اگر تم وہی ہو جسے پاکستان اچھا نہیں لگتا، جسے بل زیادہ لگتے ہیں اوراپنی آمدن کم، تم بجلی کے لئے یوپی ایس لگاتے ہو اور گیس کے لئے کمپریسر اور غصے میں آ کے اس جھوٹ کو سچ سمجھتے ہو جس میں گیلپ سے منسوب کیا گیا کہ چورانوے فیصد پاکستانی اپنے ملک کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو یہ تحریر تمہارے ہی لئے ہے۔ سب سے پہلے گیلپ کے سروے بارے حقائق بتا دوں، اس سروے میں ستر فیصد سے بھی زائد پاکستانیوں نے کہا کہ وہ کسی صورت بھی پاکستان نہیں چھوڑیں گے۔
پاکستان صرف سوشل میڈیا پر شور مچانے والوں کا نام نہیں ہے، آدھے پاکستانی اس وقت بھی ان ایپس سے دور ہیں مگر اس کے باوجود شکایتیں کرنے والے انٹرنیٹ اور سمارٹ فون استعمال کرکے کہتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ جب تم اور تمہارے جیسے یہ کہتے ہیں تو کیا یہ کھُلا تضاد نہیں ہے۔
تُم کہتے ہو کہ پاکستان نے ترقی نہیں کی اور میں تُم سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان کے سو فیصد شہری اس وقت اپنے والدین سے کہیں زیادہ بہتر معیار کے ساتھ زندگی نہیں گزار رہے۔ جن کے والدین نے زندگی بھر بسوں اور ویگنوں پر دھکے کھائے کیا ان کے گھروں میں کوئی نہ کوئی سواری موجو د نہیں۔ جن کے ماں باپ کے گھروں میں ایک پنکھے کے نیچے پورا خاندان سویا کرتا تھا کیا ان کے گھروں میں ائیرکنڈیشنرز موجود نہیں ہیں۔ کیا ہمارے دیہات تک ٹی وی، کمپیوٹر اور سمارٹ فونز نہیں پہنچ چکے۔
مجھے ایک مرتبہ شاہ عالمی کے تاجروں نے کہا کہ ان کا کاروبار نہیں ہے، وہ ٹیکس نہیں دے سکتے اور میرا جواب تھا کہ تمہارے ماں باپ اندرون شہر کے کھولی نما گھروں میں رہتے تھے اور آج اگر چار بھائی ہیں تو ان چاروں کی ہی پوش ایریاز میں کئی کئی کروڑ کی کوٹھیاں ہیں۔ اگر تمہارا روزگا رنہیں ہے اور تمہیں اس وطن نے کچھ نہیں دیا تو پھر یہ سب کہاں سے آیا۔ تُم کہتے ہو کہ ہم ٹیکس دینے کے لئے اس لئے تیار نہیں کہ ہمیں اس ٹیکس کے ریٹرن میں کیا ملتا ہے تو مجھے بتائو کے تم ٹیکس دیتے ہی کتنا ہو۔ اس کو قومی سطح پر ماپنے کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو۔ ہم اس وقت نو فیصد پر ہیں جبکہ ترقی یافتہ اقوام چالیس فیصد سے بھی اوپر جا چکی ہیں، انڈیا بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔
جب تک ٹیکس نہیں دو گے تو حکمران کوئی بھی ہو، یہ نواز شریف ہو، عمران خان ہو، پرویز مشرف ہو یا آصف زرداری، یہ اپنی جیب سے تمہارے لئے سڑکیں، سکول اور ہسپتال نہیں بناسکتا۔ تم پروپیگنڈہ کرتے ہوکہ حکمران قرضہ لیتے ہیں اور سوال یہ ہے کہ جب تم ٹیکس ہی نہیں دو گے تو ملک چلانے کا دوسرا طریقہ کیا ہوگا۔ تُم کہتے ہو کہ عمران خان نے جاتے جاتے پٹرول اور بجلی سستی کر دی تھی تو سوال ہے کہ اس نے کیا یہ اپنے والد کی کمائی سے کیا تھا یا اس پر وہ قرض خرچ کیا گیا تھا جس کا معاہدہ اس نے توڑ دیا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے پر پہنچا دیا۔ ان سے ہوشیار رہو جو اپنے وقتی، ذاتی اور سیاسی فائدے کے لئے تمہیں بھنگ کے لڈو کھلاتے اورلوٹ لیتے ہیں۔ یہ وطن ہم سب کا ہے اور ہم سب نے اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا شئیر ادا کرنا ہے۔
تُم کہتے ہو کہ پاکستان بننا ہی نہیں چاہئے تھا کہ اس کا کیا فائدہ ہوا۔ جب تم یہ بات کہتے ہو تو مجھے ذہنی معذور لگتے ہواور شاہ دولہ کے چوہے۔ ان مسلمانوں سے پوچھو جو اس وقت ہندوستان میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مسلمان مل کر بڑی قوت ہوتے، ضرور ہوتے مگر ہندو ان سے بھی بڑی قوت ہوتے، مان لو، اسلام سچا دین ہے اور جو لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے نظریہ پاکستان کو بحیرہ عرب میں ڈبو دیا ہے وہ تمام کے تمام عبرتناک انجام سے دوچار ہو چکے۔
تمہیں کچھ دن پہلے تک بنگلہ دیش کی ترقی کے سراب کے پیچھے دوڑایا جاتا تھا۔ تمہیں ایکس جیسے پلیٹ فارم کی بندش ایسی لگتی ہے کہ اول فول بکنے لگتے ہو اور وہاں شیخ مجیب کی بیٹی پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پھانسیاں دے رہی تھی تو وہ بہت اچھا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہر شیخ مجیب کتے کی موت ہی مرے گا۔ کیا ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں وہ آزادی اور خودمختاری کے ساتھ رہتے ہیں، کیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تمہاری آنکھیں اور دماغ کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟
تُم کہتے ہو کہ تم یورپ بھاگ جانا چاہتے ہو تو بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جائو۔ یورپ کی بات بعد میں کروں گا، کئی نام نہا د مولوی تمہیں افغانستان کے حوالے سے بے وقوف بناتے ہیں مگر ان کی اپنی بیٹیاں جینزاور شارٹس پہن کے یورپی نہروں کے کنارے پوز مار رہی ہوتی ہیں اور تمہیں وہ افغانی چُورن بیچ رہے ہوتے ہیں جو تمہارا اپنے وطن سے دل خراب کر رہا ہوتا ہے۔ اگر انہیں اسلحے اور منشیات کے دھندوں میں پھنسا وارلارڈز کا افغانستان اتنا ہی اچھا لگتا ہے تو وہ خود وہاں کیوں دفع نہیں ہوجاتے۔ کیا کسی کو اپنی ماں اچھی نہ لگتی ہو تو کیا وہ کسی دوسری عورت کو ماں بناسکتا ہے، مگر یہ بنا لیتے ہیں۔ بہت سارے یورپی ملکوں میں جا کے بس جانے والوں کے بارے میں یہی کہوں گا کہ ان کی اگلی ایک آدھ نسل تک ہی مسلمان ہوگی، دوسری اور تیسر ی نام کی مسلمان رہ جائے گی اور شائد اس کے بعدوہ شائد نام کے بھی مسلمان نہ رہیں، آہ، کیاگھاٹے کا سودا ہے۔
تم کہتے ہو کیا فائدہ آزاد وطن کا اور کیا فائدہ پاک فوج کا تو اس کا جواب تمہیں اس وقت انگلینڈ کی وائرل ہونے والی ویڈیوز میں بھی مل جائے گا کہ تم کئی کئی نسلوں تک ان کی خدمت کرنے کے باوجود تھرڈ ریٹ سٹیزن ہی رہو گے۔ ہر بحران میں وہ تمہیں کتوں بلوں کی طرح ٹریٹ کریں گے۔ تم ان کی نظر میں گھُس بیٹھیے اور غدار ہی رہو گے۔ آزاد وطن اور مضبوط فوج کی قدر پوچھنی ہے تو غزہ والوں سے پوچھو۔ ہمارے پاس بھی نریندر مودی کی صورت نتن یاہو جیسا ایک دشمن موجود ہے۔ وہ نتن یاہو جس نے سکول چھوڑے نہ ہسپتال۔ جس نے معلوم تاریخ میں ہونے والی جنگوں میں سب سے زیادہ بچے مار دئیے۔
اگر تمہارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا اور تمہارے بیٹے تمہارے بھائی فوج میں تمہارا دفاع نہ کر رہے ہوتے تو تمہارے بچوں کے ساتھ ہی (خدانخواستہ) وہی کچھ ہوتا۔ تُم بُرا مت منانا مگر میں سے بہت ساروں کو اپنا وطن اس لئے بُرا لگتا ہے کہ تُم خود برے ہو، کام چور ہو ورنہ جو لوگ یورپ میں جا کے سولہ سولہ گھنٹے کی مشقت کرتے ہیں اپنے وطن میں وہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ایمانداری سے نہیں کرتے، یہاں ٹریفک سگنلز کی پابندی نہیں کرتے، یہاں بے ایمانی اور کام چوری کرتے ہیں ورنہ اسی ملک کے میاں چنوں سے ارشد ندیم نکلتا ہے اور ورلڈچیمپئن بن جاتا ہے۔