پاکستان میں میڈیکل پروفیشن اور ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے کے لئے اٹھاون برس سے ایک ادارہ موجود تھا جس کا نام پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تھا، جیسے پاکستان کے کسی بھی ادارے کو سٹیٹ آف دی آرٹ، اوراپ ٹو ڈی مارک، نہیں سمجھا جا سکتا تو اسے بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں تھا مگر اسی کے بنائے ہوئے ڈاکٹروں نے یورپ اور امریکا سمیت دنیا بھر میں اپنا لوہا ہی نہیں منوایا بلکہ پرسٹل پروٹیکٹیو ایکوپیمنٹس سمیت دیگر ضروریات کے بغیر جس طرح کورونا کا مقابلہ کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان کے ڈاکٹر کو دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس میں گورنمنٹ اور پرائیویٹ اداروں کا کوئی فرق نہیں کہ جب ایک ڈاکٹر سٹینڈرائزڈ ایگزام پاس کر لیتا ہے تو وہ ڈاکٹر ہوتا ہے، سپشلسٹ ہوتا ہے۔ مجھے ہرگز علم نہیں کہ حکومت کے پاس پی ایم ڈی سی کو ختم کر کے پی ایم سی بنانے کا کیا جواز ہے سوائے چند بیانات کے جو یہ بتاتے ہیں کہ پی ایم ڈی سی ایک پرانا ادارہ تھا اور جدید دور کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کمیشن ضروری ہے۔ اب جملہ معترضہ لیجئے کہ آپ ہر جگہ کمیشن لے لیجئے مگر ہیلتھ کے شعبے کو تو چھوڑ دیجئے اور اس دلیل کو بھی دل نہیں مانتا کہ ہم نے ہر پرانا ادارہ ختم کر دینا ہے تو پھر یورپ سے کہئے کہ صدیوں پرانے تعلیمی ادارے بھی ختم کر دے، ہم بھی پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج ختم کر دیتے ہیں کہ یہ بہت پرانے ادارے ہیں بلکہ میں تو قائل ہوں کہ پرانے ادارے تجربہ رکھتے ہیں، ایک اثاثہ ہوتے ہیں۔
سچ بتاوں تو مجھے پرانے دوست پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کی اصولی باتیں زیادہ سمجھ نہیں آئیں، ہاں، وائے ڈی اے کے نوجوان صدر سلمان حسیب ضرور سمجھانے میں کامیاب رہے کہ پی ایم ڈی سی اور پی ایم سی ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں کیونکہ بظاہر دونوں ہیلتھ پروفیشن کی ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں، دونوں کا کام ہی پروفیشنل لائسنس جاری کرنا ہے مگر دونوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ پی ایم ڈی سی میں سٹیک ہولڈرز شامل تھے اوراس کے ارکان کا باقاعدہ چناو ہوتا تھا جس کے بعد وہ اپنے پروفیشن کے ماضی، حال اور مستقبل کے لئے جوابدہ ہوتے تھے جیسے باقی تمام پروفیشنل اداروں میں ہے یعنی انجیئرنگ کا لائسنس جاری کرنے کے لئے انجینئرنگ کونسل موجود ہے اور وکالت کا لائسنس جاری کرنے کے لئے بار کونسل۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میڈیکل کمیشن میں کسی قسم کے انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ آسامیاں پرائم منسٹر ہاوس سے نامزدگی کے ذریعے پُر کی جائیں گی۔ اب وزیراعظم ہاوس ایک سیاسی ادارہ ہے جس کی اپنی مجبوریاں اور ضروریات ہوتی ہیں اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہیلتھ پروفیشنلز کی اس رائے سے اتفاق کرسکتا ہوں کہ وہاں سے جو لوگ بھی آئیں گے بھلے وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ہی کیوں نہ لکھتے ہوں بنیادی طور پرو ہ ٹاوٹ ہوں گے۔
جناب عمران خان کوملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں ایک حقیقت سمجھنی ہوگی کہ یہاں وزیراعظم تین، چار یا پانچ برس کے لئے آتے ہیں مگر ہمارے پروفیشنل ادارے عشروں نہیں بلکہ صدیوں کے لئے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ڈکٹیٹرز تو ایک طرف رہے ہمارے منتخب وزیراعظم بھی امیر المومنین بنتے ہوئے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پی ایم ڈی سی کے ساتھ تکنیکی بنیادوں پر اس سے پہلے جناب ثاقب نثار بھی کھلواڑ کر چکے ہیں مگر موجودہ حکومت نے تو اس پروفیشن کی بنیادوں میں ہی بارُود بھر دیا ہے۔ اپوزیشن نے اس بل کو سینیٹ میں مسترد کر کے حکومتی عزائم کو ناکام بنایا مگر حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں اسے ریاستی اداروں کی طاقت استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس سے منظور کروالیا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ ہمارے پارلیمنٹیرین بھی قوانین کو پڑھنے اور سمجھنے کے بجائے ان پر انگوٹھے لگاتے ہیں اور یوں اپنی عزت گنواتے ہیں۔ مجھے سلمان حسیب کے الفاظ یہاں دہرانے دیں کہ حکومت پہلے تمام کے تمام ہیلتھ پروفیشنلز کی واضح مخالفت کے باوجود میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ لے کر آئی اور عدالت کو بائی پاس کرتے ہوئے اسے پنجاب اسمبلی سے منظور کروا لیا اور اب پی ایم سی کا قیام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر عمل میں لایا گیا ہے، جس جرات، سے پارلیمان صحت کے شعبے کا قبضہ حکومت اور اس کے ایجنٹوں کو دیتی جا رہی ہے کیا یہ جرات انجینئروں کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے، وکلا کے ساتھ بھی دکھائی جا سکتی ہے کہ ان کے لائسنس وزیراعظم ہاوس کی نامزد کردہ کٹھ پتلیاں جاری کریں۔ اگر ایوان وزیراعظم یہ سمجھتا ہے کہ اس کی نامزدگیوں سے ادارے بہتر چل سکتے ہیں تو پھر دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ضدوں بھری نامزدگیوں سے پنجاب پولیس کو کتنا بہتر بنا لیا، اپنی چوائس سے ریلوے کو کتنا بہتر کر لیا۔ پی ایم سی سٹوڈنٹس پر بھی امتحانات کا ناروا اورناگوار بوجھ بڑھانے جا رہی ہے جس کی شدید مزاحمت ہے۔
ڈاکٹر اشرف نظامی کہتے ہیں کہ اس طرح کے کٹھ پتلی ادارے کو ہیلتھ پروفیشن کی انٹرنیشنل باڈیز بھی قبول نہیں کر سکتیں اور وہ پی ایم ڈی سی سے کھلواڑ کے موقعے پر اس بارے وارننگ جاری کر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا سے الگ ہو کر نہیں چل سکتے، ہمیں ڈاکٹروں کی لائسنسنگ اور اکاونٹیبیلیٹی سمیت دیگر امور کے لئے ویسے ہی ادارے بنانے ہوں گے جیسے دنیا بھر میں ہیں اور ان میں تمام سٹیک ہولڈرز کی بلاواسطہ نمائندگی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پی ایم سی میں ایوان وزیراعظم سے نامزدگیاں کی گئیں تو پی ایم اے بین الاقوامی اداروں کو براہ راست خط لکھے گی۔ میرا خدشہ ہے کہ اگر پی ایم اے نے یہ اقدام کیا تو اس کے نتیجے میں پی ایم سی کو دنیا کے مستند اداروں سے قبولیت نہیں ملے گی اور ہمارے وہ ڈاکٹر وہ بیرون ملک جاب کر رہے ہیں یا جو پڑھنے کے لئے جانا چاہتے ہیں ان کی ملازمتیں ختم اور تعلیم کے راستے بند ہو سکتے ہیں مگر میں نے محسوس کیا کہ اشرف نظامی بھی مجبور ہیں، انہیں اپنے ملک میں اپنے ہی پروفیشن کو بچانے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی تشکیل کو پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن (پامی) کی حمایت حاصل تھی جسے ڈاکٹر عاصم اور جناب جاوید اصغر چلا رہے تھے مگر وہاں بھی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن اس کے بلامقابلہ صدر منتخب ہو چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پی ایم ڈی سی ہو یا پی ایم سی، پامی، تمام ریگولیٹری اداروں کا احترام کرتے ہوئے صرف ان احکام کو تسلیم کرے گا جو جائز، قانونی اور منصفانہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مشن میڈیکل ایجوکیشن کے معیار کی بہتری ہے اوراس کے لئے وہ سٹوڈنٹس انگیج منٹس، ریسرچ کانفرنسز اور سیمینارز کوترجیحی بنیادوں پر کروائیں گے۔ میں نے ان کی جتنی گفتگو سنی ہے اس میں میڈیکل ایجوکیشن کی بہتری کے لئے وژن اور جذبہ جھلکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اس موقعے پر پی ایم اے اور وائے ڈی اے ان کے ساتھ مل کر ہیلتھ پروفیشن اور ایجوکیشن کی بہتری کے لئے روڈ میپ بنا سکتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومت قانون بنا چکی ہے جس کا اطلاق سب پر ہو گا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میڈیکل ایجوکیشن صرف سرکاری میڈیکل کالجزہی میں دی جا رہی ہے اورآپ پرائیویٹ کالجز کی خدمات اور کنٹری بیوشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اس قانون میں سے اچھی باتیں (اگر کچھ ہیں) تو انہیں خوش آمدید کہنا چاہئے، غلط اور بری باتوں کے خلاف ایک متفقہ لائحہ عمل بنانا چاہئے۔ اگر آپ سب متحد نہ ہوئے تو پھر میڈیکل ایجوکیشن اور پروفیشن کا اللہ ہی حافظ ہے جس کے بارے ٹوئیٹر پر پی ایم سی ریجیکٹڈ، کا ٹاپ ٹرینڈ چل چکا ہے۔