یقین کیجئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس کا الیکشن میں حصہ لینا اور پھر حکومت بنا لینا، یہ بھی اس کے عین آئینی، قانونی اور جمہوری حقوق کا حصہ ہے۔ سپریم کورٹ اس وقت سنی اتحاد کونسل بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ پی ٹی آئی ہی کی مخصوص نشستوں کا مقدمہ سن رہی ہے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ایک سیاسی جماعت کو دوسری سیاسی جماعت کا چولہ کیوں پہننا پڑا۔
پی ٹی آئی، ایس آئی سی سے اپنے نظریات سے کارکنوں تک ہر طرح سے مختلف سیاسی جماعت ہے۔ ایک چھوٹا سا مسئلہ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے انٹرپارٹی انتخابات اپنے ہی آئین میں دئیے ہوئے قواعد وضوابط کے مطابق صاف شفاف انداز میں کروانے چاہئے تھے۔ موجودہ مسئلہ وہیں سے پیدا ہوا۔ پی ٹی آئی حیران کن طور پر ایک بر س سے بھی زیادہ عرصے تک الیکشن کمیشن کو خطوط لکھتی رہی کہ اس کے الیکشن آگے کر دئیے جائیں اور سوال ہے کہ کیوں۔ الیکشن اس وقت بھی نہیں کروائے گئے جب پی ٹی آئی حکومت اورطاقت میں تھی اور اس وقت بھی لٹکائے گئے جب اپوزیشن میں تھی اور طاقت کا نشانہ۔
ہمارے بہت سارے دوست یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی جس طرح مرضی انتخابات کروا لیتی کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور عائد ہوجانا تھا مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ پی ٹی آئی اورا س کے بانی چیئرمین نے بہت سارے معاملات میں عدالتوں سے ریلیف حاصل کئے ہیں جہاں ان کی قانونی بنیاد درست رہی ہے۔ ہمیں د و مقدمات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے پہلا تحریک عدم اعتماد والا مقدمہ جو سپریم کورٹ نے اپنے پاس لگایا۔ کوئی بھی تجزیہ کار بہت آسانی کے ساتھ بتا سکتا ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس کی قیادت میں تمام عدالتیں بانی پی ٹی آئی کے لئے بہت نرم اور ہمدردانہ رویہ رکھتی تھیں۔
جج ان کا انتظارکیا کرتے تھے اور انہیں دیکھ کے گڈ ٹو سی یو کہا کرتے تھے۔ دوسرا مخصوص نشستوں کے مقدمے کا پشاور ہائیکورٹ سے فیصلہ۔ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو اتنا ریلیف دیا ہے کہ لاہورکے لوگوں کے لئے پشاور میں ضمانتوں کاجمعہ بازار لگا دیا گیا۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ اگر ان دو عدالتوں نے تحریک عدم اعتماد سے مخصوص نشستوں تک کے معاملات پر پی ٹی آئی کے خلاف فیصلے دئیے ہیں تو یہ اپنے مؤقف میں کتنی کمزور ہوگی کہ بہت مہربانیاں کرنے والے محترم جج حضرات بھی یہاں ریلیف نہ دے سکے۔
تکلف برطرف، نہ میں بطور تجزیہ نگار اور نہ ہی آپ پی ٹی آئی کے حامی کے طور پر افریقہ سے تشریف لائے ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں اور یہاں کی سیاست کے تقاضے بہت بہتر طور پر سمجھتے ہیں بلکہ پاکستان ہی کی بات کیوں کی جائے دنیا بھر میں ریاستیں، اپنے ہی اداروں کے خلاف برسرپیکار سیاسی جماعتوں کو راستے نہیں دیتیں اور سیاسی جماعتیں بھی ذمہ دارانہ روئیے اختیار کر تی ہیں۔ پی ٹی آئی کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس نے پارٹی الیکشن درست نہیں کروائے اور اس کی بنیاد پر اس سے انتخابی نشان لے لیا گیا بلکہ اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسی درخت کو کاٹنے کی کوشش کر رہی ہے جس پر اس سمیت ہم سب کے گھونسلے ہیں۔ وہ چاہے فوج یا عدلیہ، کوئی بھی اسے یہ کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
معمولی سیاسی شعور کے ساتھ واضح ہے کہ پی ٹی آئی اب تک ریاست کے خلاف کام کر رہی ہے۔ وہ عزم استحکام، کے خلاف ہیں حالانکہ یہ سو فیصد وہی نکات ہیں جنہیں عمران خان نے بطور وزیراعظم خودریوائزڈ، شکل میں پیش کیا تھا اور نیشنل ایکشن پلان کے ان صفحات پر ان کی تصویر بھی موجود ہے مگر کیا ہی بری بات ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
مجھے یہاں مولانا فضل الرحمان سے بھی شکوہ کرنا ہے کہ ان جیسا کائیاں سیاستدان بھی اس صحافی کی طرح ہوگیا ہے جس نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بات کی مگر اب وہ سوشل میڈیا کی ریٹنگ کے لئے باؤلا ہوا پھرتاہے۔ مولانا فضل الرحمان دہشت گردی کے خلاف اتنے زیادہ متحرک تھے کہ انتخابات کا التوا چاہنے والے واحد اور اکیلے سیاستدان بن کے سامنے آئے تھے مگر اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں شیئر ملے اوراس کے لئے وہ دہشت گردوں کے پشتی بان بننے کیلئے بھی تیار ہو گئے ہیں۔ ایک طرف وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کے بھی خواہاں ہیں اور دوسری طرف ان کا وکیل، سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی نشستوں پر بھی رالیں ٹپکا رہا ہے۔
مجھ سے پوچھیں تو میں بآواز بلند کہوں گا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں ہی نہیں پارلیمنٹ میں اصل نام بھی اس کا حق ہے مگر ہر حق کسی نہ کسی فرض کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کا ایک مقبول جماعت کے طور پر حق ہے کہ وہ حکومت کی مخالفت کرے مگر اس کا فرض ہے کہ وہ ریاست کا تحفظ کرے۔ ریاست کی تعریف پوچھیں تووہ ہم سب ہیں۔ اس میں عوام بھی شامل ہیں اور ریاستی ادارے بھی۔
میں اس امر کی کیسے حمایت کرسکتا ہوں کہ ہماری ہی پولیٹیکل پارٹی ہماری ہی معاشی موت کے لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کوخط لکھے۔ میں اس کو کیسے برداشت کرسکتاہوں کہ نو مئی کے پاکستان بھر میں مظاہرے ہوں یا اس کے بعد دنیا بھر میں احتجاج، وہاں میری ہی فوج پر حملے کرکے بھارت کے مقاصد کی تکمیل کی جائے۔
مجھے تو یہاں تک گلہ ہے کہ پی ٹی آئی نے میرے وطن کو وہ نقصان پہنچایا ہے جو بھارت بھی نہیں پہنچا سکا کہ بھلا بھارت میری نوجوان نسل کو اتنا بدتمیز کیسے بنا سکتا تھا، سی پیک کو کیسے بند کر سکتا تھا، ہماری لائف لائن فنانشل اسسٹنٹ کے خلاف مظاہرے کیسے کر سکتا تھا، جی ایچ کیو او ر کور کمانڈر ہاؤس تک کیسے پہنچ سکتا تھا اور اب امریکا کو پاکستان میں مداخلت کے لئے کیسے تیار کر سکتا تھا۔ یہ سب ہمارے اپنے میر جعفروں اور میر صادقوں نے کیا ہے۔
میں پھر کہوں گاکہ حکومتیں اور سیٹیں تو مسئلہ ہی نہیں ہیں، کیا پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا جیسے حساس صوبے میں کلین سویپ وکٹری نہیں ملی تو باقی جگہ کیا مسئلہ ہو سکتا ہے، ہاں، مسئلہ کچھ اور ہے اور بہت سادہ ہے کہ ایک اور مجیب الرحمان کو راہ نہیں دی جا سکتی۔