پی ٹی آئی نے اتوار کے روز حیران کیا جب مینار پاکستان پر سنٹرل پنجاب کے تین ڈویژنوں لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد کے گیارہ ہزار سے زائد تنظیمی عہدے داروں سے حلف لیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومتی جماعت نے سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جماعتی اور تنظیمی کام کو نظر انداز نہیں کیا اور اپنے ہزاروں کا رکنوں کو عہدے دیتے ہوئے اکاموڈیٹ کر لیا۔ میں حیران اس لئے ہوا کہ ہمارے ہاں اقتدار کی موج مستی میں کارکنوں کی طرف دھیان دینے کی روایت ہی نہیں۔ روایات یہ ہیں کہ صوبے کی مقبول ترین جماعت ہونے کی دعوے دار نواز لیگ حکومت تو ایک طرف رہی اپوزیشن دور میں بھی اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتی اور یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے جو پنجاب سے یوں صاف ہوچکی ہے جیسے جھاڑوپھیر دئیے جانے کے بعد جیالا کُش سپرے بھی کر دیا گیا ہو۔ اب بلاول بھٹو زرداری مہمان کی طرح تحفے میں ملے ہوئے قلعے بلاول ہاوس میں تشریف لاتے ہیں، کچھ منتخب لوگوں کے ساتھ فوٹو سیشن کرواتے ہیں، کچھ لکھی ہوئی جگتیں پڑھتے ہیں اور اپنے تئیں پنجاب کا حق ادا کر کے نکل لیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مینار پاکستان پر حلف برداری کے اجتماع سے پہلے مجھے ان کا داتا گنج بخش ٹاون کا ورکرز کنونشن بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں بھی سینکڑوں جوشیلے کارکن موجود تھے حالانکہ جب ہم سوشل میڈیا پر مہنگائی سمیت دیگر مسائل پر عوامی ردعمل دیکھتے ہیں، ٹک ٹاک سمیت دیگر سوشل میڈیا ایپس پر ویڈیوز دیکھتے ہیں جن میں وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے پر کان پکڑ رہے ہوتے ہیں تو تاثر ملتا ہے کہ اس جماعت نے پہلا اور آخری اقتدار دیکھ لیا مگر گواہی دی جا سکتی ہے کہ اب بھی سینکڑوں، ہزاروں کارکن ایسے ہیں جن کا عمران خان کی قیادت پر اعتماد اور نئے پاکستان کے قیام کے حوالے سے جوش و خروش کم نہیں ہوا۔ ہم مہنگائی بارے ان سے سوال کرتے ہیں تو وہ اسے حکومت کی ناکامی تسلیم نہیں کرتے۔ آپ ان کے خیالات سے عدم اتفاق کر سکتے ہیں مگر آپ کو یہ حق نہیں کہ انہیں ڈکٹیشن دیں، یہی جمہوریت ہے۔
عملی صورتحال یہ ہے کہ پارٹیاں تنظیم سازی سے ڈرتی اور الیکشن کروانے سے بھاگتی ہیں کہ اس کے نتیجے دھڑے بندیاں ہوجاتی ہیں اور قیادت کا موثر کنٹرول نہیں رہ جاتا۔ تحریک انصاف نے بھی الیکشن کروا کے دیکھ لئے، کہا جا سکتا ہے کہ برصغیر میں صدیوں تک قائم رہنے والے بادشاہت کے نظام نے ابھی تک ہمارے اندر سے اپنی جڑیں ختم نہیں کیں، ہم لیڈر کو اہمیت دیتے ہیں پارٹی کو نہیں۔ میں نے اپوزیشن کے ایک اہم "جمہوریت پسند" لیڈر سے پوچھا کہ پیپلزپارٹی کے بعد ان کی جماعت میں بھی بانی خاندان کی تیسری نسل آ رہی ہے، میں نے مقبول لیڈر کے نواسے کا نام بھی لیا مگر انہوں نے تردیدیا تنقیدکرنے کے بجائے اس کی حمایت کی۔ حکمرانی کے انداز اورنتائج کو ایک لمحے کے لئے نظرانداز کرتے ہوئے یہ گواہی ضروری ہے کہ عمران خان کی فیملی کا پارٹی کے اندر کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا جبکہ ہمارے وہ لیڈر جو خود کو "نظریہ" کہتے ہیں ان کی اولاد پارٹی عہدے داروں کو یوں حکم دیتی ہے جیسے وہ ذاتی ملازم ہوں۔ میں نے کچھ لوگوں کے سامنے پی ٹی آئی کے اس رویے کی تعریف کی تو جواب ملا کہ جناب عمران خان کی اولاد یہاں موجود نہیں اگرلڑکے یہاں ہوتے تو وہی صورتحال ہوتی جو نواز لیگ، پی پی پی، اے این پی اور جے یو آئی وغیرہ کی ہے۔ میری پارٹی کارکنوں کو عہدے اور اہمیت دینے کی تعریف کا جواب یہ بھی ملا کہ اگر پارٹی انتخابات ا ور تنظیم سازی ہی مقبولیت کی بنیاد ہوتی تو جماعت اسلامی قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کی سب سے طاقتور اور مقبول جماعت ہوتی مگر وہ مقبولیت سے اتنے ہی فاصلے پر کھڑی ہے جتنا فاصلہ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے مگر اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت کارکن ہی ہوتے ہیں باقی سب اضافی باتیں ہیں۔ ایک شخص کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی یہ تنظیم سازی اس لئے کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے لانے والوں کو خوفزدہ کر سکے کہ اگر اسے نکالاگیا تو وہ انہیں سڑکوں پرنکال لے گی، اس تجزئیے پر مسکرایا جا سکتا ہے۔
نواز لیگ کی مجبوری ہے کہ وہ ہر ہفتے اپنے لیڈروں کی عدالتوں میں پیشیوں پر کارکنوں کو کال دیتی ہے کہ وہ آئیں اور ان کی قیادت کے جذبات کو تسکین پہنچائیں۔ آپ اس بات کی اخلاقی حیثیت چیلنج کر سکتے ہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہے جو پارٹی کے ہر دور میں نظراندازہونے والے ایک کارکن نے کہی کہ اس کا داخلہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے نو، دس برسوں میں ایوان وزیراعلیٰ میں بند تھا مگر وہ ہر کال پر سڑکوں پر ہوتا ہے۔ اس نے سوال کیا، شہباز شریف اور نواز شریف کے لئے وہ سٹوڈنٹس مظاہرے کیوں نہیں کرتے جنہوں نے مفت لیپ ٹاپ لئے، وہ مسافر مظاہرے کیوں نہیں کرتے جو بیس روپے میں عالمی معیار کا سفر طے کرتے ہیں، وہ لوگ مظاہرے کیوں نہیں کرتے جنہیں قرض یا گاڑیاں ملیں۔ بات تو درست ہے کہ جب قیادت مشکل میں ہوتی ہے تو پھر کارکن ہی کام آتے ہیں ورنہ قائدین شکوے کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو قدم بڑھانا تھا مگرہمارے پیچھے کوئی کھڑا ہی نہیں تھا۔ ان سے ادب کے ساتھ پوچھاجاسکتا ہے کہ جب آپ ایوانوں میں تھے کیا تب آپ کے ارد گرد پارٹی نظر آتی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نوازلیگ ایک طرف تنظیم سازی نہیں کرتی اور دوسری طرف بلدیاتی اداروں سے بھاگتی ہے۔ یہ درست ہے کہ نواز لیگ کے ادوار میں ایک سے زائد مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہوئے مگر ہر مرتبہ جس طرح بازو مروڑ کر کروائے گئے اور اس کے بعد نواز لیگ نے جس طرح بلدیاتی اداروں کو اختیارات سے محروم رکھا وہ ہماری تاریخ، سیاست اور قانون کی کتابوں میں صاف لکھا ہوا ہے۔
نجانے کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما اپنے ہی کارکنوں سے ڈرتے ہیں، انہیں عزت دینے اور نوازنے سے بھاگتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے کارکنوں کی فوج تیار کر سکتی ہیں کہ ان کے پاس بے شمار عہدے ہی نہیں بلکہ بلدیاتی نظام بھی موجود ہے جس میں انہیں اکاموڈیٹ کیا جا سکتا ہے مگر ہمارے مرکزی رہنمااپنے ہی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی برداشت نہیں کرتے تو اس سے نیچے کے ماجھے گامے عزت پائیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ پی ٹی آئی نے نئے بلدیاتی نظام میں نجانے کس کے کہنے پر ضلعے کی سطح کانظام ختم کرکے اور ضلعوں کو بیوروکریسی کے حوالے کر کے بڑا ظلم کیا ہے حالانکہ وہاں بہت سارے کارکن عہدے اور عزتیں پا سکتے تھے، عوام کے کام آ سکتے تھے، خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا دیا ہوانیا ناقص بلدیاتی نظام بھی اسی طرح اپنی موت آپ مر جائے گا جیسے پہلے والے مرتے رہے مگر اس کے باوجود پارٹی کی تنظیم سازی میں جس سطح اور معیار کا کام ہوا ہے، سیاسی کارکنوں کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل اور طاقت کے حصول میں جس طرح معاون بنایا گیا ہے وہ واقعی زبردست بھی ہے اور جمہوریت کا نام لینے والی دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے قابل تقلید بھی، اس پر پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی تعریف اورمبارکباد کے مستحق ہیں۔