میں بنیادی طور پر اس نظرئیے کا حامی ہوں کہ حکومتوں کوکاروبار نہیں کرنے چاہئیں، انہیں کاروباروں کے ریگولیٹر کے طورپرکام کرنا چاہئے مگر صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس اورصاف پانی جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں حکومت کو ضرور موجود ہونا چاہئے۔ ابھی کچھ روز قبل ہی میں نے پاکستان ہائیڈرو الیکٹرک یونین کے مظاہرے میں شرکت کی جس کی قیادت مزدور حقوق کے لئے زندگی صرف کر دینے والے خورشید احمد کر رہے تھے۔ وہاں ساجد کاظمی بتا رہے تھے کہ حکومت نے لیسکو سمیت بجلی کی تقسیم کار ان کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے جو اس وقت منافعے میں ہیں۔ لیسکو کی ریکوری سو فیصد ہے مگر اس کے باوجود اسے سیٹھوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مجھے ڈرا دیا کہ اگر لیسکو سمیت دیگر منافع بخش کمپنیوں کی پرائیوٹیائزیشن کر دی گئی تو لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد جیسے شہروں کا حال بھی بجلی کی سپلائی کے حوالے سے کراچی جیسا ہوجائے گا جہاں نجکاری والی کے الیکٹرک ہے کیونکہ سیٹھ عوام کی سہولت نہیں بلکہ اپنے منافعے کو پہلے دیکھے گا۔
میں نے اپنے ذاتی تجربے میں دیکھا ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے میں اصلاحات میں ناکامی جیسی نااہلی پر حکومتوں کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اسے بیچ دے مگریہاں بنیادی سوال ہے کہ اگر آپ بیچنا ہی چاہتے ہیں کہ تو گھاٹے والے اداروں کو کیوں نہیں بیچتے، وہ ادارے کیوں بیچتے ہیں جو منافعے میں ہیں، سرکار کے خزانے سے کچھ نہیں لے رہے بلکہ اربوں روپے دے رہے ہیں۔ یہ بات ہی کامن سینس کے خلاف ہے کہ آپ گھاٹے والے اداروں کوسنبھالے رکھیں اور منافعے والے ادارے نیلامی کے لئے پیش کر دیں۔ یہاں فکر اور تشویش کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ منافعے والے ادارے خریدنے والے ہمیشہ حکمرانوں گڈبکس میں ہوتے ہیں۔ تحقیق کی جاتی ہے توعلم ہوتا ہے کہ ان پیاروں نے حکمرانوں پر کروڑوں روپوں کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے اور اب وہ ان کروڑوں کو اربوں اور کھربوں کی صورت میں واپس لینا چاہتے ہیں مگر سرکاری خزانے سے، قومی جائیدادوں کی بندربانٹ اور لوٹ مار کے ذریعے، حکمرانوں پرسرمایہ کاری کرنے والے کبھی گھاٹے کے ادارے نہیں خریدتے۔
کیا اداروں میں اصلاحات ممکن ہیں کہ اس کے لئے ہمارے سامنے سٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے کی مثال پیش کی جاتی ہے تو اس سوال کا جواب ریلوے نے سابق دورمیں دیا جب اس کی آمدن اٹھارہ ارب سالانہ سے بڑھ کر پچاس ارب تک پہنچ گئی، ٹرینیں صاف ستھری، بروقت اورمعیاری ہوگئیں، خسارہ کم ہو کر ستائیس ارب تک پہنچ گیا اور اگر ریلوے کو اسی طرح کے دو ادوار اورمل جاتے تو اس کی کایا پلٹ جاتی مگر موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اس برس خسارے نے پہلی مرتبہ پچاس ارب سالانہ کی حد عبورکی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ ٹرینیں گندی بھی رہتی ہیں اور لیٹ بھی، عوام نے ریلوے کو دیا گیا اعتماد واپس لینا شروع کر دیا ہے، اس کے مسافروں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی ہو رہی ہے مگر اس کے باوجود جب قومی اداروں کی نجکاری کی بات کی جاتی ہے تو ایک بہت بڑا خطرہ موجود ہوتاہے کہ چاہے یہ ادارے خسارے میں ہیں مگر ان کے ہزاروں اربوں کے اثاثے موجودہیں اور کوئی سیٹھ ان کی مارکیٹ ویلیو نہیں دے سکتا۔ پی ٹی سی ایل کی مثال موجود ہے کہ خسارے کو دکھا کر اثاثے بھی دے دئیے جاتے ہیں حالانکہ وہ کسی حکمران کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتے، قوم کی ملکیت ہوتے ہیں۔
مجھے یہ سب باتیں اس وقت یاد آئیں جب میں نے سوئی نادرن گیس کمپنی کے ملازمین کو کمپنی کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دیکھا۔ اس وقت کچھ سیٹھوں کے منہ میں اس کمپنی کو دیکھتے ہوئے پانی آیا ہوا ہے اور وہ سیٹھ حکمرانوں کی گودمیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھر میں سوئی گیس کی فراہمی دو کمپنیاں، سوئی سادرن اور سوئی نادرن کرتی ہیں، سوئی ساودرن کے پاس کراچی اور بلوچستان ہے جبکہ سوئی نادرن کے پاس پنجاب اور خیبرپختونخواہ ہے۔ سوئی نادرن کے اس وقت سات سے آٹھ ہزارملازمین ہیں جو ان دونوں صوبوں میں گیس کی فراہمی کر رہے ہیں۔ یہ کمپنی بھی ہرگز خسارے میں نہیں ہے بلکہ اس نے پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دو برسوں میں ہی پندرہ سے سولہ ارب روپے منافع کما کے دیا ہے۔ اب اس کمپنی کو ایک سے زیادہ کمپنیوں میں تقسیم کرتے ہوئے اس کی بندربانٹ کامنصوبہ بنایا گیا ہے جس کے بعد سات آٹھ ہزارملازمین کے اوپر مزید افسران لاد دئیے جائیں گے، اس کے انتظامی اخراجات بڑھا دئیے جائیں گے اور اسے کچھ مخصوص لوگوں کے حوالے کر دیا جائے گا حالانکہ اس کمپنی کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی ڈسٹری بیوشن لائنیں ہیں۔ اگر کوئی ووسرا اس فیلڈمیں اس کامقابلہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈسٹری بیوش لائنیں بچھا لے اور مقابلہ کر لے مگر حکومتی طاقت اورجبر کے ذریعے اس کمپنی کے اثاثوں پر قبضہ کرنا باقاعدہ ڈکیتی ہو گی۔ ملازمین اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کے وورکو یاد کررہے ہیں جب سوئی گیس کے ملازمین کو کمپنی کا شئیرہولڈریعنی مالک بنایا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملازمین کو ساڑھے بارہ فیصد شئیرز کامالک بنایا تھا مگر اب صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ دو، تین برسوں سے سو ئی گیس کے ملازمین کی تنخواہوں میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ مراعات واپس لی گئی ہیں۔ مجھے سو ئی گیس کے ایک ملازم نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے بتایا کہ پہلے تبدیلی یہاں بہت اوپر کھڑی تھی اور اس کے بعد وہ زمین پر گر گیا اوربولا کہ اب تبدیلی یہاں نیچے گری پڑی ہے۔
ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ لیسکو کا نظام کون سا فول پروف ہے اور دوسری طرف سوئی نادرن تو سردیوں میں گیس ہی فراہم نہیں کرتی تو لیسکو والے اس کے جواب میں کے الیکٹرک کی کارکردگی دکھا دیتے ہیں۔ یوں بھی یہ دونوں کمپنیاں بجلی یا گیس پیدا نہیں کرتیں۔ سرکار جتنی بجلی پیدا کرے گی اس کی تقسیم ہوجائے گی اور اسی طرح اوگرا گیس کی تقسیم اورقیمت کا فیصلہ کرتاہے۔ اگر ان دو اداروں کی نجکاری کر دی گئی تو یہ پنجاب کے عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگاکہ انہیں گیس اوربجلی جیسی بنیادی ضروریات کے لئے بھی سرمایہ داروں اورٹھیکیداروں کے حوالے کر دیا جائے گا اور ان اداروں کے کھربوں کے اثاثے حکومتی پارٹی کے گماشتوں کی ملکیت میں چلے جائیں گے۔ اثاثے اور جائیدادیں بیچنے والا کام نالائق اولادوں سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ لائق اولاد ہمیشہ باپ کے چھوڑی ہوئی جائیدادمیں اضافہ کرتی ہے۔ ویسے یہ کام میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنزایکٹ کے تحت ہسپتالوں میں بھی کیا جا رہا ہے اورہسپتالوں کی مینجمنٹ ان سیٹھوں کے حوالے کی جارہی ہے جو الیکشن میں پی ٹی آئی کے فنانسر تھے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کہتا ہے کہ مینجمنٹ کرنے والوں کو ہسپتالوں کی زمینیں تک بیچنے کا اختیا ر ہو گا اور یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے کہ ہر طرف قومی اثاثوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے اور اگر ا س کی مخالفت اورمزاحمت نہ کی گئی عین ممکن ہے کہ جب موجودہ حکمران ٹولہ رخصت ہو تو پاکستان کے قومی اثاثے ان کے پیاروں کی ذاتی ملکیت بن چکے ہوں اور پاکستان کے عوام پاکستان کے حقیقی مالک ہونے کے باوجود اپنے ہی گھر میں ان طاقتورمگرمچھوں کے کرائے دار ہوں۔ ہر طرف چھوٹی بڑی ایسٹ انڈیا کمپنیاں موجو د ہوں جن سے آزادی کے لئے ہمیں ایک مرتبہ پھر قیام پاکستان جیسے جوش، جذبے اور قربانیوں والی تحریک چلانی پڑے۔