ہم مطالعہ پاکستان میں پڑھتے چلے آئے ہیں کہ ہندووں میں چا ر ذاتیں ہیں، برہمن سب سے اعلیٰ اور شُودر سب سے گھٹیا، ہم مسلمان ذات پات پر یقین نہیں رکھتے، ساڑھے چودہ سو برس پہلے جو دین نازل ہوا اس میں بتایا گیا کہ تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسی دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر پاکستان بنا اور پھر ستر، اکہتر برس کے بعد نیاپاکستان، نئے پاکستان کے بانی عمران خان ہیں اور انہوں نے کنٹینر پر بار بار کہا تھا کہ نئے پاکستا ن میں ایک ہی پاکستان ہو گا، ا میر اور غریب کا ایک ہی پاکستان، طاقتور اور کمزور کا ایک ہی پاکستان۔
یہ پنجاب کے شودروں والی بات اس وقت شروع ہوئی جب نئی حکومت بننے کے بعد ایک سال تک چیخ وپکار ہوتی رہی کہ ہم نہ نکمے اور نہ ہی نااہل، ہم کام اس لئے نہیں کر پا رہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی سابق حکمرانوں کی غلام ہے، وہ ان کے ساتھ مل کر کرپشن کرتی رہی ہے، پیسے کھاتی رہی ہے اور اب ہمارے جائز کاموں پر بھی اعتراضات لگا رہی ہے، فائلوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی گھما رہی ہے۔ اس اہم ترین مسئلے پر بہت سارے سیانے سر جوڑ کر بیٹھے اور طے یہ پایا کہ ہم بھی اس بیوروکریسی کو پیسے کھلاتے ہیں تاکہ ہماری فائلوں کو بھی پہیے لگ جائیں۔ مزید غور و فکرمیں ان محکموں کی لسٹیں بنیں جو حکمرانوں کے کام آ سکتے تھے اور ظاہر ہے کہ ان میں نہ درجہ چہارم کے گندے اور گھٹیا ملازمین تھے اور نہ ہی محکمہ تعلیم، محکمہ صحت جیسے فضول محکمے۔ کام کے لوگ تو پہلے ہی ایوان وزیراعلیٰ، گورنر ہاوس، ہائیکورٹ، سیکرٹریٹ وغیرہ میں تھے جنہیں پرویز الٰہی اورشہباز شریف کے ادوار میں بھی اضافی تنخواہیں ملتی تھیں، ان کے علاوہ پولیس تھی، ایف آئی اے تھی اور سب سے بڑھ کر ایس اینڈ جی اے ڈی، جس سے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ وغیرہ نکلتے اور ملک بھر میں حقیقی حکمرانی کرتے ہیں۔ پہلے سیکرٹریٹ والوں کے الاونسز بڑھائے گئے اور بجٹ میں خصوصی طور پر رکھا گیا کہ وہ تمام لوگ جو وزیروں کے ساتھ کام کرر ہے ہیں ان کی تنخواہوں میں خصوصی اضافہ ہو گا اوراس کے بعد بجٹ کے بغیر ہی پہلے ایس اینڈ جی اے ڈی کے ہزاروں کام کے افسران، کی تنخواہیں ڈیڑھ سو فیصد تک بڑھا دی گئیں اور یہ کام عین اس وقت ہوا جب بجٹ میں کہا جا رہا تھا کہ ہمارے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ جب ایس اینڈ جی اے ڈی کی تنخواہیں بڑھ گئیں تو اس کے بعد پولیس افسران کی تنخواہیں بھی اتنی ہی بڑھا دی گئیں کیونکہ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکمرانی پولیس کے ذریعے ہی قائم ہے۔
اب تحریک انصاف کی حکومت کے دو برس مکمل ہونے کے بعد صورتحال کچھ یوں ہے کہ پنجاب کے اندر سرکاری ملازمین کے دوپنجاب بن چکے ہیں۔ ایک ایس اینڈ جی اے ڈی، پولیس، ایوان وزیراعلیٰ، گورنر ہاوس، ہائیکورٹ اور سیکرٹریٹ وغیرہ کے ملازمین کا پنجاب ہے جس میں انہیں ایگزیکٹو، یوٹیلیٹی الاونسز وغیرہ وغیرہ ملتے ہیں اور دوسرا پنجاب اٹک سے راجن پور تک تیس لاکھ عام سرکاری ملازمین کا پنجاب ہے جس کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کے لئے بھی تبدیلی سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں ان میں سے بہت ساروں کو دیکھتا ہوں تو ان کے چہروں پر لکھا نظرآتا ہے کہ انہوں نے اس نئے پاکستان کو بنانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔ پرانے دور میں سرکاری ملازمین ہوتے ہوئے بھی پرانے حکمرانوں کو گالیاں بکی ہیں اور اب وہ خود کو اسی طرح برا بھلا کہہ رہے ہیں جیسے وہ ڈاکٹر، جنہوں نے نسخوں پر لکھ کر دیا تھا کہ دووقت دوا سے زیادہ ضروری بلے پرمہر لگانا ہے، بہرحال، یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کو ووٹ دیتا ہے مگر دوسری طرف مساوات بھی بطور شہری اور ملازم ہر کسی کا حق ہے۔
بات صرف یہ نہیں کہ پنجاب کے شودر ملازمین کو برہمنوں کے مقابلے میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں ملا بلکہ صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے سرکاری ملازمین کے مقابلے میں پنجاب کے ملازمین ساڑھے بائیس فیصد کم تنخواہ لے رہے ہیں کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت نے اس برس بھی اپنے وسائل سے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کیا ہے اور ماضی کے اضافوں کے فرق کے ساتھ یہ فرق ساڑھے بائیس فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ مزید دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ باقی صوبوں میں ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی گروپ انشورنس کی رقم مل جاتی ہے مگر پنجاب میں اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں بلکہ مرنا شرط ہے حالانکہ بہت سارے عدالتی فیصلوں میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ گروپ انشورنش کی رقم کسی بھی دوسری انشورنس کی طرح ملازمین کاپیسہ ہے جو انہیں ریٹائرمنٹ پر ملنا چاہئے۔ پنجاب میں یہ بھی ہو رہا ہے کہ ایک ملازم کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا جاتا ہے اور پانچ، سات برس کام کروانے کے بعد جب اسے ریگولر کیا جاتا ہے تو ماضی کی پوری کی پوری ملازمت کو سروس ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا جاتا لہٰذا جب وہ ریگولر ہوتاہے تو اس کی تنخواہ پہلے سے بھی کم ہوجاتی ہے اور جب وہ ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس کی پینشن بھی میچور نہیں ہوپاتی۔
میں نے ان تمام معاملات پرآل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کے حاجی ارشاد گروپ کو بار بار احتجاج کرتے اور حکمرانوں سے مذاکرات کرتے دیکھا ہے مگر ان سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا اور اب باقی تمام گروپ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ خالد جاوید سنگھیڑا، حافظ عبدالناصر اور ڈاکٹرطارق کلیم مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے بھی تمام سرکاری ملازمین پر مشتمل ایک گرینڈ الائنس بنا لیا ہے جو چوبیس ستمبر کو سول سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاج کرے گااور سات اکتوبر کو گورنر ہاوس کا گھیرا و ہو گا۔ میں نے اس عدم مساوات اور ناانصافی پر کچھ رہنماوں کو احتجاج کے بجائے عدالت جانے کا مشورہ بھی دیا مگر میرا مشورہ ناقابل بیان وجوہات کی بنیاد پر قبول نہیں کیا گیا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ عدالتوں پر ہمارے تمام شعبوں کا اعتماد برقرار رہنا چاہئے مگر ابھی حال ہی میں ایک گفتگو کے دوان علم میں آیا کہ ینگ ڈاکٹروں، پیرامیڈکس اور نرسوں نے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹس ایکٹ کے خلاف عدالت کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کیا تھا اور طے پایا تھا کہ عدالت کی بنائی گئی کمیٹی کی سفارش کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوگا مگر دوسری طرف حکومت نے یک طرفہ طور پرایم ٹی آئی ایکٹ منظور بھی کروا لیا اور اب وہ اسے میو ہسپتال میں لاگو بھی کرنے جا رہی ہے یوں بہت سارے لوگ احتجاج کو ہی واحد حل سمجھتے ہیں۔
مجھے نہیں علم کہ پنجاب کے شودر سرکاری ملازمین کے ساتھ چوبیس ستمبر اور سات اکتوبر کو کیا ہو گا۔ ہوسکتاہے کہ یہ تعداد میں چند سو ہوں، نعرے شعرے لگائیں اور دو، چار گھنٹوں بعد تھک کر خود ہی چلے جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان سے کچھ وعدے وعید ہوجائیں جن پر عمل قیامت کے روز ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو اچھی خاصی پھینٹی لگا دی جائے، ان پر مقدمات درج ہوجائیں، ہاں، یہ سب ہو سکتا ہے مگر ان کے مطالبات انصاف اور مساوات کی بنیاد پر پورے ہوں اور محکمہ مال، تعلیم اور صحت کے ملازمین کو بھی وہ تمام مراعات مل جائیں جو سیکرٹریوں، کمشنروں، ڈی سی یوں، ڈی آئی جیوں، سی سی پی او اور سی پی اووں، ایس پیوں وغیرہ وغیرہ کو دی گئی ہیں تو اس کا امکان کم ہی ہے کہ بھلا شودر کب برہمن بنتے ہیں؟