ہمار ے انصار عباسی جیسے بڑے بڑے صحافی حیران اورپریشان ہیں کہ جناب وزیراعظم کے بہنوئی جناب احد برکی کو ان کے پلاٹ کا قبضہ اب تک نہیں ملا جبکہ پولیس کی مدد سے اس برس انتیس فروری کو ڈپٹی رجسٹرار کواپریٹوبہ نفس نفیس خود یہ قبضہ دلوا چکے ہیں مگر اب واقفان حال کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے بہنوئی نے ایک کنال کا وہ پلاٹ فروخت کرنا ہے مگر پھڈے کا کوئی بھی پلاٹ اپنی حقیقی قیمت پر فروخت نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ جب پولیس نے قبضہ دلوا دیاتو رکاوٹ کیا ہے۔ رکاوٹ وہی ہے جس پر میں نے اس موضوع پر اپنے پچھلے کالم کا اختتام کیا تھا کہ ابھی تک سوسائٹی نے جناب احد برکی کو ملکیت کا لیٹر جاری نہیں کیا کیونکہ معاملہ عدالت میں ہے اوراس پر حکم امتناعی ہے۔ یہاں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جناب وزیراعظم اس مسئلے کی بنیاد کو حل کرتے یعنی فیصلہ عدالت سے آتا مگر انہوں نے شارٹ کٹ کھیلا کہ قبضہ پکا کرنے کے لئے پولیس کا چیف ہی بدل دیا۔
میں نے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ پی آئی اے سوسائٹی ہماری بڑی بڑی مشہور اور قیمتی سوسائٹیوں کے درمیان واقع ہے اوراس کامعاملہ بھی وہی ہے جو دوسری سوسائٹیوں کا ہے یعنی پلاٹوں کی فروخت اور خریداری میں گھپلے۔ سوسائٹی نے رقبہ خریدا مگر بعد میں علم ہواکہ جس نے بیچا وہ اس سے پہلے بھی بیچ چکا تھا، رجسٹری کر چکا تھا یا اس نے اپنے رقبے سے بھی زائد بیچ دیا۔ معاملہ یہ بھی ہوا کہ چاچوں بابوں کے ساتھ زمین کی تقسیم کے جھگڑے تھے اور کسی ایک نے زمین بیچ دی اور باقی دعوے دار بن گئے۔ اب وہ تمام لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے رقبے نئی نئی نئی بنتی سوسائٹیوں میں غیر قانونی طور پر فروخت ہو گئے وہ سب کے سب عدالتوں میں ہیں اور قبضہ گروپوں کی تعریف میں آ رہے ہیں۔ جناب احد برکی کا معاملہ سیدھا سادھا ہے کہ ان کے والد کو ایک پلاٹ الاٹ ہوا مگر وہ سوسائٹی کے ساتھ اسی قسم کے تنازعے والا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ سوسائٹی سے رابطہ کرتے اور اس کے متبادل پلاٹ لیتے مگر انہوں نے بھی اپنی اہلیہ کے بھائی کے وزیراعظم ہونے کا فائدہ اٹھایا۔ جناب احد برکی سینئر صحافی جناب انصار عباسی کو واٹس ایپ وائس میسج میں بتاتے ہیں کہ انتیس فروری سے دو روز پہلے انہوں نے حکم امتناعی خارج کروایا اوراس کے بعد پولیس کی مدد سے قبضہ لے لیا گیا مگر اس کے بعدان کے خلاف ایک اور حکم امتناعی حاصل کر لیا گیا جس کی وجہ سے وہ حقیقی قابض توبن گئے مگر قانونی قابض ابھی تک نہیں بن سکے.۔ میں جانتا ہوں کہ جناب احد برکی ایک نیک اور ایماندار شخص ہیں جو اپنے حق کے علاوہ زمین پر قبضے کے حق میں کبھی نہیں ہوسکتے مگر دوسری طرف بھی میرے سامنے رجسٹریوں اور انتقالوں کا ڈھیرپڑا تھا۔
جی ہاں! میں نے اپنے پروگرام میں یعقوب کھوکھر کو قبضہ گروپ بھی کہا تھا اور قاتل بھی۔ یعقوب کھوکھر نے میرا فون نمبر لیا اورمجھے فون کر کے کہا کہ یہ اس کا آئینی، قانونی، اخلاقی اور صحافتی حق ہے ا س کا موقف بھی عوام کے سامنے پیش کیا جائے اورمیں نے اس کایہ حق تسلیم کیا۔ اب میرے سامنے رجسٹریوں، انتقالوں اور عدالتی رٹوں کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ یعقوب کھوکھر کا کہنا تھا کہ اگر وہ قبضہ گروپ ہوتا تو اس کا تنازع پی آئی اے سوسائٹی کے نوبلاکوں میں سے صرف ایک بلاک میں کیوں ہوتا جہاں وہ اپنی خریدی ہوئی اور وراثتی زمین سوسائٹی کو نہ بیچنے کا دعویٰ کر رہا ہے اور سوسائٹی اس امر کو عدالتوں میں تسلیم کرچکی ہے۔ میرے واضح اور دوٹوک سوال کے جواب میں اس نے بھی اللہ کی قسم کھا کے کہا کہ وہ ایک مرلے پر بھی ناجائز قابض نہیں ہے اوریہ بھی کہ جس وقت فروری کے آخری دن پولیس نے پلاٹ پر قبضہ کیا وہ اپنے اسٹے آرڈر اور رجسٹریاں پولیس حکام کے سامنے پیش کرتا رہا مگر انہوں نے دوٹوک اندازمیں کہا کہ وہ کوئی کاغذ نہیں دیکھیں گے۔ یعقوب کھوکھر کے کاغذ اوردلائل سن کر یہی لگتا ہے کہ قبضہ گروپ کی کارروائی یعقوب کھوکھرکی نہیں بلکہ پولیس کی تھی بلکہ اس سے بھی آگے حکومتی طاقت کا استعمال اس طرح کیا گیا کہ اکیس اگست کو اس کو نوٹس دئیے بغیر اورسماعت کئے بغیر ہی اس کے انتقال خارج کر دئیے گئے۔ میں بصد احترام یہی کہوں گاکہ اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی اختیار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا استعمال اپنے رشتے داروں کے لئے بغیرکسی روک ٹوک کے کیا جائے۔ ابھی جناب وزیراعظم کے پاس طاقت ہے اوران کے بہنوئی اپنے حق کے لئے ان کی طاقت استعمال کر رہے ہیں مگر ایک وقت وہ آئے گا جب ان کی حکومت نہیں ہو گی اور پھردوسراوقت وہ آئے گا جب اللہ کی عدالت لگے گی۔
مجھے نہ احد برکی صاحب سے کچھ لینا دینا ہے اورنہ ہی یعقوب کھوکھر سے، جس پر قبضے کا ہی نہیں بلکہ اس کے بیٹوں پر قتل کاالزام بھی ہے، یوسف کا قتل، جس کا پلاٹ جناب احد برکی کے پلاٹ کے بالکل ساتھ ہے، پچاسی اے ون کے ساتھ والا چوراسی اے ون، اب وہ دونوں پلاٹ اندر سے ایک ہی پلاٹ بن چکے ہیں۔ یوسف صاحب کا قتل افسوسناک ہے مگر میں وہ تحریر دیکھ کر حیران رہ گیا جس میں یوسف مرحوم نے اپنا پلاٹ اس علاقے میں نواز لیگ کی مشہور مائی وڈیری سے خریدا اور تحریر میں یہ لکھ کر دیا کہ وہ بغیر قبضے کے پلاٹ خرید رہا ہے اور اگر وہ قبضہ نہ حاصل کرسکا تو مائی وڈیری کو دی ہوئی رقم کو واپس لینے کا مجاز نہیں ہو گا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بغیر قبضے کے پلاٹ خریدنے والے کون ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یوسف صاحب کو جنت میں جگہ دے مگر ان کے حوالے سے یہ بات وضاحت طلب ہے کہ کیا انہوں نے اس برتے پر ایک جھگڑے والا پلاٹ مائی وڈیری سے خریدا کہ وہ جناب احد برکی کے ساتھ ہیں جو جناب وزیراعظم کے بہنوئی ہیں اور وہ پولیس، کواپریٹو اورضلعی انتظامیہ کے ذریعے پلاٹ کا قبضہ لے سکتے ہیں۔ اس سودے میں یہاں سیدھا سیدھا کروڑروپیہ بچتا ہے یعنی جھگڑے والا کنال کا پلاٹ پچاس، ساٹھ لاکھ میں مشکل سے نکلتا ہے جبکہ اصلی قیمت ایک کروڑ پچاس، ساٹھ لاکھ سے کم نہیں۔
میری اس پوری تحریر کا مقصد صرف ایک ہے کہ جناب احد برکی جیسے اچھے لوگوں کو ان کے پلاٹ بغیر حکومتی طاقت استعمال کئے مکمل امن اور انصاف کے ساتھ مل جائیں، وہ ان کے جائز اور قانونی مالک بن جائیں مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب عدالتوں سے درست اوربروقت فیصلے ہوں۔ معاملے کا روایتی حل یہ ہے کہ پولیس، کواپریٹو اور ڈی سی کے ذریعے آپ احد برکی صاحب کو قبضہ دے دیں، مالک بنا دیں مگرمیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد بھی وہ ا س پلاٹ کو جائز قیمت پر فروخت نہیں کرسکیں بلکہ اب ہر بندہ اس پلاٹ کو لیتے ہوئے دس مرتبہ سوچے گا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے سو اس کا حل یہی ہے کہ جناب وزیراعظم ایک آئی جی اور ایک سی سی پی او لگاتے ہوئے اپنے بہنوئی کو پلاٹ کا قبضہ دلوانے کی بجائے اس نظام کو بہتربنائیں جس کو بہتر بنانے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، جی ہاں، انہوں نے اسی نظام کی اصلاح کا وعدہ کیا تھا مگر پھر انہوں نے پولیس کو اپنے بہنوئی کے پلاٹ کا قبضہ لینے پر لگا دیا اوراس سے بھی برا کیا جتنا برا شائد شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کے دورمیں بھی ممکن نہیں تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیوانی مقدمات میں لوگوں کو دیوانہ بنانے کی بجائے انصاف ہو، وہ انصاف جس کا نام وزیراعظم کی سیاسی جماعت کے نام کا حصہ ہے، یہ انصاف سائل کی زندگی میں ہی ہو بلکہ چند مہینوں میں ہو۔ مجھے اس کی امید جناب وزیراعظم سے اس لئے بھی ہے کہ اس وقت ریاست کے تمام ستون ایک ہی صفحے پر ہیں اور اگر وہ اس ایشو پرجناب چیف جسٹس سے بات کریں گے تو اسے نیک نیتی کے ساتھ عین عوام کے مفادمیں سمجھا جائے گا۔ جناب وزیراعظم یہ معاملہ حل کرواتے ہوئے ان ہزاروں اورلاکھوں کی دعائیں لے سکتے ہیں جو برس ہا برس بلکہ عشروں سے اپنی زمینوں کے لئے عدالتوں میں ہیں مگر ان پر فیصلے نہیں ہو رہے مگر قتل ضرورہو رہے ہیں۔