگ اپنی رائے ٹھونس رہے تھے تو اس وقت بھی بہت سارے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان کے مشورے غلط ہیں۔ ہم ان لوگوں کو جانتے ہیں۔ یہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ یہ فٹ بال کے وہ کھلاڑی ہیں کہ اگر آپ انہیں دوسری ٹیم میدان سے باہر نکال کر بھی دے دیں گے تو یہ اپنے ٹھڈوں سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف گول کر دیں گے۔ آپ انہیں ہاکی کھلائیں گے تو یہ ہاکیاں مار مار کے گوڈے گٹے توڑ لیں گے۔ یہ صرف باتیں کرنا جانتے ہیں اورکچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہے کہ جب یہ سچ بولے جا رہے تھے تو ان کے خلاف اتنی گرد اڑائی جا رہی تھی کہ سب چہرے دھندلا رہے تھے۔ ہمارے سچ تسمے باندھتے رہ جاتے تھے اور ان کے جھوٹ اولمپک میں پہنچ جاتے تھے
اب سوال تو آپ سے ہے کہ کیا آپ ان لوگوں پر دوبارہ اعتماد کریں گے یا انہیں کہیں گے کہ جاؤ بھائی، اب یہ تجزیہ کاری، دانشوری اور رہنمائی کی دکان نہ لگاو، جاو کوئی کریانہ سٹور کھول لو جیسے ایک سوشل میڈیائی دانشور کے نام کے ساتھ ایک دکان کھلی ہونے کی تصویر ملتی ہے اوراس دکان کے بورڈ پر لکھا ہوا ہے سابق دانشور۔ ویسے اگر یہ لوگ کریانہ سٹور بھی کھول لیں تو ان کی بیچی ہوئی دال، چینی ا ور چاول وغیرہ پر ایک مرتبہ غور ضرور کیجئے گا کہ عین ممکن ہے کہ یہ آپ کو گھر کی ہانڈی کے لئے جو دال بیچیں وہ محض کنکر ہوں۔ جب آپ اس دال کو چننے لگیں تو بیچ میں سے ایک بھی دانہ ٹھیک نہ نکلے اور جب ہانڈی چڑھا دیں تو وہ پندرہ منٹ میں گل جانے والی دال پندرہ گھنٹوں میں بھی نہ گلے۔ ویسے ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا کاں چٹا ہی ہے اور ان کی مرغی کی ایک ہی ٹانگ ہے۔ یہ وہ دانشور ہیں جنہوں نے دال کی دکان کھول تو لی ہے اور دال بیچنی بھی شروع کر دی ہے اور جب کچھ لوگوں نے ان سے جا کر شکوہ کیا ہے کہ تمہاری دال تو گلتی ہی نہیں، یہ تو پتھر کی طرح سخت ہے، پیٹ میں درد بھی کر رہی ہے اورآنتوں میں مرض بھی توجواب مل رہا ہے، جاو جاو، بڑے آئے دال کھانے والے، یہ منہ او ر مسور کی دال۔ جب یہ سودا بیچ رہے تھے تو ہر قسم کی گارنٹی دے رہے تھے، بنیانیں بیچنے والے اس پٹھان کی طرح جویہ اعتماد دیتا ہے کہ پہنی ہوئی بھی واپس ہوجائے گی۔ ان کریانہ فروشوں سے دست بستہ درخواست یہ ہے کہ آپ کی بیچی دال وبال بن گئی ہے، گھی مرچ مصالحوں کا نقصان ہمارا مگر کیا یہ پکی ہوئی ہانڈی واپس ہوسکتی ہے؟