میرے لئے یہ خبر ناقابل یقین تھی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کے خلاف کراچی میں مقدمہ درج کرنے کے لئے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو رات گئے ان کی رہائش گاہ سے اغوا کیا گیا، انہیں صبح چار بجے کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا اوراس کے بعد کراچی کے بڑے ہوٹل کا دروازہ توڑتے ہوئے کیپٹن ریٹائرڈصفدرکو قائداعظم کے مزار پر ووٹ کو عزت دو، ، مادرملت زندہ باد، اور ایوبی آمریت مردہ باد، کے نعرے لگانے کے جرم، میں گرفتار کر لیا گیا۔ جب بہت سارے سینئر صحافیوں نے یہ آئی جی کو نامعلوم مقام پر لے جانے کی خبرشیئر کی تومیں نے اس پر یقین نہیں کیا کیونکہ میں ابھی تک یہی سمجھتا تھا کہ نواز لیگ کے مخالفین اس حد تک نہیں جا سکتے مگر گذشتہ شام ہونے والی پیش رفت نے اس خبر کوسو فیصد درست اورمیرے ان کے بارے خوش گمانی کو غلط ثابت کر دیا، وہ پیش رفت جس میں آئی جی سندھ کے ساتھ ساتھ بارہ ڈی آئی جیز نے کیپٹن صفدر پرایف آئی آر اورگرفتاری کے لئے دباو، پر کام چھوڑ دیا۔ یہ واقعی ایک نیا پاکستان ہے جس میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ لاہور کا تھانہ شاہدرہ بھی جو ایک ایڈیشنل ایس ایچ او کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اپوزیشن کے خلاف مقدمات کے اندراج میں زرخیز ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف سمیت نواز لیگ کی پوری سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے خلاف بغاوت اور غداری کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور اب سولہ اکتوبر کی ریلی پر مریم نوازسمیت بہت ساروں کے خلاف اسی تھانے میں کورونا، ایمپلی فائیر اور نجانے کون کون سی چھوٹی موٹی بھینس چوری جیسی دفعات کے تحت ایک بڑا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بغاوت کے مقدمے میں مدعی بھی کریمنل ریکارڈ ہولڈر تھا اور کراچی میں مزار قائد کی حرمت کا پاسبان بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا مفرور ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک وفاقی وزیر رات گئے تک تھانے میں موجود رہا اور وہاں پولیس اہلکاروں کومقدمے کے اندراج کے لئے دھمکیاں دیتا رہا۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کاچہرہ دکھا کے کر رہی ہے۔ عمران خان اپنی سیاسی زندگی کی آخری اننگز کھیل رہے ہیں مگریہ اس ملک میں اداروں کی آخری اننگز نہیں ہے۔ مجھے سیانوں کا قول یاد آ رہا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن سے بہتر ہوتا ہے اور وہ شخص بھی جس نے ایک ریچھ کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک رو ز وہ شخص کسی درخت کے کنارے سو رہا تھا اور ریچھ کو اس نے اپنے چہرے سے مکھیاں اڑانے کی ڈیوٹی دے رکھی تھی۔ ایک مکھی بار بار اس شخص کے ناک پر بیٹھتی۔ ریچھ اسے اڑا دیتامگروہ ضدی مکھی دوبارہ آکر بیٹھ جاتی۔ جب مکھی نے یہ حرکت پانچ، سات بار دہرائی تو ریچھ غصے میں آ گیا۔ اس مرتبہ جب مکھی اس شخص کی ناک پر آ کر بیٹھی تو ریچھ نے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اس مکھی کو مارنے کے لئے اس کی ناک پر دے مارا۔ نتیجہ وہی نکلا جو کل رات سے کراچی میں نکل رہا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ پی ڈی ایم کے کراچی میں ایک روایتی جلسے کے بعد کس نے مشورہ دیا تھا کہ محض دو، تین معمولی نعروں کو بنیاد بنا کر ایک نیا محاذ کھول لیا جائے۔ مسلم لیگ نون کراچی کی بڑی سیاسی طاقتوں میں شامل نہیں، مریم نواز کے لئے کراچی کے ایک بڑے جلسے سے خطاب ایک بڑی بات تھی اور اس جلسے نے ایک دو روز ڈسکس ہو نے کے بعد ختم ہوجانا تھا۔ کراچی میں رہتے ہوئے مسلم لیگ نون کی قیادت کو ڈسکس ہونے کے لئے ایک بڑی ایکٹی ویٹی کی ضرورت تھی۔ میں توسمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہوا اس پر مسلم لیگ نون کی طرف سے حلیم عادل شیخ اور ان کے سرپرستوں کی مضحکہ خیز منصوبہ بندی، ان کے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے مفرور کزن اور وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کے تھرڈ کلاس آئی کیو لیول کا خصوصی طورپر شکریہ ادا کرنا بنتاہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو جلسے کے بعد پورے ملک کے میڈیا پر چاہے وہ الیکٹرانک تھا یا سوشل، صرف اور صرف کیپٹن صفدر کے چرچے تھے۔ یار لوگوں نے اس موقعے پر مادرملت کی وہ تقریریں بھی ڈھونڈ نکالیں جو لوگ بھول بھال چکے تھے۔ نواز لیگ کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ قدرت نے اسے سیاسی مخالفین کی صورت احمقوں کا ایک ٹولہ عطا کیا ہے جو مریم نواز کے الفاظ کے عین مطابق دماغ کے بجائے صرف اور صرف طاقت سے سوچتا اورعمل کرتاہے۔ پی ڈی ایم کے روایتی جلسے کے بعد مسلم لیگ نون کو وہاں کی سیاست اور میڈیا میں ان رکھنے کے لئے اس سے بہتر تدبیر ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ مریم نوازکی قیام گاہ پر حملہ کیا جائے، اس کا دروازہ توڑا جائے، نواز شریف کے داماد کو چند گھنٹوں کے لئے حوالات میں ر کھا جائے اور اس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے رہی جو نواز لیگ نے مچلکے کی صورت نقدادا کئے۔
بات سیاست تک رہتی تو ٹھیک تھی مگر اس مہم جوئی نے سندھ کے ایک ادارے کو دوسرے ادارے کے خلاف لا کھڑا کیا ہے اور اب یقینی طور پر یہ ادارہ ہر جگہ ڈسکس ہو گا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اداروں کا نہ ڈسکس ہونا ہی ان کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے کیونکہ وقت گزر جاتا ہے اور تاریخ کبھی فراموش نہیں ہوتی۔ آئی ایس پی آرکی پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے مگر میرے خیال میں یہ دودھ زمین پر گر چکا ہے، اسے دوبارہ برتن میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ آئی جی سندھ مشتاق مہر، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرزثاقب اسماعیل میمن، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس، ڈی آئی جی ایڈمن امین یوسف زئی، ڈی آئی جی جنوبی جاوید اکبر ریاض، ڈی آئی جی ایسٹ محمد نعمان صدیقی، ڈی آئی جی ویسٹ کیپٹن ریٹائرڈ عاصم خان، ڈی آئی جی سی آئی اے محمد عارف حنیف، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد، ڈی آئی جی حیدرا ٓباد نعیم شیخ نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں کہ جس طرح کے مقدمات لاہور میں درج کئے جا رہے ہیں وہ بالکل اسی طرح دباو کے تحت ہیں، ناجائز ہیں، سیاسی انتقام ہیں اور کراچی میں درج ہونے والے مقدمے کی ہی مثال ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس عزت اور غیرت کا مظاہرہ سندھ کے تعینات پولیس افسران نے کیا، کیا وہ پنجاب کے پولیس افسران بھی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ امر واضح ہوچکا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ہر صوبے میں پولیس کو اپنی پولیٹیکل فورس کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
میں دوبارہ سیاست کی طرف آ وں گا اورکہوں گا پی ٹی آئی نے منصوبہ بندی یہ کی تھی کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے ذریعے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے درمیان دراڑ ڈالی جائے، اس کے ذریعے پی ڈی ایم کو کمزور کیا جائے مگر مسلم لیگ نون کی قیادت نے جہاں پہلے روز تحمل اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا وہاں دوسرے روز بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی فراست اور جناب آصف علی زرداری کی رواداری کی بہترین مثال پیش کر دی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ میں اس واقعے پر شرمندہ ہو ں اورمنہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں۔ میرا تجزیہ ہے کہ اس واقعے کے بعد پی ڈی ایم زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ حلیم عادل شیخ اور علی حیدر زیدی سمیت جن لوگوں نے بھی یہ منصوبہ بندی کی وہ اپنے دوستوں کے لئے وہی ریچھ ثابت ہوئے جس نے مکھی مارنے کے لئے بھاری پتھر چہرے پر دے مارا تھا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ناک ٹوٹ گئی اور چہرہ کچلا گیا تھا تو پتا چلا تھا کہ وہ جس مکھی کو مارنا چاہتے تھے وہ اُڑ چکی تھی۔