پنجاب کے شہریوں کے لئے مسلم لیگ نون کے صدر نواز شریف اور وزیراعلیٰ مریم نواز نے بجلی کے یونٹ کی قیمت گرمیوں کے دو مہینوں کے لئے چودہ روپے کم کرنے کی خوشخبری دی ہے۔ پنجاب کے شہریوں کو یہ رعائیت مفت میں نہیں ملے گی، صوبائی حکومت اپنے شیئرمیں سے پینتالیس ارب روپے وفاق کو ادا کرے گی۔
کوئی مانے یا نہ مانے، جس طرح نواز لیگ کی قیادت سے بہتر ایشو رسپانس، یا کرائسس مینجمنٹ، کی اہلیت اور صلاحیت کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں ہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف پچاس ارب روپوں کی سب سڈی سے بجلی کے بلوں میں حالیہ اضافے سے اس گرمی کے موسم میں دو سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو استثنیٰ دے چکے ہیں اور خبریہ بھی ہے کہ صارفین سے اضافی وصول کئے گئے اربوں روپوں کی واپسی بھی ہو رہی ہے۔ معاملہ صرف یہاں تک نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت بجلی کی قیمتوں میں دیرپا اور مستقل اضافے کے لئے بھی کام کر رہی ہے جس کامطالبہ جماعت اسلامی نے اپنے دھرنے میں کیا تھا۔
چھوٹے صوبوں کے بہت سارے رہنماؤں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ پنجاب کی ترقی اور سہولت پر اپنے صوبوں میں جلتے ہوئے بیانات دیتے ہیں۔ یہاں تک کہتے رہے کہ پنجاب انہیں لوٹ کر کھا جاتا ہے اور ایسے بیانات دینے والے اکثرف وہ ہوتے ہیں جو خود وفاق سے ہر مہینے کسی نہ کسی مد میں بھاری رائلٹیاں لے رہے ہوتے تھے اور اپنے لوگوں کو پنجاب کے ٹرک کے پیچھے لگا رکھا ہوتا تھا۔
کیا پنجابی بلوچوں سے کہتے ہیں کہ وہ قبائلی نظام کو عصبیتوں کو برقرار رکھیں، ہر مرتبہ ایک ہی قسم کے الیکٹ ایبلز پارٹیاں بدل بدل کے لاتے رہیں۔ بلوچ سردار اپنے شہریوں کو نہ تعلیم دینا چاہتے ہیں اور نہ صحت۔ وہ مختلف شر پسند نعروں پر گوادر کی ترقی روکتے ہیں۔ وہ خود سبی ہرنائی ریلوے لائن جو کہ لائف لائن ہے اسے دھماکوں سے اڑاتے ہیں۔ وہ خود سی پیک جو ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے اس کے خلاف ماہرنگ بلوچ جیسی قیادتوں کو راہ دیتے ہیں اور یہی حال خیبرپختونخوا کا ہے کہ کیا پنجاب نے کہا ہے کہ وہاں محمود خان کے بعد علی امین گنڈا پور کو لے آؤ۔
پنجاب نے این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حق چھوٹے صوبوں کے لئے، چھوٹے بھائی سمجھتے ہوئے، سرنڈر کر رکھا ہے مگر پروپیگنڈہ پنجاب کے خلاف ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب اپنے بجٹ کو کم کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو ریلیف دیتا ہے تو کیا دوسرے صوبوں کو اس نے روکا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ بھی بول رہے ہیں جو بجلی چوری کرنے میں سب سے آگے ہیں اور ان کا وزیراعلیٰ ان کی بجلی چوری کا تحفظ کرتا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان یہ بات درست کہتے ہیں کہ بجلی بلوں میں ریلیف ملنا چاہئے اور یہ ریلیف مستقل بنیادوں پر ہونا چاہئے مگر اس موقعے پر پنجاب حکومت کی کوششوں کو نہ سراہنا ایک قسم کی بددیانتی ہے، مصطفیٰ کمال تو بولے سو بولے مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ حافظ نعیم الرحمان ایک قومی جماعت کے سربراہ بننے اور منصورہ لاہور میں منتقل ہونے کے بعد بھی کراچی کی زبان بول رہے ہیں۔
حیرت انگیز ہے کہ ایک پڑھا لکھاانجینئر بھی یہ کہے کہ وفاق، کراچی کے دئیے ہوئے ٹیکسوں پر چل رہا ہے۔ یہ بات کراچی کے ان پڑھ اور متعصب تو کہتے ہیں لیکن اگر جماعت اسلامی کا امیر بھی اس لیول پر ہو تو کیا کہیں۔ انجینئر صاحب سے کہنا ہے کہ لاہور نے کبھی کراچی کے خلاف بات نہیں کی۔ پنجاب کا دامن تواتنا وسیع ہے کہ وہ بلوچستان سے اپنے بیٹوں کی لاشیں وصول کرتا ہے مگر اُف تک نہیں کرتا۔
کراچی کے ساتھ ساتھ یہ لاہور ہی ہے جہاں ہر کوئی آتا ہے، رہائش رکھتا ہے، کاروبار کرتا ہے اورمحبتیں لیتا ہے۔ ا ن سے درخواست ہے کہ وہ ایسی سیاست نہ کریں جو کسی لسانی اور علاقائی لیڈر کی ہو۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بہت سارے تصورات کو درست کر لیں جیسے سب سے پہلے یہ کہ کراچی کے ٹیکسوں پر پاکستان چلتا ہے تو اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ کراچی سے جمع ہونے والے ٹیکس آتے کہاں سے ہیں۔
پنجاب کے چودہ کروڑشہریوں کے جتنے بھی بنکوں میں اکاؤنٹس ہیں ان میں سے بیشتر کے ہیڈ کوارٹرز کراچی میں ہیں اور اسی طرح میانوالی سے راجن پوراور اٹک تک جس بھی موبائل کمپنی کا فون استعمال کیا جاتا تو اس پر ٹیکس کراچی میں ا س کے ہیڈکوارٹر سے کٹتا ہے تو یہ براہ کرم نوٹ کر لیجئے کہ کراچی سے کٹنے کے باوجود یہ کراچی والوں کا ٹیکس نہیں ہے۔ اسی طرح لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ سمیت کسی بھی شہر سے کوئی بھی کاروباری یا صنعتکار اپنا مال منگواتا ہے یا بھجواتا ہے تو کراچی کے پورٹ پر اپنا ایکسپورٹ یا امپورٹ ڈیوٹیز ادا کرتا ہے، وہ ٹیکس بھی کراچی کے نہیں ہیں، جی ہاں، مجھے علم ہے کہ آپ کہیں گے کہ ساحل تو ہمارا ہے تو میں بھی کہوں گا کہ یہ ساحل گوادر میں بھی ہے، اگر بینکوں اور موبائل کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرز کراچی میں نہ ہوں اور امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے گوادر کی بندرگاہ استعمال ہونے لگے تو کیا پھر بھی آپ کراچی کے ٹیکس کی بات کر سکیں گے، جی نہیں، کراچی کا ٹیکس وہی ہے جو وہاں کا شہری دیتا ہے اور وہ کتنا ہے سب جانتے ہیں۔
پچھلے چالیس پچاس برسوں میں صنعتکاروں کی چوائس کراچی نہیں رہا کیونکہ وہاں امن و امان کے شدید مسائل درپیش تھے۔ اسی طرح ہمارے پختون بھائی کہتے ہیں کہ بجلی ہماری ہے تو ہم کیوں بل دیں۔ ان سے کہنا ہے کہ بجلی کے تمام بڑے منصوبے اس ٹیکس یا قرض سے لگے ہیں جو پنجاب ہی ادا کرتا ہے۔ ابھی کشمیریوں کووفاق نے تین اور چھ روپے کا بجلی کا یونٹ دیا ہے اور دو ہزار روپے من فائن آٹا۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ٹرانسمیشن کے اخراجات ڈال کر یہ یونٹ کسی طور بھی پندرہ بیس روپے سے کم میں نہیں پڑتا اور اسی طرح دو ہزار روپے کا ایک من فائن آٹا تو میرے کاشتکار کو گھر نہیں پڑتا جو کشمیریوں کو دیا جا رہا ہے، خود بتائیے کہ باقی پیسے کون دے گا؟
پنجاب کے خلاف پروپیگنڈہ اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہاں کی مقبول قیادت صوبائیت کو بنیاد نہیں بناتی۔ وہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے خلاف بات نہیں کرتی بلکہ بلوچستان میں تو جگہ جگہ انفراسٹرکچر میں پنجاب کی محبت کے نشان موجود ہیں۔ پنجاب اپنے اداروں میں بلوچی بیٹوں اور بیٹیوں کو مفت تعلیم دیتا ہے۔ یہ پنجاب ہی ہے جس نے پاکستانیت کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔
مجھے تو کبھی کبھار شدید شکوہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں قتل ہونے والے پنجابیوں پر پنجاب کی قیادت خاموش کیوں رہتی ہے۔ میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ پنجاب کو گونگا نہیں رہنا چاہئے اور اسے بھی اپنی بات کھل کر کرنی چاہئے۔ آج اگر پنجاب کے پاس ایک درد دل رکھنے والی قیادت موجود ہے تو یہ پنجاب والوں کا سوچا سمجھافیصلہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ترقی اورخوشحالی کو ووٹ دیا ہے سو جلیں مت، اپنے عوام کے لئے کام کریں۔